موجودہ دور میں ہمیں جس آہم مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ تقسیم علم اور اس کے بعد علم کے محض ایک پہلو پر ہی تخصیص کے حصول کے لئے کاوش اور اسی کو ترقی کیلئے لازم قرار دینا ہے۔ یہ تقسیم اور تخصیص علم ہی ہے جو اس جدید دور میں ادھورے دماغ اور ادھوری شخصیات کی تشکیل کر رہا ہے۔ اس طرح کے ادھورے دماغ معاشرے کے ایک پہلو کو سمجھنے میں تو مدد دے سکتے ہیں لیکن یہ کسی بھی معاشرے کا ایک مکمل اور ہمہ جہتی شعور دینے سے عاجز ہیں ، جس کی وجہ سے مذہبی معاشی اور معاشرتی نظریات کا شعوری تجزیہ تو درکنار آج کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان کے حوالے سے کسی قسم کا شعور ہی نہیں رکھتا اور محض کسی چینل پر چلنے والے خبطی ذہن کے ایک اینکر، کسی اخبار میں شائع ہونے والے جنونی کے ایک کالم یا پھر محض ایک خبر کی بنا پر اپنی رائے بناتے اور بگاڑتے نظر آتے ہیں، کیوں کہ تجزیاتی فکر پیدا کرنے کی صلاحیت تو سرے سے پیدا ہی نہیں کی گئی۔یہ میکانکی اور عملی تعلیم جو محض ادھوری شخصیتوں کی تشکیل کر رہی ہے، اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ تعلیم کا مقصد تو شخصیت کی تکمیل ہونی چاہیے ۔
اسے انسان کی ہر تخلیقی صلاحیت کو ابھارنا چاہیے اور انسانی شعور کو دنیا کے ہر دلچسپ اور سبق آموز پہلو سے روشناس کروانا چاہئے، وہ شخص جو ایک اعلی درجے کی ڈگری رکھتا ہو یا کروڑوں روپے کا مالک ہو، لیکن اس کے لئے ساون کی بارش یا خزاں کے موسم میں ڈوبتے سورج کی جنگلوں میں پھیلتی روشنی، کسی مجسمہ ساز کا تراشیدا مجسمہ بے معنی سی شے ہو، وہ انسان نہیں محض ایک انسانی ہیولہ ہی ہو سکتا ہے، وہ تعلیم جو محض نصاب تک محدود ہو جائے وہ انسانی شعور کو جمالیات سے نا آشنا کر کے انسانی روح کو اسکی اپنی شخصیت کے اندھیرے دریچوں میں قید کر دیتی ہے۔نصابی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی مطالعہ ہی انسان کے شعور میں گہرائی پیدا کرتا ہے اور فکر کی علمی آبیاری کر کے اسے پختگی عطا کرتا ہےجس کے ذریعے اس میں اعلیٰ درجے کی تجزیاتی فکر پیدا ہوتی ہے جو نظریات اور حادثات کو اس کی معروضیت اور عملیت کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم مدرسوں اوریونیورسٹیوں سے نہیں بلکہ ذاتی مطالعہ سے ہی یہ شعوری بلوغت حاصل ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں کتاب کو بوجھ اور کتاب بین کو جنونی سمجھ لیا جائےتو پھر ان کی اعلیٰ سطح کی جامعیات عملی طور پر جس جنونیت کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں ، اس پر بس انسانیت خون کے آنسو ہی رو سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں