سیاسی پرندوں کے اڑنے کا موسم۔۔۔ثاقب اکبر

پارٹیاں چھوڑنے، نئے دھڑے بنانے اور نئی پارٹیوں میں جانے کا موسم آ پہنچا ہے۔ جوں جوں موجودہ حکومت کے دن کم ہوتے چلے جائیں گے اور انتخابات نزدیک آتے جائیں گے، پارٹیاں بدلنے کے موسم میں شدت آتی جائے گی۔ ویسے تو ہر جماعت سے پرندے اڑان بھرنا شروع ہوچکے ہیں اور نئے گھونسلوں کی تلاش میں ہیں، لیکن شاید یہ عمل سب سے زیادہ نون لیگ سے دیکھنے میں آئے گا۔ ابھی گذشتہ روز جنوبی پنجاب سے پانچ ایم این ایز اور ایک ایم پی اے کی نون لیگ سے علیحدگی اور ایک نئے گروپ کی تشکیل اسی امر کی حکایت کرتی ہے۔ بعض حلقے کہہ رہے تھے کہ میاں شہباز شریف کا بیانیہ چونکہ میاں نواز شریف سے مختلف ہے، اس لئے توقع یہی ہے کہ شہباز شریف کے پی ایم ایل (ن) کا صدر بننے کے بعد نون لیگ میں کوئی بڑی دراڑ نہیں پڑے گی۔ اس کے باوجود ایک ہی روز میں اتنی بڑی تعداد میں سیاسی پرندوں کی نون لیگ سے ہجرت آئندہ چند روز میں بڑی بڑی خبروں کے امکان کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اس حوالے سے یہ امر اہم ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں زیادہ توجہ جنوبی اضلاع پر مرکوز کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب میں یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ شہباز حکومت کی توجہ کا اصل مرکز ہمیشہ لاہور یا زیادہ ہو تو وسطی پنجاب رہا ہے۔

بعید نہیں کہ جنوبی پنجاب میں الگ آزاد گروپ کا قیام اس امر کی عکاسی کرتا ہو کہ ابھی مہاجر پنچھیوں کو یقین نہیں کہ تحریک انصاف پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل ہو جائے گی یا نہیں۔ دوسری طرف مرکز میں حکومت کے قیام کے لئے عموماً پنجاب میں اکثریت کا حصول ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب اور مرکز میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومت کی صورت میں مرکز کی حکومت ہمیشہ خود کو کمزور سمجھتی رہی ہے۔  مہاجر پنچھی جس پارٹی کا زیادہ رخ کریں گے، آئندہ حکومت اسی کے بنانے کا امکان سمجھا جائے گا۔ ایسے پنچھی جنھیں ایک اور اصطلاح میں الیکٹیبل (Electables) کہا جاتا ہے، شاید زیادہ تعداد میں آزاد نہ رہ سکیں اور آئندہ چند ہفتوں میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھ کر کچھ فیصلہ کریں۔ اس امر کا تو سب کو یقین ہوچکا ہے کہ چند ہفتوں تک احتساب عدالتوں سے میاں نواز شریف کے بارے میں فیصلے آجائیں گے، جن کے بعد ان کا سیاست میں حصہ لینا شاید ناممکن ہو جائے۔ تاہم کیا شہباز شریف احتساب کے شکنجے سے محفوظ رہ جائیں گے، اس حوالے سے کچھ پیش گوئی فی الحال مشکل سمجھی جا رہی ہے۔ شاید بہت سے پرندوں کی ہجرت میں تاخیر اور بعض مہاجر پرندوں کی گومگو کی صورت حال اسی کے پیش نظر ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ مستقبل کی حکومت سازی میں نون لیگ کے ابھی تک باقی پاپولر ووٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس کی نمائندگی نواز شریف کی عدم موجودگی میں شہباز شریف ہی کرسکتے ہیں۔

اس تجزیئے کے تمام عناصر کو جمع تفریق کرکے دیکھا جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ حکومت آئندہ بھی وہی لوگ بنائیں گے، جو پہلے بناتے رہے ہیں اور بیشتر موجود چہرے ہی حکومت کے نام پر جلوہ فرما ہوں گے۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوگی، کوئی انقلاب نہیں آئے گا؟ تبدیلی کے بعض دعوے داروں کا کہنا ہے کہ ہم کسی بھی شخص کو ٹکٹ دیں، لیکن چونکہ ہمارا احتساب کا نظام سخت ہوگا، وسائل ایم این ایز اور ایم پی ایز کے حوالے نہیں کئے جائیں گے، اس لئے کرپشن کا امکان کم سے کم ہو جائے گا اور ملکی وسائل ملکی ترقی پر خرچ ہوں گے۔ کیا اسے دیوانے کی بڑ، تاریخی اور زمینی حقائق سے منقطع سپنا اور احمقوں کی جنت میں بسنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس کا جواب کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ بدکردار، لوٹ مار کے عادی، کرپشن کے رسیا اور خود غرض ٹولے کو دست و بازو بنانے والے ان تمام تر تعبیروں کا مصداق قرار پا سکتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر تعداد میں اتنے ہوگئے کہ اپنی ہی پارٹی میں ڈنٹ ڈال کر اپنے مفادات کے لئے کسی نئی ڈیل پر پہنچ گئے تو اسے انہونی نہیں کہا جاسکے گا، کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ پارٹیوں میں مفادات کے رسیا اور حریص فارورڈ بلاک بناتے رہے ہیں۔ تمام پارٹیوں میں ایسا ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی تاریخ اس پر گواہ ہے۔ مسلم لیگ کے نام سے تو خیر اول دن سے ایسے مظاہرے ہوتے رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ اس جماعت کا خمیر ہی بے وفاﺅں اور ضمیر فروشوں سے اٹھا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے تھوڑی ہی دیر پر اس پارٹی میں دھڑے بندی اور نئی نئی شکلوں میں گروہ سازی اور حزب بندی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جو آج تک جاری ہے۔

پیپلز پارٹی بھی جس کا عمومی تاثر مسلم لیگ سے مختلف تھا، اس عمل سے نہ بچ سکی۔ مختلف طرح کی پیپلز پارٹیاں بنیں، ختم ہوئیں اور بعض آج بھی موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی پٹریاٹ کی تاریخ تو کوئی زیادہ پرانی نہیں۔ تحریک انصاف جو نیا پاکستان بنانے کے نعرہ مستانہ کے ساتھ میدان عمل میں اُتری بھی ایسی مشکلات سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کا ایک فارورڈ بلاک تقریباً تشکیل پا چکا تھا۔ اب جبکہ بہت سے موسمی پرندوں کی تحریک انصاف میں آمد آمد ہے تو اگر تحریک انصاف کو بظاہر بڑی سیاسی کامیابی حاصل ہو بھی گئی تو طوطا چشم پرندے کسی وقت بھی مفادات کے کسی نئے کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اصل سوال تو عوام کے لئے باقی رہ جائے گا اور وہ یہ کہ کب تک وہ بدل کے فقیروں کا بھیس تماشائے اہل کرم دیکھتے رہیں گے اور کب وہ آزمودہ خود غرض سیاستدانوں سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ فی الحال شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے اپنے حلقے میں کسی ایسے امیدوار کا انتخاب کریں، جس کے دامن پر دھوکہ دہی کا داغ نہ ہو، ورنہ پھر یہی کہنا پڑے گا:
خود کردہ را علاجی نیست

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply