• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کبھی کبھی ہارنے سے جیت کے راستے کُھلتے ہیں۔۔اسد مفتی

کبھی کبھی ہارنے سے جیت کے راستے کُھلتے ہیں۔۔اسد مفتی

اس دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو خوشی کی تلاش میں سرگرداں نہ ہو؟۔۔۔اُن لوگوں کو جانے ہی دیجیے جن کے لیے یہ دنیا آنسو کی طرح ٹپک کر بے حقیقت بن چکی ہے،اور وہ دوسری دنیا میں بہنے والی دودھ کی شیریں نہروں اورحور و غلمانِ بہشتی کی اُمید میں اسے تج کر ترکِ دنیا ہوگئے ہیں۔
بات اُن لوگوں کی ہے جو اسی مادی دنیا میں خود حالی کی زندگی بسر کرنے کے متمنی ہیں۔
اپنے دل میں ایسی ہزاروں خواہشوں کو پروان چڑھانے میں ہمہ وقت معروف ہیں،جن کی ہر خواہش پر دم اگر بالکل ہی نہیں نکلتا تو نزع کی سرحد پر پہنچ ضرور جاتا ہے۔ خوش بختی ی جستجو ایسے ہی دنیادار افراد کے لیے اہمیت رکھتی ہے،کہ یہی لوگ شب و روز خوشی کی تلاش میں پریشان رہتے ہیں۔اور ان کے ہی پیروں میں ایک چکر سا رہا کرتا ہے۔لیکن ایسے افراد مین اُن لوگوں کی تعدا بہت کم ہے جو اپنے خوش بخت یا خو ش قسمت ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہوں۔
ہر شخص یہ خیال کرتا ہے کہ دوسرے اُس سے زیادہ خوش قسمت ہیں، کہ اُنہیں وہ نعمتیں میسر ہیں جو اگر اُن کے پاس ہوتیں،تو وہ خوش بخت ہوتا مگر حقیقت یہ ہے کہ خوشی محض ایک اضافی اور وقتی شئے ہے،وہ چیز جو ایک شخص کے لیے سرمایہ ء حیات ہوسکتی ہے،وہ دوسرے کے لیے باعثِ بدبختی بھی ہوسکتی ہے۔مثلاً ایک مخصوص دوا ایک انسان کو قوت بخشتی ہے،لیکن دوسرے کے لیے باعثِ ہلاکت ہوسکتی ہے،اسی طرح ثروت،علم و ادب،صنعت،قوت اور ہنر مندی وغیرہ مختلف افراد کے لیے مختلف النوع اور اضافی اور مشروط نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ لکھنا اگر کسی ایک کی خوبی ہوسکتی ہے تو نہ لکھنا ایک دوسرے شخص کی خوبی بھی ہوسکتی ہے۔
اس عالمِ آب و گل کی مخلوق اور خدا کے نائب و خلیفہ کی بہت بڑی بد بختی یہ ہے کہ انسانیت کے بہترین دماغ آج تک کوش بختی کی تعریف کا تعین نہیں کرسکے۔مختلف مفکرین نے زندگی کو جس جس زاویے سے دیکھا ہے او سمجھا ہے،اُس کی بنیاد پر انہوں نے خوش بختی اور خوش قسمتی کی قدروں کی نشاندہی مختلف انداز اور الفاظ میں کی ہے۔۔تو کیا فرماتے ہیں مفکرین بیچ اس مسئلہ کے؟۔۔۔
گوتم بُدھ نے کہا،سکون ِ دماغ سے بڑی کوئی خوش بختی نہیں ہے،اس نے زندگی کو جن مخصوص حالات میں دیکھا،اُن کا تقاضا یہی تھا کہ انسان وہ رتبہ حاصل کرلے جہاں اُسے سلسلہ تناسخ سے نجات حاصل ہوجائے۔ماحول او پس منظر کی اس روشنی میں بدھ کو یہی بہترین طریقہ معلوم ہوسکا،اس نے ذہن کے اُس سکون کو خوش بختی کی معراج بتایا،جو سلسلہ ء تناسخ سے امن حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے۔
یہ زاویہ نگاہ اس کے مخصوص مطالعہ ء زیست سے الگ ہٹ کر بھی اہم ہے،
ظاہر ہے،روزمرہ زندگی میں ہماری تگ و دو کا حاصل سکونِ دماغ ہی ہوتا ہے۔
جرمنی کے مشہور شاعر اور فلسفی گوئٹے نے خوش بخت اُس شخص کو قرار دیا ہے،جو کسی کو دوست رکھتا ہے یا جس کے ودست ہوتے ہیں۔ البرٹ ہارورڈ کا خیال ہے دوسروں کی مدد کرنا خوش بختی ہے۔موسیقار،مفتی اور بیتھون کا قول ہے کہ دوسروں کی خوش بختی کے لیے کوشش کرنا ہی اصل خوش بختی ہے،اسی قسم کی تشریح ایف ہالم نے بھی پیش کی ہے،اُس کا خیال ہے کہ دوسروں کے آنسوؤں کومسکراہٹ میں تبدیل کردیناہی خوش بختی ہے،افلاطون نے بتایا ہے کہ بہترین خوش بختی حصولِ علم میں ہے،کہ علم سے جہالت کی تاریکی کا خاتمہ ہوتا ہے،حقوق و فرائض کا اندازہ ہوتا ہے،او ر ذہن کے دریچے کُھل جاتے ہیں۔
چینی فلاسفر کنفیوشش نے اپنی تعلیمات میں کہا ہے کہ اگر تم خوش بخت ہونا چاہتے ہوتو اپنے ارد گردکے لوگوں کی حقیقت کو پہچانو۔
رالف ڈبلو امرسن کا قول ہے کہ جب تک ہمارے دل میں خوشی پیدا نہ ہوگی،ہم باہری دنیا میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
ایک دوسرے یونانی مفکر ایلپکوریس کے نزدیک خوش بختی ہر جگہ،ہر صورت اور ہر ماحول میں ہے صرف اُسے حاصل کرنا اور اُس سے لطف اندوز ہونا انسان کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے۔
ان تمام تشریحات و تفصیلات میں قدر مشترک انسانیت سے محبت کرنے کا جذبہ ہے،اگر تمام بنی نوع انسان محبت کا حقدار سمجھا جائے اور انہیں آرام و اطمینان پہنچانے کے مواقع پیدا کیے جائیں تو انسان کو ایک کے سکون کا احساس ہوتا ہے۔کہ اس سے جذبہ خدمت کی تسکین ہوتی ہے۔
اس بحث سے ایک بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ ہر وہ شخص جو فلسفی،مفر،شاعر یا دانشور یا کچھ بھی ہو،اپنے طریقہ ء فکر کی بنا پر خوش بختی کا تصور تخلیق کرتا ہے،اس لیے عقل مندوں سے صرف اس حد تک مدد لی جاسکتی ہے کہ خوش بختی کے متعلق مختلف نظریات اور تصورات حاصل کرلیے جائیں اور اُن کے جدلیاتی مطالعہ سے کسی ایسے نتیجے پر پہنچا جائے جو ہمارے مخصوص حالات و کیفیات سے مناسبت رکھتا ہو،خوش بختی کے لیے کسی حسابی کتابی الجبرائی قائدے کا اخذ کرنا ناممکن ہے۔
خوش بختی کو اگر ہم کم سے کم الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ خوش بختی اس حالتِ دماغی کا نام ہے جو ہر تمنا،حسرت،خواہس اور آرزو کے پورے ہوجانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا بحث سے ذہن کچھ نامعلوم سمتوں اور راہوں میں بھٹکنے لگتا ہے اور خوش بختی حاصل کرنے کی ہر کوشش بدبختی پر ختم ہوتی نظر آتی ہے،
خوش بختی کیا ہے؟
اور کہاں ہے؟
اس بارے میں کوئی جامع اور آخری فیصلہ کرنا یا کسی آخری فیصلے پر پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ترین ضرور ہے۔
ہم صرف یہی کرسکتے ہیں کہ چند ایسی راہیں نکالی جائیں جن پر چل کر منزلِ خوش بختی کا ایک نسبتاً واضح تصور سامنے آسکے،کہ اس منزلِ خوش بختی کا ایک سنگِ میل قوتِ فیصلہ ہے۔
ایک صاحب ماہرنفسیات کے حوالے سے بتارہے تھے کہ شورو ہنگامے ی وجہ سے پاکستان کے عوام کی قوتِ فیصلہ تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔چنانچہ ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی سرگرمیاں،سیاسی جماعتیں اور جمہوریت بحال کرنے سے پہلے شوروہنگامہ ختم کرنے کی کوشش کرے،کہ پاکستان کے عوام کی قوتِ فیصلہ بحال ہوجائے۔
دوسرے صاحب نے کہا کہ اگر پاکستان کے عوام کی قوتِ فیصلہ بحال کردی جائے تو پھر کچھ اور بحال کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔