پھولوں کے بغیر قبر۔۔۔روبینہ فیصل

جب جھیل اور پارک قبرستان جیسے لگنے لگ جائیں تو دل سچ مچ کے قبرستان میں جانے کو کر تا ہے۔ تومیں بھی،Eden Cemetery گئی۔۔ڈیری روڈ ویسٹ میں زندگی سے زیا دہ خوبصورت یہ قبرستان اپنے اندر نہ جانے کتنی کہانیاں دفن کیے  ہو ئے ہے۔۔ میں قبروں کے کتبے دیکھ کر سوچتی رہی کہ کیا ان کے نیچے سونے والے اپنے حصے کی معافیاں مانگ چکے ہیں؟ موسم بہار کے باوجود، سردی ہڈیوں میں اتر رہی تھی،قبروں پر رکھے پھولوں کی خوشبو چار سو اڑ رہی تھی۔جن قبروں پر پھول نہیں تھے، یو ں لگا ان کے مکینوں نے اپنے ستائے ہوؤں سے خطاؤں کی معافی نہیں مانگی ہو گی۔

میرے لئے قبرستان جانا پاگل پن نہیں،خود احتسابی ہے،کہیں دنیاوی لذتوں نے مجھے انسان سے حیوان تو نہیں بنا دیا؟یہی دیکھنے چپکے سے ایک دن قبرستان ہو آتی ہوں۔۔۔ کسی بھی قبر پر بیٹھ کر اپنی موت کو یاد کر آتی ہوں۔۔ اور دعا مانگتی ہوں کہ میری قبر پر اتنی ویرانی کبھی نہ اترے کہ اس پر کوئی ایک بھی پھول نہ ہو۔قبرستان کی سیر، میرا خفیہ شوق تھا،آج اسے سب کے ساتھ اس لئے شئیر کیا کہ مجھے سب کو یہ کہنا ہے کہ معافی مانگ لو جس پر ظلم کیا ہے اور معاف کر دو اسے جس نے آپ پر ظلم کیا ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ قبرستان میں بغیر پھولوں کی قبروں کا اضافہ ہو تو ایک ہماری ہو۔

میری اس بے وقت کی راگنی کی وجہ ان دنوں ہو نے والے دو پرسرار سے واقعات ہیں۔
میرا ایک بہت پرانا دوست ہے، ہیلی کالج کے زمانے کا۔دوستی ایسی گہری اور سچی ہے کہ ہم مہینوں بات نہ کریں، سالوں ایک دوسرے سے نہ ملیں، ہماری دوستی میں کو ئی فرق نہیں آتا ۔ ہم اپنی اپنی زندگیاں جی رہے ہیں، اپنے اپنے حصے کی تکلیفیں، دکھ اور خوشیاں اٹھاتے ہیں، اور ایک دوسرے سے بے پرواہ رہتے ہیں، نہ کوئی شکایت، نہ کوئی مان سمان کی باتیں لیکن جب ایک کسی تکلیف میں ہو تا ہے ایسی کہ جان پر بن جائے تو وہ دوسرے کو پکارتا ہے اور دوسرا تن من دھن سے اس کی دلجوئی میں لگ جا تا ہے، تب لگتا ہے سب سے اہم کام بس یہی ہے۔

اس کا پاکستان سے مجھے فون آیا۔۔ “میں بس بہت بیمار ہوں،اسے کہو مجھے معاف کر دے۔
کسے کہوں؟ “میں نے حیرانی سے پو چھا۔
“اسے۔۔مجھے پتہ ہے وہ صرف تمھارے ساتھ رابطے میں ہے، وہی جو کسی بچے کی طرح اوریجنل تھی،وہی جو میرا سب کچھ تھی، وہی جسے یہ یقین دلانے کا مجرم میں خود تھا کہ میں اس کا سب کچھ ہوں اور سب مرد عیاش اور خود غرض نہیں ہو تے، وہی جس کے منہ سی نکلی ہر فرمائش کو پورا کرنا اپنی عبادت سمجھتا تھا، وہی جس سے میں بہانے بہانے سے فون پر گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ وہی جو اپنی چھوٹی بڑی ہر لڑائی خود لڑنے کی عادی تھی لیکن جسے میں نے گناہ کی حد تک یہ یقین دلا دیا کہ میں ہر وقت اس کے ساتھ کھڑا ہوں، میں نے اسے اس کے shell سے نکالا اور اسے ایک fairy land میں لے گیا اسے وہاں کی ملکہ بنا دیا اور خود اس کا غلام بن گیا۔ لیکن پھر میں نے پتہ ہے کیا کمینگی کی؟ جب مجھے ایک لڑکی مل گئی جو میرے عشق میں پاگل تھی تو اسے اگنور کر نے لگا۔
اس نے ایک دن کہا:مجھے جا نا ہے، میں نے کہا تو جاؤ، مجھے بھی جا نا ہے۔ اتنے سے دھچکے سے ہی وہ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگی، میں پھر اس طرح کی حیرتیں اسے روز دینے لگا، میں نئے عشق میں پڑ کر اس کے ناز نخرے اٹھوانے والی  عادت کو بھول گیا، جو میں نے ہی اس میں پیدا کی تھی۔۔دوسری طرف وہ لڑکی شدت سے شادی کا تقاضا کر رہی تھی اور مجھے شادی کر نی پڑی اورجسے میں نے ملکہ بنایا تھا ایک پل میں اس سے منہ موڑ لیا۔ اس نے کبھی  منہ سے مجھ سے نہیں کہا کہ شادی تو کر لی تھی مگر ایک دم سے مجھے تنہا کیسے چھوڑ گئے۔۔۔شاید کہہ بھی دیتی تو تب میں جس نشے میں تھا، مجھ پر کوئی اثر نہ ہوتا۔۔ مگر اب سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں اس معصوم نے کیسے خود کو سنبھالا ہو گا۔۔۔

میں نے اسے تسلی دیتے ہو ئے کہا ” یہ تو کوئی ایسا بڑا جرم نہیں ہے، مرد تو لڑکیوں کو استعمال کرتے ہیں اورbitchکہہ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ تم لوگوں کی تو معصوم سی دوستی تھی، جس میں جسم نامی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔۔ guilt کیوں؟۔۔بہرحال وہ یہیں ہو تی ہے۔۔۔ شاید میں تمھاری دوست ہوں، اسی وجہ سے اس نے مجھ سے کبھی دوستی نہیں توڑی۔۔”
“وہ بولا: ہا ں یہ رشتے بھی عجیب سے ہو تے ہیں۔ یاد ہے؟ تم جن مسکین لڑکوں کو تنگ کر تی تھیں، وہ سب میرے پاس ہی تمھاری شکا ئتیں لے کر آتے تھے، اور مجھے یہ بات بڑی قابلِ فخر لگتی تھی۔ان میں سے ایک بیچارہ ابھی بھی میرے پاس آتا ہے اور تمھارا نام لئے بغیر تمھاری باتیں کر کے چلا جا تا ہے۔۔ یہ بے غر ض رابطے، عجیب سی محبتیں،آج کی مطلبی دنیا میں کوئی نہ سمجھ سکے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لاپرواہی سے ہنسی۔۔

وہ بولا:”تم آج بھی اتنی ہی ظالم ہو؟؟ کیا تمھیں کسی سے معافی نہیں مانگنی؟ کیا تم چاہتی ہو کہ اب وہ جب آئے تو میں تمھاری طرف سے اس سے معافی مانگ لوں؟ ”
میں نے کہا:”نہیں شاید  کچھ غلیطوں کی” معافی” نہیں ” سزا “ہو تی ہے۔ ہو سکتا ہے میں نے اپنے گناہوں سے زیادہ بڑی سزا کاٹ لی ہو۔۔۔بہرحال میں تمھاری معافی آگے ضرورپہنچا دوں گی۔”

لیکن جب میں نے معافی آگے پہنچائی تومیری سہیلی کی آنکھوں میں سالوں سے منجمند گلیشئیر جیسے پگھل گیا ہو۔ میں گھبرا اٹھی۔۔۔
“یہ کوئی ایسا گناہ تو نہیں۔۔ بس تمھارے ساتھ رویہ ہی تو تبدیل ہو گیا تھا اس کا۔۔۔۔”

وہ دھیرے سے بولی: “جانتی ہو؟ میں آج تک کسی پر اعتبار نہیں کر سکی، مجھ پر کو ئی مہربان ہو، میرے کام آنا چاہے، میں اس پر زندگی حرام کر دیتی ہوں کہ اس کے تبدیل ہو نے سے پہلے میں اپنے آپ کو اس کی نظروں میں اتنا نفرت  زدہ کر دوں کہ وہ میرے لئے کچھ کرنے کا سوچے بھی نہ۔مجھے وہ نفرت قبول ہے، مگر خاموشی سے، چوروں کی طرح، مجھے الرٹ کئے بغیر کوئی بدل جائے، اس خوف سے میں کانپنے لگتی ہوں، چیخنے لگتی ہوں، پاگل سی ہو جاتی ہوں۔ کسی کے بدلنے سے پہلے ہی اس کے بدل جانے کا ڈر، مجھے مرنے سے پہلے مار جا تا ہے۔بتاؤ!! قتل کر جاتا تو میں اپنا قتل اسے معاف کر دیتی، مگر یوں خارش  زدہ کتے والی حالت کر کے اپنی زندگی میں مست ہو گیا بتاؤ۔۔۔کیسے معاف کر دوں۔۔۔۔۔۔؟”

اورمیں گنگ سی رہ گئی۔۔۔قبروں سے پو چھ رہی ہوں، بتاؤ کسی کو اعتبار کی سیڑھی پر بٹھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچی تھی تو بعد میں معافی مانگ لی تھی۔۔؟

میرا دوست بیمار ہے۔۔۔وہ معافی مانگ رہا ہے اور زندگی کے  ان لمحات میں اسے احساس ہو رہا ہے کہ وہ جرم بڑا سنگین تھا، پہلے جس جرم کومحبت کے نشے میں وہ معمولی کہہ کر جھٹلاتا رہا تھا۔۔۔ اب ا سے ڈرا رہا ہے اور اپنی سہیلی کی حالت دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اعتماد شکنی کا یہ جرم واقعی کتنا بڑا اور کتنا ناقابل ِ معافی ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا واقعہ بھی اسی قسم کا ہے۔ حیرت اس بات پر کہ انہی دنوں میں دونوں معافی کے یہ واقعے۔۔جب جان لبوں پر آگئی ہو اور انسان کو اپنی معمولی نظر آنے والی کو تاہیاں monsterبن کر ڈرانے لگیں تو ایسا وقت آنے سے پہلے ہی معافی مانگ لینی چاہیے ورنہ اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ معاف کرنے والا بھی سوچتا ہے کہ وہ اب معاف کر ے بھی تو کیوں؟ اورمعافی مانگنے والا اتنا بے بس ہو چکا ہو کہ موت سے اور بیماری سے معافی مل جا نے تک کی مہلت کی بھیک مانگے۔ کہنا یہی ہے کہ جن کے ہم گناہ گار   ہوتے ہیں ان سے بروقت معافی مانگ لیں اس سے پہلے کہ ایسی قبر بن جائیں جس پر کوئی پھول نہیں ہو تا۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply