• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نسوانی حسن کے یورپی معیارات کے پاکستانی خواتین پر اثرات۔۔ علیّا بخاری

نسوانی حسن کے یورپی معیارات کے پاکستانی خواتین پر اثرات۔۔ علیّا بخاری

پاکستان میں خواتین پر گورا نظر آنے کا دباؤ بہت بڑھ چکا ہے۔ میری دوست نیہا نے بتایا کہ اس کے اردگرد خواتین کے ساتھ ان کی جلد کے رنگ اور لباس کے انداز کی وجہ سے مختلف سلوک کیا جاتا ہے۔

سانولی جلد والے بچوں کو جنم دینے پر ماؤں کو طعنے دینے والے افراد سے لے کر دلہنوں پر شادی سے قبل جلد کو چمکانے کے لیے مختلف علاج کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور رشتہ دار سماجی اجتماعات میں گہری گندمی اور سانولی جلد پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان متنازعہ رویوں نے کسی نہ کسی طرح جنوبی ایشیائی ثقافت میں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ یورپ میں مقیم میری ایک بھارتی دوست بھی کچھ ایسی بات ہی بتاتی ہے۔

کراچی میں مقیم بائیس سالہ طالبہ نیہا، جو اسی مایوسی کا شکار ہے، کا کہنا ہے کہ اس خطے کی ہر دوسری لڑکی اُسے اپنی طرح اسی مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار نظرآتی ہے۔ نیہا کا خیال ہے کہ ’’گورا رنگ‘‘ ہی پاکستان میں خوبصورتی کا اعلیٰ معیار تصور کیا جاتا ہے اور یہ تصور و معیار اس معاشرے میں اتنا گہرا ہے کہ مشہور شخصیات سے لے کر سوشل میڈیا اور خاص طور پر انسٹاگرام پر ہر دوسرا ساؤتھ ایشین سفید سے سفید تر نظر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ براؤن یا سانولے پن کا تعلق ’’خراب رنگت‘‘ اور ’’ایوریج لوکنگ‘‘ سے جوڑا جاتا ہے۔

میرے خیال سے ہمیں ان الفاظ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جو ہم اپنے معاشرے میں ایک براؤن جلد والے شخص یا عورت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں نسوانی حسن کے اس بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والے بہت کم لوگ ہیں اور ابھی اس ذہنیت کو بدلنے کے لیے بہت طویل سفر طے کیا جانا ضروری ہے۔ نیہا جیسی جنوبی ایشیائی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خود کو قبول کرنے اور خود سے محبت کا سفر آسان نہیں ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی پہلے سے ہی بڑی حد تک قدامت پسند اور خواتین کو کنٹرول کرنے والی روایات موجود ہیں۔ ایسے میں’یورو سینٹرک نسوانی حسن‘ کے معیارات کی تعریف اور انہیں بہتر سمجھنا خواتین کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والی پریشانی میں ڈال دیتا ہے۔

اگرچہ کچھ خواتین نے خود کو سانولی رنگت کے ساتھ قبول کرنا سیکھ لیا ہے لیکن بہت سی خواتین اب بھی ایسے ماحول میں گھٹن محسوس کرتی ہیں، جو ان کی عزت نفس اور خود اعتمادی کے لیے نقصان دہ ہے۔ وہ خود کو ’’بہتر اور برتر‘‘ سمجھنے کے لیے خوبصورتی کے ‘’یورپی سانچے‘‘ میں فٹ ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔

معاشرے میں ایک طرف تو خواتین کو خوبصورتی کے مغربی معیارات پر پرکھا جاتا ہے اور دوسری طرف لوگ پہلے سے ہی ‘’لباس اور طرز زندگی کے انتخاب‘‘ کی بنیاد پر خواتین کے اخلاق و کردار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس طرح یہ سب کچھ خواتین کی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے اور ان کی ذہنی ترقی و مضبوطی اور پراعتماد زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے۔

انسٹاگرام فلٹرز اور دیگر سوشل میڈیا ایپس کی وجہ سے یہ اذیت مزید بڑھ گئی ہے۔

انسٹاگرام اور ذہنی دباؤ
سوشل میڈیا نے ہمارے جینے کے انداز بدل دیے ہیں۔ اس کے لاتعداد فوائد بھی ہیں، جیسے کہ ٹیلنٹ کو ظاہر کرنے کے مواقع اور پوری دنیا سے جڑے رہنا۔ لیکن ہر چیز کی طرح اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ کچھ منفی پہلو بھی ہیں، جس میں سے ایک اس کا انسانی ذہنی صحت کو متاثر کرنا بھی ہے۔ اس کی اہم مثال انسٹا گرام ہے۔

اگرچہ اس ایپ کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں مگر مناسب تحقیق کے نہ ہونے سے اس کے ”مکمل منفی اثرات‘‘ ابھی تک سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ اس ایپ کا ایک سنگین منفی اثر خوبصورتی کے غیرحقیقی معیارات کو گلوریفائی کر کے ایک خیالی اور جادوئی دنیا دکھانا ہے۔ ایک غیرحقیقی، خیالی اور کامل خوبصورتی کا چہرہ دکھانا، جس کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔

اس ایپ کا متواتر استعمال اور ایک دوسرے سے موازنہ منفی رجحانات کو نہ صرف جنم دیتا ہے بلکہ جعلی شناخت اور دیگر برائیوں کا بھی باعث بنتا ہے۔ بے عیب حسین چہرہ اور خوبصورت نظر آنے کا جنون عورت پر مزید ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ یہ نہ صرف لڑکیوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ان کی عزت نفس کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔

مسلسل مقابلے کا ماحول ذہنی دباؤ کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ انسٹاگرام پر چلنے والی یہ مقابلہ بازی ان کی اپنی ہی ذات، شخصیت اور خوبصورتی پر ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔ خاص طور پر اس معاشرے میں، جہاں پہلے ہی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کمتر سمجھا جاتا ہو۔

خوبصورتی کے معیارات پر ہونے والے ایک مطالعے سے یہ نتیجہ سامنے آیا تھا کہ یورپی نوآبادیاتی نظام اور برصغیر میں خصوصاً برطانوی راج کی وجہ سے خوبصورتی کو گورے رنگ یا سفید چمڑی سیے منسوب کیا گیا۔ اصل میں حسن کے یہ معیارات اسی استعماری نظام کی دین ہیں۔ نسوانی خوبصورتی کا یہ ”مثالی معیار‘‘ یورپی خواتین سے زیادہ متاثر ہے مثلاﹰ ہلکی رنگت کی جلد اور آنکھیں۔

برصغیر میں برطانوی راج کے پس منظر میں آج بھی سفید فام شخص کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے اور اسے کسی مشہور شخصیت کی طرح خوبصورتی سیڑھیوں پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اسی تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا میں سفید جلد کو ‘اعلیٰ حیثیت‘ کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ گورے رنگ کے ہندوستانیوں کو انگریزوں کا حلیف سمجھا جاتا تھا۔

رنگ پرستی اور ذہنی صحت
رنگ پرستی بھی نسل پرستی کی ہی ایک قسم ہے اور محقق اس بات پر متفق ہیں۔ تحقیق اور مطالعات یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ رنگ پرستی نہ صرف ذہنی صحت بلکہ انسانی رویوں کو بھی متاثر کرتی اور ان پر اثر ڈالتی ہے۔ لاطینی، عرب نسل ایشیائی اور جنوبی ایشیائی جیسی مختلف نسل کے لوگوں پر تحقیق نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔

ایک دوسری تحقیقی رپورٹ میں یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ نوجونوں کو اپنی ڈیلی لائف میں بڑھتی ہوئی اس رنگ پرستی کی وجہ سے تعصب کا سامنا رہتا ہے۔ اس تحقیق میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس حوالے سے سب سے زیادہ تعصب کا شکار اور نشانہ خصوصاً عورتیں بنتی ہیں۔

اس تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ ”منفی دقیانوسی رنگ پرستی‘‘ پر مبنی تصور میڈیا کے نمائندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ براؤن رنگ کے ایکٹرز کو عموماً مجرم اور منفی سرگرمیوں والے کرداروں میں دکھایا جاتا ہے اور سفید یا ہلکے رنگ والوں کو ہیرو یا اچھے کرداروں میں پیش کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی کمیونٹیز میں عام ذہنی بیماریوں کا تیزی سے پھیلاؤ باعث تشویش ہے۔ اس کی بنیادی وجہ نفسیاتی، ثقافتی اور سیاسی اثرات ہیں۔ جنوبی ایشیا کی خواتین کو سب سے زیادہ اسکن کلر کی بنیاد پر معاشرتی اور ثقافتی تعصب کا سامنا رہتا ہے، جو نفساتی امراض کی ایک بڑی وجہ ہے۔

(نیہا کی درخواست پر ان کا نام بدل دیا گیا ہے۔)

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply