• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • چین امریکہ تجارتی تعلقات کے ممکنہ اثرات۔۔طاہر یسین طاہر

چین امریکہ تجارتی تعلقات کے ممکنہ اثرات۔۔طاہر یسین طاہر

ملکوں کے تعلقات مفادات پہ بنتے بگڑتے اور پروان چڑھتے ہیں، قوموں کی تاریخ یہی ہے۔ جیسے افراد کے اندر طاقت اور خود نمائی کا جذبہ موجود ہوتا ہے، بالکل اسی طرح اقوام کے اندر بھی خود نمائی اور طاقت کے حصول و اظہار کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ سماجی حیات کا اتار چڑھائو انہی رویوں اور جذبوں کے اردگرد پھیلتا سکڑتا رہتا ہے۔ امریکہ اس وقت دنیا کی تسلیم شدہ معاشی و عسکری طاقت ہے، جبکہ چین دنیا کی تسلیم شدہ ابھرتی ہوئی معاشی و عسکری طاقت ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ صدی چین کے نام ہے۔ چین نے عالمی تنازعات کے جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے اپنی ساری توجہ، معیشت کی بہتری اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول پر رکھی اور اس میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں۔ جذباتیت سے دامن بچا کر عالمی حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو امریکہ کو کسی مسلم ملک یا جہادی تنظیم سے نہیں، بلکہ چین کی معاشی طاقت سے خطرہ ہے۔ اسی خطرے سے نمٹنے کے لئے امریکہ کبھی افغانستان میں اڈا کھولتا ہے تو کبھی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ لیبیا، شام الغرض خطے میں بڑھتی ہوئی عسکری کارروائیاں جہاں مسلم دنیا کو فرقہ وارانہ رویوں کے ذریعے کمزور و ناتواں کرنے کا سبب ہیں، وہیں ان کارروائیوں اور عسکری سرگرمیوں کا ایک مقصد روس و چین پر بھی نظر رکھنا ہے۔

کئی بار اس بات کا تکرار کرچکا ہوں، امریکہ کا یہ کبھی بھی مقصد نہیں رہا کہ وہ افغانستان سے طالبان کا مکمل خاتمہ کرکے وہاں ایک قومی حکومت تشکیل دے اور خود چلتا بنے، بلکہ امریکی مفاد کا مرکزی نکتہ افغانستان میں فوجی قیام کے جواز کو استحکام بخشنا ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے امریکہ ایک طرف افغان طالبان کے خلاف سرگرم نظر آتا ہے تو دوسری طرف داعش جیسی وحشی دہشت گرد تنظیم کو عراق و شام سے افغانستان لانے میں اہم کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ اس حوالے سے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا بیان ریکارڈ کا حصہ ہے۔ دراصل امریکہ کے نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں مفادات ہیں۔ اپنے ان مفادات کے لئے وہ مختلف چالیں چلتا ہے۔ مسلم دنیا یعنی عرب بیلٹ اور ایشیائی حصے میں امریکی مفاد فرقہ وارانہ دہشت گردی میں پنہاں ہے۔ اس ذریعے سے امریکہ بڑی مہارت کے ساتھ دو عشروں سے افغانستان میں قدم جمائے ہوئے ہے اور بڑھتے لمحوں کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ امریکہ مزید فوج بھی افغانستان بھیجے گا۔

افغانستان میں ہونے والے ہر خودکش حملے یا کارروائی کے بعد افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر الزام، بھارت کے افغانستان میں درجن سے زائد قونصل خانے، یہ سب چیزیں خطے میں نئی گریٹ گیم کے اشارے ہیں۔ پاکستان کی چین کے ساتھ گہری دوستی اور اب عالمی سیاسی رحجانات اور ضروریات کے تحت روس سے تعلقات کا مستحکم ہونا بھی نئے حالات کا زاویہ بتانے کو کافی ہے۔ دنیا میں بالعموم اور خطے میں بالخصوص ایک ہیجان ہے۔ پاکستان، چین، روس اور ایران کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات اس ہیجان کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ طبیعت اور غیر سفارتی زبان نے بھی مذکور چاروں ملکوں کو ایک دوسرے پر مزید اعتماد کرنے کے عمل کو آسان کیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی حالات کی سنگینیوں میں یہ چاروں ملک ایک دوسرے کے کہیں نہ کہیں معاون و مددگار نظر آتے ہیں۔ پاک چین تعلقات پہ تو دونوں ملکوں کو ناز بھی ہے، جبکہ سی پیک کے بعد اور افغانستان میں داعش کی آمد سے روس، ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے مزید قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں نئی سرد جنگ تیز ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس سرد جنگ کا جارحانہ آغاز روسی سفیروں کو امریکہ و یورپ سے ملک بدر کرکے کر دیا گیا ہے۔ روس نے جوابی کارروائی بھی جارحانہ کی اور بیانات بھی جارحانہ دیئے جا رہے ہیں، جبکہ امریکہ و چین ایک دوسرے کے تجارتی حریف کے طور پر، ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔

دنیا کے وسائل پر قبضے کی جنگ میں جہاں عسکری طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہیں پہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور برانڈز کے ذریعے بھی ترقی پذیر ملکوں کے عوام کی جیبوں سے رقم نکال کر جنگوں کے خرچے پورے کئے جا رہے ہیں۔ اس سارے تناظر میں جب ہم گذشتہ صرف دو چار ہفتوں کے بیانات ہی عالمی میڈیا پر دیکھتے ہیں تو آئندہ کے عالمی حالات کی ہیجان خیز تصویر سامنے آجاتی ہے۔ چین اور امریکہ اس وقت عالمی افق پر ایک دوسرے کے معاشی حریف ہیں اور یہ مقابلہ انہیں خدانخواستہ ایک دوسرے کا عسکری حریف بھی بنا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے اور یہ جنگ روایتی بھی ہوتی ہے تو دنیا اپنی آدھی سے زیادہ رنگینیوں کو کھو دے گی۔ گذشتہ دنوں چین کی وزارت کامرس نے کہا ہے کہ چین اپنے مفادات کے دفاع کے لئے کوئی بھی قیمت چکانے سے نہیں ہچکچائے گا، جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی امریکی حکام کو ہدایت کی تھی کہ چین کے خلاف مزید ایک سو ارب ڈالر کے محصول پر غور کریں۔ امریکہ اس سے قبل چین سے درآمد کی جانے والی سینکڑوں اشیا پر پہلے ہی 50 ارب ڈالر کا محصول یا ٹیرف عائد کرچکا ہے اور یہ رقم مزید شامل کی گئی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی سے عالمی منڈیوں میں عدم استحکام بھی دیکھا گیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے حالیہ تجویز چین کی جانب سے 106 اہم امریکی مصنوعات پر محصول عائد کرنے کے بعد دی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکی صدر کے حالیہ اعلان کے ردعمل میں چین کے وزیر خارجہ وینگ یی کا کہنا تھا کہ چین اور امریکہ کو دو عالمی طاقتوں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ برابری اور احترام کی بنیاد پر برتاؤ کرنا چاہیے۔ چین کے خلاف تجارتی پابندیوں کی بڑی چھڑی لہرانے سے امریکہ نے غلط ہدف کا انتخاب کیا ہے۔ چینی وزارت کامرس کے ترجمان گاؤ فینگ نے یہ بھی کہا کہ ہم لڑائی نہیں چاہتے، لیکن ہم تجارتی جنگ سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ چین اور امریکہ ایک دوسرے پر تجارتی دبائو بڑھانے کی کوشش کریں گے اور اس دبائو کا ممکنہ نتیجہ عالمی اقتصادی دبائو کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ اس مرحلے کا اگلا نتیجہ دونوں طاقتوں کے درمیان تجارتی کے بجائے عسکری ٹکرائو بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ چین عسکری ٹکرائو کا راستہ کبھی نہیں اپنائے گا، البتہ امریکہ کی تاریخ ہیجان خیز اور حملہ آور کی ہے۔ یہ حملہ براہ راست کے بجائے بذریعہ بھارت بھی تو ہوسکتا ہے۔ اسرائیل کو بھی تو حرکت میں لایا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر داعش کو بھی خطے کو خوں رنگ کرنے کا ہدف دیا جا سکتا ہے۔ چین امریکہ تجارتی مقابلہ خطے اور دنیا کو ایک نئی مگر ہیجان خیز نفسیاتی و معاشی جنگ میں بدل دے گا۔ یہ ہیجان معاشی جنگ کو عسکری جنگ میں بدل سکتا ہے۔ دنیا کے امن پسندوں کو امن کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply