• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانیوں میں مذہبی شدت پسندی پاکستان نے انسٹال کروائی تھی؟/ہارون وزیر

افغانیوں میں مذہبی شدت پسندی پاکستان نے انسٹال کروائی تھی؟/ہارون وزیر

آپ افغانستان کو ایک مخصوص ٹائم فریم، محدود نظر اور یک رخی زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ افغانیوں کا معاملہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کو درجنوں میں سے کسی ایک، صرف ایک عامل پہ فٹ کرنا ناانصافی ہوگی۔ اس سارے معاملے کو افغانیوں کے تاریخی اور سماجی پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔

ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا افغانیوں میں شدید مذہبی رجحان پاکستان نے انسٹال کروایا تھا؟ کیا مذہب کے نام پر اور لا دینیت کی مخالفت میں جنگوں میں حصہ لینے کیلئے پاکستان نے انہیں دھکیلا تھا؟ ہم اگر فقط مندرجہ بالا دو سوالات کا تاریخی واقعات کی روشنی میں جائزہ لیں تو یقیناً نتیجہ مختلف آئے گا۔

یوں تو سر زمین موجودہ افغانستان کی ساری ہسٹری ہی مذہب کے نام پر جنگیں لڑتے گزری ہے لیکن اگر ہم 1947 سے پہلے کے افغانستان کے پچاس ساٹھ سالوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ 1919 سے 1929 تک کے دس سالوں میں دو دفعہ افغانیوں نے مذہب کے نام پر اپنی حکومت (امان اللہ خان) کے خلاف بغاوت کی ہے اور یہ بہت خوفناک بغاوتیں تھیں۔ پہلی بار 1924 میں اور دوسری بار 1929 میں۔ دوسری مرتبہ میں ایک اقلیتی قوم تاجک کا ایک عام سا ڈاکو اکثریتی قوم کے پشتون بادشاہ کو صرف اس وجہ سے تخت سے بیدخل کرنے میں کامیاب ہوا کہ وہ بادشاہ حد سے زیادہ قدامت پسند، روایت اور مذہب پسند معاشرے میں لبرل آئین اور جدید سماجی اصلاحات متعارف کروانے جا رہا تھا۔ قوم پرست پشتونوں نے اپنے ہم نسل بادشاہ کو روایتی متحارب قوم کے ایک عام سے لٹیرے کے رحم و کرم  پر چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جدید افغانستان کے وجود میں آنے کے بعد سے پہلی دفعہ کوئی غیر پشتون افغانستان کے تخت پر بیٹھنے میں کامیاب ہو سکا تھا۔ خود امان اللہ خان نے ۱۹۱۹ کی تیسری اینگلو افغان جنگ مذہب کے نام پر لڑی تھی۔ اس سے ذرا سا پیچھے جائیں تو امیر عبدالرحمٰن نے مذہب کے نام  پر اپنی ہی ایک اقلیت کو مارا ،غلام بنایا اور بیچا۔ اور پھر چل سو چل یہ سلسلہ پیچھے کی طرف کھینچتے جائیں اور دیکھتے جائیں۔ کچھ نہیں ملے گا سوائے اسی بات کے ۔

امان اللہ خان کے حامی افغان آج تک یہی کہتے ہیں کہ ۱۹۲۴ کی خوست بغاوت اور ۱۹۲۹ کی بچہ سقہ بغاوت انگریزوں نے ڈیزائن کی تھی۔ حالانکہ آج تک اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے۔ آج انگریز کی جگہ انہیں پاکستان ملا ہےتو ہر مسئلہ نہایت آسانی کے ساتھ پاکستان پر تھوپ دیتے ہیں۔

آپ امان اللہ خان والی بغاوتوں کو روس والی بغاوتوں پر مستنبط کرکے دیکھیے۔ امان اللہ خان کی جدیدیت اور اصلاحات کے خلاف مزاحمت افغان عوام کے مذہب پسند اور قدامت پسند مزاج نے از خود شروع کی تھی اور اسی طرح روس کے لا دینیت کے خلاف مزاحمت خود افغان عوام نے شروع کی تھی۔ پاکستان یا کسی بھی دوسری طاقت نے اس میں اپنا حصّہ ڈالا ہوگا لیکن (لا دین ) روس کے خلاف مزاحمت صرف اور صرف افغان عوام کی خواہش اور پیداوار تھی۔ پاکستان بہت بعد میں ایکٹیو ہوا تھا۔

روس کے خلاف جنگ سے پہلے تو پاکستان نے افغانستان میں کوئی نظریاتی یا زمینی در اندازی بھی نہیں کی تھی جبکہ افغانستان نے ہر ہر موقع پر پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی۔ اس پر ابھی بات نہیں کرتے۔ فی الحال روس جنگ میں پاکستان کے کردار اور زمینی حقائق پر مختصر سی بات کرتے ہیں۔

روس کے خلاف جیسا کہ اوپر کہا ہے کہ مزاحمت اندرونی طور پر پنپی تھی۔ پاکستان نے کئی سالوں بعد عملی طور پر اس میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ یعنی کہ ہنستے کھیلتے اور باہم پیار کرتے افغانستان اور روس کے دودھ میں مینگنیاں پاکستان نے نہیں ڈالی تھیں۔ مینگنیاں خود افغان عوام نے ڈالی تھیں پاکستان نے اس میں صرف ڈوئی ہلائی تھی۔

اب کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک تھا وہ اپنے دوست کے انتخاب میں آزاد تھا۔ پاکستان کون ہوتا تھا افغانستان کو ڈکٹیٹ کرنے والا۔ اصولی طور پر (یا خیالی حد تک ) بات تو درست ہے لیکن حقیقی دنیا میں معاملات ایسے طے نہیں ہوتے۔ میں اپنی بات کی وضاحت کیلئے ایک حالیہ تنازع سے مدد لینا چاہونگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ روس اور یوکرین تنازع کس بات پر ہے۔ تیسری دنیا یا غیر مغربی دنیا کے تمام لوگ روس کو اس تنازعے میں حق پر سمجھتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں روس کے ساتھ ہیں۔ کیوں؟ حالانکہ اصولی طور پر تو روس جارح قوت ہے اور یوکرین مظلوم۔ یوکرین ایک آزاد ملک ہے اسے اپنے فیصلے کرنے میں آزادی کا حق حاصل ہے لیکن روس انہیں ایسا نہیں کرنے دے رہا۔ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم سب بھی جانتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں کہ دو جمع دو چار کرکے سمجھا جا سکے۔ اس کیلئے روس اور مغربی دنیا کی ایک دوسرے کے خلاف اجنگ و جدل کی تاریخ دیکھنی ہوگی۔ اسی پس منظر میں روس اور یوکرین تنازع کو درست طور سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ روس جانتا ہے کہ امریکہ کی یوکرین میں دلچسپی سوائے اس کے کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں بیٹھ کر روس کے سر پر ہمیشہ تلوار کی طرح لٹکتا رہے۔ اسی لئے روس نہیں چاہتا کہ نیٹو روس کے بیک یارڈ میں بیٹھے اور ہمیشہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا رہے۔ یوں روس نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔

اب آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ، میں یا دوسری اور تیسری دنیا کے اکثر لوگ روس کو اس جنگ میں حق بجانب نہیں سمجھتے حالانکہ اصل میں ہے تو ایک آزاد اور خومختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی۔ اسی طرح کا معاملہ اسی کی دہائی میں افغانستان کے سلسلے میں پاکستان کو بھی درپیش تھا خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان چند سال قبل دو ٹکڑے ہوا ہو اور اس کے ٹکڑے ہونے میں اچھی خاصی روسی کردار موجود ہو۔ اور وہی روس اب پاکستان کے مغرب میں بھی آکر بیٹھنا چاہتا ہو تو ایسے میں پاکستان حتی الوسع کیسے ایسا ہونے دے سکتا تھا؟ پاکستان کو اس وقت افغانستان میں وہی صورتحال درپیش تھی جو آج روس کو یوکرین میں درپیش ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ روس نے یوکرینی عوام کی منشاء کے خلاف ڈائریکٹ جارحیت کی جبکہ پاکستان نے افغان عوام کی منشاء کے مطابق انہیں سپورٹ کیا۔ آج اگر روس مغرب کو اپنے پائیں باغ سے دور رکھنے میں حق بجانب ہے اسی فارمولے کے تحت پاکستان کیسے قصور ہوا پھر؟

پوسٹ نائن الیون افغانستان کا پاکستان سے شکوہ منافقت پر مبنی ہے۔ طلباء کی سپورٹ کرنے پر افغان عوام کا گلہ حق بجانب ہے لیکن مجھے سمجھ اس بات کی نہیں آتی کہ وہ امریکہ کو اڈے دینے پر پاکستان سے نوحہ کناں کیونکر ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھئی ایسے کیسے؟ ایسے تو پھر افغانستان کو سب سے زیادہ گلہ امریکہ سے کرنا چاہیے  تھا جن کو پاکستان نے اڈے دیئے تھے لیکن افغانی اس سے تو گلہ نہیں کر رہے۔ ان کو تو نجات دہندہ سمجھتے ہیں حالانکہ پاکستانی اڈوں سے ڈرون، جیٹ سب امریکی اڑتے تھے۔ امریکیوں سے انہیں مسئلہ نہیں لیکن پاکستان کو امریکہ کی معاونت کرنے پر ہے۔ ہے ناں عجیب۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply