دسویں پارے کا خلاصہ

سورۃ الانفال کا آغاز نویں پارے میں جبکہ اختتام   اس پارے میں ہوتا ہے، اور سورۃ توبہ کی ابتدائی 93 آیات ہیں۔
سورۃ الانفال کے آغاز میں مال غنیمت کے حوالے سے تربیت کرنے کے بعد اب یہاں اس کی تقسیم کا طریقہ بتایا گیا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے پانچ حصّے کیے جائیں گے۔ پانچواں حصّہ اللہ اور اس کے رسول  کے لئے ہے اور باقی چار حصّے مجاہدین میں تقسیم کئے جائیں گے، سوار کے دو حصّے اور پیادہ کے لیے ایک حصّہ ہے۔ جو اللہ اور اسکے رسول   کا حصہ ہے وہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اہل بیت، اور ضرورت مند مسلمانوں کے لئے ہے، اللہ کا نام صرف برکت کے لیے آیا ہے۔ مال غنیمت امانت ہے، تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ بھی لینا مجاہد کے لئے جائز نہیں۔
اس کے بعد غزوہ بدر کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی گئی۔ اللہ تعالی نے کافروں کی تعداد مسلمانوں کو تھوڑی کرکے دکھائی تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے۔ یہاں ایک اہم ہدایت یہ کی گئی کہ جب بھی جنگ کا سامنا ہو ثابت قدم رہنا چاہیے۔ ثابت قدمی ہر چیز میں فائدہ مند ہوتی ہے۔ کامیابی کے چند اصول بتائے گئے جن میں ذکر اللہ کی کثرت، اللہ اس کے رسول کی اطاعت، جھگڑے اور نفرت سے اجتناب اور صبر شامل ہیں۔ آپس کی لڑائیوں سے رعب ختم ہوجاتا ہے۔ اترانے اور فخر جتانے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ کفار مکہ کی صفت بتائی گئی۔

اس غزوہ کے موقع پر شیطان بھی بنو مدلج کے ایک سردار کا روپ دھار کر قریش کے لشکر کے ساتھ آیا تھا۔ جب اس نے فرشتوں کو دیکھا تو واپس چلا گیا، اور عین معرکے میں دھوکا دے گیا۔ یہی اس کی عادت ہے کہ عین وقت پہ دھوکا دے جاتا ہے۔ یہ منظرکشی بھی کی گئی کہ کس طرح فرشتے دردناک طریقے سے کافروں کی جان نکال رہے تھے۔
یہاں اللہ تعالی نے ایک اہم اصول یہ بتایا کہ جب تک انسان اپنے اعمال نہیں بدلتا اللہ تعالی اس کے حالات نہیں بدلتا۔ ناشکری ہوگی تو نعمتیں چھن جائیں گی جبکہ شکر اور اطاعت سے نعمتیں برقرار رہتی ہیں۔
پھر فرمایا ان سرداران مکہ کا معاملہ بھی فرعون اور بقیہ گزشتہ اقوام کے منکرین کی طرح ہے لہذا انجام بھی ویسا ہی ہوگا۔

پھر چند ہدایات اقوام کے مابین ہونے والے معاہدوں کے بارے میں دی گئیں۔ مسلمانوں کو ہدایت دی گئی کہ جہاں تک ممکن ہوسکے جنگ کی تیاری رکھو۔ تیاری کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے خوشخبری سنائی گئی کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا بہترین بدلہ ملے گا۔ یہ بھی ہدایت کی گئی دشمن اگر صلح کرنا چاہیے تو صلح کر لو جنگ صرف ضرورت کے لئے ہے۔

صحابہ کرام کی تعریف کی گئی کہ اللہ نے ان کے دل میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی یہ اللہ کا انعام ہے جو مال سے نہیں مل سکتا۔ تسلی دی گئی کہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرنے والے مومنین کے لئے اللہ کافی ہے۔ جو اللہ کے احکام کی حفاظت کرتا ہے اللہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ جہاد کی ترغیب دی گئی کہ اگر جہاد کے لئے عزم پختہ ہو تو تم اپنے سے دو گنا دشمن پر غالب آ جاؤ گے۔ اللہ پر کامل بھروسہ ہی اصل چیز ہے۔

غزوہ بدر کیونکہ پہلا تجربہ تھا اس لیے جنگی قیدی بھی پہلی دفعہ آئے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ سیدنا عمر کی رائے تھی کہ ان کو قتل کردیا جائے کیونکہ یہ اسلام دشمن ہیں، ان کے قتل سے مسلمانوں کی ہیبت قائم ہوگی۔ سیدنا صدیق اکبر اور بعض دوسرے لوگوں کی رائے ہوئی کہ ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے تاکہ ان کے دل نرم ہوں۔ چنانچہ فدیہ لے کر ان کو آزاد کردیا گیا۔ لیکن اللہ تعالی کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا چنانچہ تنبیہ کی گئی کہ اس فیصلے پر عذاب آسکتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی بتا دیا کہ یہ فدیہ تمہارے لیے جائز ہے۔ کیونکہ اصل حکم یہی ہونا تھا کہ فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے اس لیے اللہ تعالی نے یہ نرمی کی۔

اس سورت میں مومنین مہاجرین اور انصار کی مدح کی گئی اور ایک دوسرے کی مدد کی ترغیب دی گئی۔ یہی حقیقی مومن ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے ولی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ وراثت کے حقدار رشتہ دار ہی ہیں۔ یہ ولایت دینی ہے۔

دین کی مدد کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں جو ہمیں مہاجرین اور انصار کے رویے سے معلوم ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ سورہ انفال اختتام پذیر ہوتی ہے۔

سورہ توبہ بھی مدنی سورت ہے اس کو بسم اللہ کے بغیر لکھا جاتا ہے۔ اس میں قرآن کی بقیہ تمام سورتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد میں تقریبا ً 16 دفعہ توبہ کا لفظ آیا ہے۔ یہ غزوہ تبوک کے دوران اور اس کے بعد نازل ہوئی۔ اس کے مضامین زیادہ تر غزوات سے متعلق ہیں۔

اس سورت کے ذریعے سے مشرکین مکہ کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس کے بعد ان سے کیے گئے تمام معاہدے کالعدم ہو جائیں گے اور ان کے لیے جزیرۃ العرب میں رہنے کی ممانعت کردی گئی۔ جو معاہدے ان قبائل کے ساتھ تھے جو اپنے عہد پر قائم رہے اور مسلمانوں کے خلاف کسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنے انکے معاہدے مقررہ مدت تک پورے کیے جائیں گے۔ کفار مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ سخت رویہ اپنایا تھا لہذا ان کی مہلت ختم ہوگئی۔ ان کے شر کو روکنے کے لیے ان سے لڑائی ضروری ہے۔ لیکن اگر یہ توبہ کرلیں اور اپنا عمل ٹھیک کرلیں تو پھر ان سے جہاد نہیں کیا جائے گا۔ عمل کی اصلاح کو نماز اور زکوۃ سے تعبیر کیا گیا۔ واضح ہوا کہ توبہ وہی سچی ہے جس کے بعد عمل میں تبدیلی آئے۔
نیز بتایا گیا کہ اللہ تعالی امتحان لیتا رہے گا تاکہ تمہارا اخلاص نکھر کر سامنے آجائے اور مجاہدین نمایاں ہو جائیں۔

اب تک بیت اللہ کے متولی یہی مشرکین تھے اب وقت آ گیا کہ ان سے یہ خدمت لے لی جائے۔ چنانچہ اعلان ہوا کہ مشرکین کے لئے جائز نہیں کہ وہ مسجدوں کو آباد کریں۔ مسجد کو نمازی مومن ہی آباد کرتے ہیں۔ مسجدوں کی آبادی مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ حاجیوں کی خدمت اور مسجد کی دیکھ بھال کرنے والا اس کی طرح نہیں جو مومن ہو اور جہاد کرے۔ مہاجر اور مجاہد کا اللہ کے نزدیک اونچا درجہ ہے اور اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔

مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ اگر تمہارا قریبی رشتہ دار بھی حالت کفر میں ہو تو اس کو دوست مت بناؤ۔ خیرخواہی کی ممانعت نہیں ہے دِلی محبت کی ممانعت ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ مسلمان کو ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کو مقدم رکھنا چاہیے۔ اپنی ذات، گھر والوں اور دنیاوی مال و متاع سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہونی چاہیے۔

اس کے بعد تھوڑا سا تذکرہ غزوہ حنین کا ہے۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی طرف قصد کیا۔ مسلمانوں کی تعداد اس جنگ میں پچھلے تمام غزوات سے زیادہ تھی، چنانچہ انہیں اپنی کثرت پر فخر ہوا کہ آج ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔ اللہ تعالی کو یہ بات پسند نہیں آئی اور معاملہ اس کے برعکس کردیا۔ یہاں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس کثرت کے باوجود اللہ نے ہی تمہاری مدد کی کثرت تعداد کام نہ آئی۔ چناچہ بھروسہ وسائل کی کثرت پر نہیں اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے۔ یہ بھی بتایا کہ اس موقعہ پر اللہ نے تم پر سکینت نازل کی اور فرشتوں سے مدد کی۔
اس کے بعد حکم ہوا کہ آج کے بعد سے مشرکین کا داخلہ حرم میں ممنوع ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب سے نمٹنے کی تلقین کی گئی کہ یا تو وہ ایمان لے آئیں یا جزیہ دیں تو ہی جزیرہ عرب میں رہ سکتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اہل کتاب کی بعض بری صفات بیان کی گئی کہ وہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اعلان کردیا کہ اللہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کر کے رہے گا۔

مال جمع کرنے والوں اور اس کی زکوۃ نہ دینے والوں کو تنبیہ کی گئی کہ وہ مال جس کی زکوۃ نہ دی جائے وہ قیامت کے دن آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان لوگوں کی کمر اور پشت کو دہکایا جائے گا۔ زکوۃ کے مصارف اور مستحقین متعین کردیئے گئے۔ یہ آٹھ مصارف ہیں اور من جانب اللہ مقرر ہیں۔ زکوۃ نہ دینے کی اتنی سخت سزا اس لیے ہے کیونکہ مال کی محبت انسان کے دل میں بہت گہری ہوتی ہے۔ جس چیز کی محبت انسان کو اللہ کے حکم سے روکے گی اسی چیز کے ذریعہ سے عذاب دیا جائے گا۔

اس کے بعد مزید چند ہدایات جہاد کے بارے میں دی گئی ہیں۔ یہاں غزوہ تبوک کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ تبوک میں رومیوں سے جنگ کا ارادہ تھا لمبا سفر تھا، نکلنا سب کے لئے فرض تھا۔ سخت گرمی کا موسم تھا اور فصل کٹائی کے لئے تیار تھی اس لئے بعض لوگوں کو جانے میں مشکل ہوئی۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ دنیا کی راحت کو آخرت پر فوقیت نہ دو یہ دنیا بس چند دن کی ہے۔ آخرت کی راحت دنیا کی مشقت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ یہ بھی واضح کر دیا کہ نبی کی مدد اللہ خود کرتا ہے، جس طرح ہجرت کے موقع پر اس نے اس وقت مدد کی جب وہ دونوں (رسول اللہ اور صدیق اکبر) غار میں اکیلے تھے اور اللہ ان کے ساتھ تھا۔ اس سے حضرت ابوبکر کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔

اس سورت میں اللہ تعالی نے بہت تفصیل سے جنگ اور امن میں منافقین کا رویہ بتایا کہ امن میں تو بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے ہیں اور جب لڑائی کا وقت آتا ہے تو بہانے بناتے ہیں۔ ان کا بھرم کھول دیا کہ یہ جہاد سے بچنے کے لئے کس طرح بہانے کر رہے ہیں۔ نبی کریم کو ہدایات کی گئی کہ منافقین کے جہاد کے سلسلے میں بنائے گئے بہانے قبول نہ کریں یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ ثابت ہوا نیکی کے کام سے بلا عذر بہانے بنانا منافقت کی نشانی ہے۔ ان کی بہت ساری عادات مسلمانوں کے سامنے واضح کر دی گئی۔ یہ دنیاوی فائدے کی وجہ سے خوش اور ناخوش ہوتے ہیں۔ نبی کریم کو ایذا دیتے ہیں۔ ان کے دلوں کے بھید کو کھول کر رکھ دیا۔ ان کی ایک بڑی صفت یہ بھی بتائی کہ نبی اور دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لہذا مذاق میں بھی نبی کی شان گھٹانا یا دین کا مذاق اڑانا منافقت کا رویہ ہے۔ واضح کردیا کہ یہ منافق مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، ان کے لئے دردناک عذاب اور اللہ کی لعنت ہے۔

غزوہ تبوک سے واپسی پر ایک موقع پر نبی کریم ایک گھاٹی سے اکیلے گزر رہے تھے تو کچھ منافق آپ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرنے لگے کہ آپ کو یہیں ختم کر دیں۔ اللہ تعالی نے ان کے ارادوں کو ناکام بنا دیا اس کی طرف بھی اشارہ ہے۔ چنانچہ حکم ہوا کہ اب ان کفار اور منافقین کے ساتھ سختی سے پیش آئیں اور ان کے خلاف جہاد کریں۔ ایک ہدایت یہ بھی دی گی کہ منافقین کے لئے بخشش کی دعا کرنے سے گریز کریں اور ان کی نماز جنازہ تک ممنوع قرار دے دی گئی۔

منافق ان نادار مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے جو محنت کرکے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ آخر میں ان صحابہ کی تعریف کی گئی جو ناداری کی وجہ سے جا نہیں سکتے اور غم سے روتے ہیں، یا محنت مزدوری کر کے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالی نے ان کو تسلی دی کہ معذور، کمزور اور غریب مسلمانوں کے لیے مغفرت کا وعدہ ہے۔ مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے نیکی میں ساتھی اور مددگار ہیں ان سے اللہ کی رحمت خوشنودی اور ہمیشہ کی جنت کا وعدہ ہے۔

پہلے پارے کا خلاصہ

دوسرے پارے کا خلاصہ

تیسرے پارے کا خلاصہ

چوتھے پارے کا خلاصہ

پانچویں پارے کا خلاصہ

چھٹے پارے کا خلاصہ

ساتویں پارے کا خلاصہ

آٹھویں پارے کا خلاصہ

Advertisements
julia rana solicitors london

نویں پارے کا خلاصہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply