ایک پشتون کے شکوے ۔۔۔ بلال محمود

بالی ووڈ کی ایک فلم دیکھ رہا تھا جو کے Human traficking پر مبنی ہے۔ فلم میں ایک خیالی سلطنت غالباً سلطنتِ نعمان ازبکستانمیں بنائی گئی ہے۔ کہانی اس کی کچھ یوں ہے کہ ہیرو اور اس کی بیگم سلطنتِ نعمان میں نوکری کے لئے اپلائی کرتے ہیں۔ بیوی کینوکری پہلے لگنے کی وجہ سے وہ پہلے چلی جاتی ہے تاہم وہاں جاتے وہ پھنس جاتی ہے اورhuman traffickingمیں ملوث لوگ اُسےاغوا کر لیتے ہیں۔

اب بھائی صاحب چونکہ یہ فلم ہے اور وہ بھی ہندوستانی تو کچھ کر کرا کے شوہر نامدار پہنچ جاتے ہیں سلطنتِ نعمان بیوی کوڈھونڈنے۔ بیوی کی کھوج شروع ہوتی ہے اور کافی تگ و دو کے بعد ایک قحبہ خانے میں مِلتی ہے۔ وہاں یہ مار کتائی تو بہت کرتا ہےلیکن بیوی کو چھڑانے میں ناکام رہتا ہے۔ ہندوستانی فلم ہے بھئی اب اتنی جلدی اور آسانی سے تھوڑی بیوی ہاتھ میں تھما دیںگے۔ جذبات سے کھیلیں گے اُسے گندے گندے خیالات لا کر،2 3 کارٹن شراب کی بھی پلوا دیں گے، تھوری سی مار وار بھیکھلائیں گے ہیرو کو تب جا کر ملے گی اُسے اس کی شریکِ حیات۔

خیر وہاں مار کٹائی کے دوران ہیرو خود بھی کافی گھائل ہو جاتا ہے اور گاڑی دوڑاتے دوڑاتے ٹھونک کر بہوش ہو جاٹا ہے۔ جبصاحب ہوش میں آتے ہیں تو خود کے پولیس اسٹیشن میں پاتے ہیں۔ وہاں انڈین ایمبیسی کو اطلاع کی جاتی ہے اور ایک افسر ملنےآجاتا ہے۔ کہانی سننے کے بعد افسر وہاں کے کمانڈر سے مدد کے لیئے کہتا ہے جو مدد کی حامی بھرتا ہے۔ مزید برآں خصوصی ٹیم بھیتعینات کردی جاتی تاکہ اس کیس کو حل کیا جا سکے۔ بہت اچھی بات۔

 

خیر اصل مدعی پر آتا ہوں کیوں کہ کہانی اگر آپ کو جاننا ہے تو میں فلم کا نام بتا دوں گا آپ خود دیکھ لیجیئے گا۔

 

یہ کیس حل ہوتے ہوتے اس human trafficking کے سرغنہ تک پہنچتا ہے جو فلم کا ولن ہے۔ مجھے چوالیس ہزار وولٹ کا جھٹکا یہجان کر لگا کہ ولن خبیث پشتو بول رہ ہے۔ ایک طرف تو اچھا لگا کے چلو اپنی زبان اتنی آگے چلی گئی ہے کہ موویز میں آنے لگیہے لیکن دکھ اس چیز کا ہوا کہ صاحب آج تک تو ہماری خاصیت دہشتگردی تھی، اب ہمیں اس معیوب کام میں بھی کھینچا جا رہاہے۔

اب باقاعدہ دل میں درد ہونے لگا۔ اس انڈین ڈائریکٹر اور پروڈیوسر پر تپ چڑھی کہ جناب تمہارے گھر سے کس کو human trafficking میں بھیجا ہے ہم پشتونوں نے جو تم ہمیں ایسا دکھا رہے ؟ اچھا یہ صرف اس ایک فلم کی حد تک محدود نہیں ،میں نےکچھ وقت میں کافی ایسی بھارتی فلمیں دیکھیں ہیں جس میں باقاعدہ طور پر پٹھانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مطلب یہ ثابت کیا کرنا چاہتےہیں؟ پٹھان کیا ہیں اور کون ہیں تم جانتے بھی ہو یا نہیں؟ تم جا کر دیکھو پٹھانوں کی تاریخ، ان کی جنگیں، ان کی قربانیاں یا چلو تاریخکو گولی مارو تم آج آجاؤ اور دیکھو ہماری روایت، ہماری ثقافت، ہماری مہمان نوازی، ہماری عزت افزائی، ہماری غیرت۔ تمہماری امیج human trafficking میں دکھا رہے ہو؟ ارے ہم تو عورت کی عزت کے لیئے جان بھی دے دیں گے ،اور تم ہمیںجان لیتے ہوئے دکھا رہے ہو؟

لیکن جناب عالی، یہ مسئلہ صرف ایک ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ قصور تمھارا نہیں ہے، ہمیں اپنے ملک میں کوئی قیمت نہیں دی جارہی ہے اور نہ دی گئی ہے۔ 1999سے 2004 تک پاکستان میں موبائل فونز عام ہونا شروع ہوئے تو کچھ عرصے بعد ا ایس ایم ایسپیکیجز آنا شروع ہوئے۔ ان ایس ایم ایس میں جو سب سے زیادہ شیئر ہوتے تھے وہ لطیفے ہوا کرتے تھےاور ان لطیفوں میں 90٪لطیفے پیٹھان پر ہوا کرتے تھے۔ نجانے کیوں لیکن اس وقت سے ہمیں ایک لقبخانکا ملا۔ یقین مانیے آج تک ہم کسی بھی جگہچلیں جائیں, کسی بھی چھوٹی بڑی تقریب میں ہمیں ہمارے نام سے کوئی نہیں پکارتا، خان صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ہم بےوقوف کہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ تحریک جس کی بھی تھی تھی لیکن اسی زمانے سے ہمیں منفی اور نیچا دکھایا جارہا ہے اور وہبھی اپنے ہی ملک میں۔ قصور ہمارا صرف اتنا ہے کہ ہم جذباتی ہیں، غیرت مند ہیں۔ اپنے ملک پر آجائے تو ملک بچاتے ہیں، شہر پرآجائے تو شہر بچاتے ہیں اپنے گھر پر آجائے توگھربچاتے ہیں اور وہ کسی چیز کی پروا کیے بغیر ۔ ہمیں اِس لیئے ٹارگٹ بنایا گیا کہ ہمنے کشمیر دیا آپ کو، یا اس لیئے کہ ہم نے روس کے خوابوں کو چکنا چور کیا۔ آج ہمیں آپ کے میڈیا کے ہر ایک کمرشل میں، ہرایک ڈرامے میں، ہر ایک فلم میں، ہر ایک ڈاکیومنٹری میں اگر کوئی کوئی جاہلیت، کوئی انتشاریا کوئی ٹیررسٹ دیکھنا ہوتا ہے تو و پٹھانہوتا ہے۔

یہاں پر ایک چیز میں واضح کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ گلا اپنوں سے کیا جاتا ہے۔ میرا گلا میرے اپنوں سے یہ ہے کہ یہ جو آپلوگوں نے دنیا کی تمام منفی خصوصیات ہم میں ڈال دی ہیں تو آپ مجھے بتائیں کہ جن لوگوں میں آپ لوگ ہمیں ڈال رہے ہیں یہڈالا ہوا ہے، یہ لوگ تو ہم میں ہے ہی نہیں تو پھر کیوں ایسا۔ آپ آئیں دیکھیں ہمیں، ہماری ثقافت ، روایت ، احترام ، مہماننوازی کو دیکھیں اور مطالعہ کریں، آپ کو کہیں جاہلیت، ڈسرسپکٹ یہ کوئی انتشار پسندی نظر نہیں آئے گی۔ جب ہم میں یہ مسائلہیں ہیں نہیں تو پھر مسئلہ کہاں پر ہے۔ مسئلہ یہاں پر آتا ہے حضور کہ جب پورا محلہ آپ کو چور بولے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکنجب آپ کااپنا باپ آپ کو چوربول دے تو آپ چورdeclare کر دیئے جاتے ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اپنے بڑوں نے چور بنا دیا ہے تو غیروں سے کیا گلا۔ ہمارا اپنا میڈیا ہمارا مذاق اڑا رہا ہے تو انڈین میڈیا سے کیا گلا۔

 

Facebook Comments