تاریخ بھی اور تاریک بھی۔۔۔۔نذر حافی

یہ عرض کرتے چلیں کہ مستشرقینِ سیاسی و استعماری کی تاریخ جتنی طویل ہے، اتنی ہی تاریک بھی۔ اس تاریکی کو تحقیق سے روشن کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی وطنِ عزیز میں صوبائی، علاقائی، نسلی یا فرقہ وارانہ تعصب برتے، کسی کو مشتعل کرے یا کسی کے کہنے میں آکر مشتعل ہو جائے، کسی کی تکفیر کرے یا کسی کے قتل پر آمادہ ہو جائے، خودکش حملہ کرے یا کسی اسٹریٹ لائٹ کو توڑ دے، اسے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے واقعات خود بخود وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ انکے پیچھے انسانی دماغ فعال ہوتا ہے اور ماہر منصوبہ ساز بیٹھے ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنی تاریخ کے کسی بھی گوشے کو بغیر تحقیق کے تاریک نہیں چھورنا چاہیئے۔ دشمن ہمیشہ تاریکی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور سب سے خطرناک تاریکی عدمِ آگاہی، عدمِ تحقیق اور جہالت کی تاریکی ہے۔

ترجمہ، تحقیق کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ تالیف، تصنیف کی جگہ نہیں لے سکتی اور پراگندہ مطالب کسی سکول آف تھاٹ(مکتب) کے مقابلے میں پیش نہیں کئے جا سکتے۔ چنانچہ ہم نے مستشرقین کے حوالے سے کسی مقالے کا ترجمہ پیش نہیں کیا یا کسی مارکیٹ میں پڑی ہوئی کتاب کو اٹھا کر اس کے حوالے نہیں دیئے بلکہ ہم نے حوزہ علمیہ قم کی بات کی اور اس حوزے میں گروہ مستشرقان و قرآن کی طرف سے کی جانے والی جدید ترین تعریف بھی قارئین کے لئے پیش کی۔ ہم نے یہ راستہ بھی کھلا رکھا ہے کہ اگر کوئی دوسرا محقق اپنے سکول آف تھاٹ کا تعارف کرائے اور اپنے مکتب میں ہونے والی تحقیق کی روشنی میں تازہ ترین تعریف یہاں پیش کرے تو ہم خوشی کے ساتھ اس کی تحقیق کا استقبال کریں گے۔ ایک مرتبہ پھر یاد دہانی کروائے دیتے ہیں کہ کسی غیر مسلم کے توسط سے اسلام شناسی کا انجام پانا استشراق کہلاتا ہے اور ہم نے اپنی تحقیقات کے دوران یہ بھی بتایا ہے کہ استشراق ِسیاسی و استعماری میں مغرب اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں مثلاً ایم آئی سکس اور سی آئی اے وغیرہ کے وہ اہلکار بھی شامل ہیں، جنہوں نے  مسلمانوں میں شدت پسندی اور قتل و غارت کی خاطر طالبان اور القاعدہ جیسے گروہوں کو تشکیل دیا۔

یہان تک دو باتیں ہمارے قارئین کو ذہن نشین ہو جانی چاہیں، ایک یہ کہ مستشرق غیر مسلم ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ یہ غیر مسلم جب مسلمانوں کی جاسوسی کرتا ہے اور ان میں تفرقہ و شدت پسندی ایجاد کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے تو اسے مستشرق سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔ باعرض معذرت ہم ایک مرتبہ پھر یہ عرض کرتے چلیں کہ یہ انٹرنیٹ سے اٹھا کر کسی مقالے کا ترجمہ نہیں کیا گیا بلکہ ایک  زندہ اور علمی مکتب کی رائے آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ داعش، القاعدہ اور طالبان کو بنانے والے سی آئی اے اور مغربی خفیہ ایجنسیوں کے غیر مسلم کارندے اور جاسوس، مستشرقینِ سیاسی و استعماری کے زمرے میں نہیں آتے تو اسے بھی اپنے مکتب کی جدید ترین تحقیقات کو حوالہ جات اور اساتذہ کے نام کے  ساتھ پیش کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ ہم اپنے ادعا کے ثبوت میں اپنے دو محقق اساتذہ قبلہ ڈاکٹر محمد حسن زمانی اور قبلہ ڈاکٹر محمد جواد اسکندر لو کے نام پیش کرچکے ہیں اور ان دونوں محقیقین کا تعلق گروہ مستشرقان و قرآن سے ہے۔

مکتب کے تعارف، تازہ ترین تحقیقات اور اساتذہ کا نام لکھنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے قارئین کو پتہ چلتا ہے کہ یہ تحقیق مستشرقین سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے انجام دی ہے یا کسی کی شخصی رائے اور غیر مکتبی مقالہ ہے۔ گروہ مستشرقان و قرآن کی تحقیقی کتاب شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان کے مطابق مستشرقینِ سیاسی و استعماری میں سرِ فہرست لارنس آف عریبیہ [1] کا نام آتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 207 تا 214۔ ان سات صفحات میں بطورِ نمونہ سولہ ایسے  مستشرق جاسوسوں کا تعارف کروایا گیا ہے کہ جنہوں نے جہانِ اسلام کا نقشہ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر کوئی ان جاسوسوں کو  مستشرقین استعماری کہنے سے انکاری ہے تو اس کے لئے مدمقابل میں ایک علمی مکتب کا نظریہ لانے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر کسی تحقیقی و علمی مکتب کے مقابلے میں کسی کا ذاتی تخمینہ یا مقالہ، کوئی وزن نہیں رکھتا۔ اب ہم بھی آپ کے سامنے اس وقت صرف تین مستشرق جاسوسوں اور ان کے طریقہ واردات کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ آپ کو مستشرقین سیاسی و استعماری کی فعالیت کا قدرے اندازہ ہوسکے۔

1۔ لارنس آف عریبیہ
لارنس آف عریبیہ کا مکمل نام تھامس ایڈورڈ لارنس تھا، مارچ 1916ء میں جب دجلہ کے ساحل پر برطانوی فوج کو ترکوں سے دندان شکن شکست ہوئی تو انگریزوں نے خلافت عثمانیہ سے میدان جنگ میں لڑنے کے بجائے  مسلمانوں کو آپس میں لڑاو اور ان پر حکومت کرو کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کو عملی کرنے کی ذمہ داری تھامس ایڈورڈ لارنس کو سونپی گئی۔ خلاصہ تحقیقات یہ ہے کہ لارنس نے ترک خلافت کے خلاف عربوں میں نفرت کو ابھارنے کے لئے اس نظریئے کو عام کیا کہ عرب عربوں کے لئے ہے۔ اس نے اس مقصد کے لئے حاکم مکہ شریف حسین اور اس کے بیٹوں کو مرکزی حکومت کے خلاف اکسایا کہ وہ ترکوں کے ساتھ ٹکرانے کے لئے عرب قبائل سے مخفیانہ بیعت لیں۔ اس مقصد کے لئے اس نے خوب رقم خرچ کی اور اس کے نقشے کے مطابق کچھ ہی عرصے میں عرب قبائل ترکوں کی خلافت کے خلاف کمر بستہ ہوگئے۔

پہلی جنگِ عظیم 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک جاری رہی۔ 14 جولائی 1915ء کو اہلِ عرب، قوم پرستی کو لے کر ترکوں کے خلاف کھلے عام باغی ہوگئے۔ اس بغاوت میں حاکم مکہ شریف حسین اور نجد کے حکمرانوں یعنی آل سعود نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جس کے بعد عرب مناطق ترکوں کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔ جس طرح لارنس آف عریبیہ حاکم مکہ کی مدیریت کرر ہا تھا، اسی طرح جان فیلبی نجد کے حکمرانوں (آل سعود) کی سرپرستی کرنے میں مشغول تھا۔[2] جب 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو سلطنت عثمانیہ بھی روبہ زوال تھی۔ بالآخر کمال اتاترک نے 3مارچ 1924ء کو خلافت عثمانیہ کو بالکل ختم کرنے کا اعلان کر دیا، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آل سعود نے حاکم مکہ سے بھی سلطنت چھین لی، یوں وقت کے ساتھ ساتھ عرب بھی اور ترکی بھی مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لئے اہلِ مغرب اور امریکہ کے محتاج ہوکر رہ گئے۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد لارنس آف عریبیہ واپس برطانیہ چلا گیا اور اس نے وہاں جاکر اپنے تجربات کی روشنی میں درس و تدریس اور نئے افراد کی تربیت کا کام شروع کر دیا، جو کہ اس کی موت تک جاری رہا۔

2۔ جان فیلبی
جان فیلبی، ایک برطانوی لکھاری، محقق اور مشاور تھا، اس نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور حرمین شریفین پر آل سعود کے قبضے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ شاہ عبدالعزیز اپنے تمام امور میں اس سے مشورہ کرتا تھا، جان فیلبی کا کہنا ہے کہ میں شاہ عبدالعزیز کی زندگی کے چھتیس سال اس کے ہمراہ رہا اور اس کی زندگی کے آخری تئیس سالوں میں ہمیشہ اس کے ہمراہ رہا اور ہمارا تعلق کبھی منقطع نہیں ہوا۔[3]

3۔ کارل ہینرش بیکر
یہ ایک جرمنی کا مستشرق جاسوس تھا، جو کہ جرمنی میں مجلۃ الاسلام کا بانی بھی تھا۔ یہ استعماری منصوبہ سازی میں جرمنی کا خادم تھا، ۱۸۸۵-۸۶ میں اسے افریقہ پر جرمنی کے تسلط کو قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس نے اپنے نقشے کے مطابق افریقہ کے اسلامی ممالک کو اس طرح جرمنی میں ضم کیا کہ 1918ء تک وہاں  جرمنی کا تسلط قائم رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں یہ عرض کرتے چلیں کہ مستشرقینِ سیاسی و استعماری کی تاریخ جتنی طویل ہے، اتنی ہی تاریک بھی۔ اس تاریکی کو تحقیق سے روشن کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی وطنِ عزیز میں صوبائی، علاقائی، نسلی یا فرقہ وارانہ تعصب برتے، کسی کو مشتعل کرے یا کسی کے کہنے میں آکر مشتعل ہو جائے، کسی کی تکفیر کرے یا کسی کے قتل پر آمادہ ہو جائے، خودکش حملہ کرے یا کسی اسٹریٹ لائٹ کو توڑ دے، اسے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے واقعات خود بخود وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے انسانی دماغ فعال ہوتا ہے اور ماہر منصوبہ ساز بیٹھے ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنی تاریخ کے کسی بھی گوشے کو بغیر تحقیق کے تاریک نہیں چھورنا چاہیئے۔ دشمن ہمیشہ تاریکی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور سب سے خطرناک تاریکی عدمِ آگاہی، عدمِ تحقیق اور جہالت کی تاریکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] T. E. Lawrence
[2] جون فیلبی و البلاد العربیة السعودیة فی عهد الملک عبد العزیز بن سعوداز الدکتور صبری فالح الحمدی
[3]، بریطانیا و ابن سعود: العلاقات السیاسیة و تأثیرها علی المشکلة الفلسطینیة،از محمد علی سعید، ص38 تا 43

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply