عدلیہ کی شرمناک چین آف کمانڈ /انعام رانا

بات شروع کرنے سے قبل عرض کر دوں کہ میں آئین کے مطابق الیکشن کے حق میں ہوں۔ سیاسی جماعتیں باہمی رضامندی سے ملکی حالات کے پیش ِ نظر تاریخ کچھ آگے کر لیں تو اور بات، مگر الیکشن آئین کے مطابق ایک بار نہ  ہوئے تو پھر آئندہ کی مثال بن جائے گی اور ہر حکومت ہی تاخیری حربے استعمال کرے گی۔

لیکن بطور قانون کے ایک طالب علم، مجھے افسوس ہے کہ عدلیہ اپنی توقیر لٹانے پہ تلی ہے۔ دوسری جانب خوشی ہے کہ افتخار چوہدری کے بنائے شرمناک چین آف کمانڈ کی کڑیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ افتخار چوہدری کو عوام نے امید کا ایک مرکز بنایا کہ اس وقت سیاسی جماعتیں یا تو مشرف کے ساتھ تھیں یا بھاگی ہوئی تھیں، لرزاں تھیں۔ ایسے میں وکلاء  نے فاقے کاٹ کر قانون و آئین کی سربلندی کی ایک طویل تحریک چلائی۔ بھلے اس میں آپ کیانی فیکٹر ڈالیں یا امریکی اشارہ، جنگ عام وکیل نے لڑی اور جیتی۔ ایک موقع تھا کہ قانون و آئین کی سربلندی پہ مبنی نظام بنتا، نظام عدل میں عوامی مفاد میں بدلاؤ آتا اور بہت کچھ بدل جاتا، مگر افسوس رانگ نمبر نکلا۔

آج وہ وقت آیا ہے کہ پسند کے تین چار ججوں کے سوا کوئی ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہے، اخلاقی قوت جو عدلیہ کا ہتھیار ہوتی ہے، چوک میں اوندھے منہ پڑی ہے اور جن پہ آپ کا حکم لاگو ہونا ہے وہ اسے راہ چلتے ڈھول کی مانند بجا رہے ہیں۔ اس مقام تک عدلیہ کو نام نہاد ہیروازم، ٹِکر کمنٹس اور چین آف کمانڈ لائی ہے۔

خواجہ شریف نے عدلیہ میں موجود اس ذہنی پستی کی بہترین ترجمانی کی جب کورٹ میں کہا کہ اب “عدلیہ کی چین آف کمانڈ” قائم ہو گئی ہے۔ یعنی عدلیہ ایک سٹیک ہولڈر بن گئی۔ چوہدری کے من پسند جج بنے، وکلا نوازے گئے، سیاست کی توقیر رسوا کی گئی، عدلیہ ایک سٹیک ہولڈر بن گئی، بادشاہ گر بن گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف کی مانند “چین آف کمانڈ” کا نمائندہ بن گیا جس کے اشارہ ابرو پہ باقی آمنا صدقنا کہیں۔ کرد چیخا، عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں۔

ثاقب نثار عرف ڈیم والا بابا عرف بابا رحمت نے عدلیہ کی رہی سہی عزت کو چوک میں نیلام کیا۔ ہیروازم اور شہرت کے بھوکے نے ہر وہ کام کیا جو بطور چیف جسٹس اسے نہیں کرنا تھا اور ہر وہ کام نہ  کیا جو اسے اس حیثیت میں کرنا چاہیے تھا۔ بطور چیف اور اس چین آف کمانڈ کے نمائندہ، اس نے ایسا شرمناک کردار ادا کیا کہ بطور پاکستانی وکیل خود پہ فقط شرمساری ہوتی ہے۔ کاش سیاسی جماعتیں اور کچھ کریں نہ  کریں، ان دو شرمناک کرداروں اور انکے ٹِکر چلانے والے صحافیوں کو کٹہرے میں بطور قومی مجرم ٹرائل کریں۔

اگر آپ ان دو شرمناک کرداروں اور انکے ہمنواؤں کے کردار کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ “از خود نوٹس” انکا ہتھیار تھا۔ پسندیدہ اداکارہ کی شراب کے کیس سے لے کر کرپٹ بیٹے کو بچانے تک، پیسے بنانے والے کیس سے لے کر فوجی اشارے پہ سیاستدانوں کو نوازنے یا سزا دینے کے کیسوں تک اور ہر اس کیس میں جس میں مشہوری کا امکان ہو، انھوں نے بھونڈے طریقے سے “از خود نوٹس” کا استعمال کیا۔ کیس دوسرے جج سے اپنی عدالت تک میں ٹرانسفر کر لیے تاکہ انکے دلال صحافی ٹِکر چلا کر انکو مشہور کریں۔ یہ اور بات کہ پھر جب وقت بدلا تو انکے وہی دلال اسی طرح آبدیدہ ہوتے تھے جیسے آج خود جج ہو رہے ہیں۔

جسٹس بندیال بہت قابل ہیں، عزت دار ہیں ایماندار ہیں لیکن اس گندے چین آف کمانڈ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس نے اس ملک میں آئین و قانون کی اور عدلیہ کی عزت کی دھجیاں اُڑائیں۔ آج وہ وقت آیا ہے کہ پسند کے تین چار ججوں کے سوا کوئی ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہے، اخلاقی قوت جو عدلیہ کا ہتھیار ہوتی ہے، چوک میں اوندھے منہ پڑی ہے اور جن پہ آپ کا حکم لاگو ہونا ہے وہ اسے راہ چلتے ڈھول کی مانند بجا رہے ہیں۔ اس مقام تک عدلیہ کو نام نہاد ہیروازم، ٹِکر کمنٹس اور چین آف کمانڈ لائی ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ جسٹس بندیال عدلیہ کی بچی کچھی عزت اور “سٹیک” کو بچا لیں۔ الیکشن ایشو پہ ایک فُل کورٹ فیصلہ ہی اس کا حل ہے تاکہ یہ تاثر زائل ہو کہ تین جج کسی ایجنڈے پر ہیں۔ اگر الیکشن آئینی تقاضا  ہے تو اپ کو کیوں لگتا ہے کہ باقی جج آئین کے پابند نہیں ہیں؟ دوسرا از خود نوٹس پہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو بلا چوں    و چرا  قبول کیا جائے بلکہ خود اس معاملے میں کچھ فیصلے لیے جائیں۔ تیسرا ٹی وی چینل ٹِکر کمنٹس سے مکمل پرہیز ایک موثر اور طویل مدت علاج ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چیف جسٹس اور اس “چین آف کمانڈ” کی باقی “کڑیوں” کو یاد رکھنا چاہیے کہ تاثر بہت اہم ہوتا ہے۔ وکلا نے جو عزت تشدد، موت اور فاقوں سے کما کر آپ کو دی تھی، آپ نے چین آف کمانڈ کے چکر میں اسے یوں لٹایا ہے کہ آج آپ کا تاثر کافکا ٹرائل کے جج سے زیادہ نہیں رہ گیا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply