• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لبرل ازم، دھماچوکڑیاں اور دھماچوکڑے۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

لبرل ازم، دھماچوکڑیاں اور دھماچوکڑے۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

لبرل ازم لاطینی زبان کے لفظ, liberalis, سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی آزاد، یا آزادی کے ہیں،
معروف العام معنی میں یہ اصطلاح اس فکری تحریک کیلئے استعمال ہوتی ہے، جس کی بنیاد میں انفرادی اقدار و آزادئ اظہارِ رائے کی اہمیت کے احساس کو اجاگر کرنا تھا، اس تحریک کے تانے بانے سترھویں اور اٹھارہویں صدی کے بورژوا کے دورِ انقلاب سے جا ملتے ہیں۔
لبرل ازم کی بنیادی قدر، آزادئ فرد ہے، اس فلسفے کے مطابق باقی تمام اقدار ،جیسے کہ جمہوریت، معاشرتی حقوق، قانون و اخلاقیات، کا بنیادی مقصد، آزادئ فرد کا دفاع ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت اجتماعی سطح پر رائے عامہ لبرل ہی ہے، اور یہ حصول نہ تو حادثاتی ہے اور نہ ہی معاشرے کے سطحی ذہن اس کے برپا کرنے میں کارفرما رہے، یہ تحریک انسانی زندگی کیلئے بنیادی معاشرتی ضرورت بن کے ابھری، ایسی تحریک ان تمام اذہان کیلئے آبِ حیات کا درجہ رکھتی تھی، جن کے نزدیک انسانی عظمت کی اولین شرط آزادئ اظہار رائے تھی، آزادی نوعِ بشر کیلئے نعمتِ عظمی ہے اور انسان کو بقیہ مخلوقات سے ممتاز کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، اظہار رائے انسانی شعور کی ترقی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی آزادئ اظہارِ رائے کی قوت ملاحظہ فرمائیں کہ تاریخ کے اعلی ترین انسان زہر کے پیالوں کو آبِ حیات اور سُولی کو حیاتِ ابدی تصور کرتے ہوئے ہنس کر قبول کرتے آئے ہیں، اسی آزادی نے انسانی ذہن کے بہترین تخیّل کو جلا بخشی۔
خاکسار اس آزادی اور اس تحریک کا علمبردار ہے اور اسے ایک مقدّس نعمت شمار کرتا ہے، ایسی تحریکیں نوعِ انسانی کی اجتماعی میراث شمار ہوتی ہیں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس مقدّس تحریک کے نام پر جو دھماچوکڑی اس وقت پوری دنیا میں برپا ہے، اس سے وابستگی کو ہر ذی شعور انسان اپنی توہین سمجھنے میں ذرا تعمّل نہ کرے گا۔
جدید دنیا میں لبرل ازم کے چہرے کو جس طرح مسخ کیا جا رہا ہے، حقیقت یہ ہے اس مکروہ حرکت سے حقیقی لبرل ازم کے حسین چہرے کو پہچاننا ناممکن ہو چکا،
شب و روز کے مشاہدے سے یہ بات واضح ہو چکی کہ جبر و فساد، جنون و پاگل پن جیسے امراض کو اس خوبصورت فکر کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے، گویا کہ پاتال کے منحوس دیوتا نے اولمپک دیوی کا لباس زیبِ تن کر رکھا ہے۔ ہر وہ شخص جو لبرل ازم کو عزیز رکھتا ہے وہ اس فحش، بیہودہ اور بگڑے چہرے کو دیکھ کر حواس باختہ ہے جو اس وقت اس تحریک کے نام سے دنیا میں برپا ہے۔
لبرل ازم کے بنیادی نکتہ، آزادئ اظہارِ رائے، کے داعی کاحال ملاحظہ فرمائیں،
اس آزادی کا علمبردار اپنی خواہش کے علاوہ کچھ اور سننے کو تیار نہیں، اس “مفکّر ” نے شور شرابہ، چیخ پکار اور بگاڑ و بے ترتیبی کو بھر پور زندگی سے تعبیر کر رکھا ہے، جبکہ سکون، صلح ، نظم و ترتیب ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتیں, یہ موصوف ہر جلتی آگ پہ تیل ڈالنے میں دیر نہ کرے گا، اشتعال کو فروغ دینے میں ہر جائز و ناجائز کوشش کرے گا، ہر قانون شکنی کو آزادئ فرد کا نام دے گا، جبکہ اپنے منہ سے نکلے ہر لفظ کو قانون و حق منوانے پہ تُلا رہے گا، کہیں بھی دو افراد کے درمیان بحث یا تلخ کلامی کی بُو سونگھتے ہوئے فوراً ان کے بیچ چھلانگ لگا دے گا اور معاملے کو سمجھے بغیر اپنے پسندیدہ فرد کی حمایت کرتے ہوئے، اس کی “حق تلفی” کا نعرۂ مستانہ بلند کرے گا اور فریقِ مخالف، چاہے وہ حق پہ ہی کیوں نہ ہو، کی پگڑی اچھالنے میں تمام میسّر ذرائع استعمال کرے گا، اور ہر ایسے معاملے میں یہ نام نہاد لبرل ملوّث ہو گا، جس میں دنگے فساد کا کوئی بھی موقع ممکن ہو، جبکہ برداشت، صبر، حسنِ تخیّل، دوسروں کی رائے کا احترام، فردِ عام کی عزت جیسے لوازمات سے یہ موصوف اعلانیہ مبرّا ہے،
لبرلزم کے یہ “محافظ ” ہر اس شخص کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُلے رہتے ہیں جو ان کی بے لگام واہیاتی پر انگلی اٹھانے کی جسارت بھی کرے، وہ یہ سوچنے کا تکلّف برتنے کو تیار ہی نہیں کہ ان کا مخالف اپنی منطقی رائے میں بہتر متبادل بھی پیش کر سکتا ہے،
اس نام نہاد لبرل کی بحث کا محور چند خرافات ہیں، جن میں ذاتیات پر حملے، تکرار در تکرار، قطعی غیر منطقی دلائل، زہریلی و فحش جگتیں، جھوٹ والزام قابلِ ذکر ہیں، گویا کہ شرم و حیا، اوب و لحاظ سے مستعفی ہو چکا۔
یہ حضرات ہر اُس انسان ،جو اپنے فن میں ماہر ہو، کو تنفید کا نشانے بنانے، اور ہر اُس شخصیت کو، جو انسان کا تاریخی، ثقافتی و اخلاقی سرمایہ ہو، کی تضحیک کرنے کو اپنی پیدائش کا اولّین مقصد ثابت کرنے پر بضد ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ اظہارِ رائے کا حقیقی لطف و مسرّت ہر اس شخص کے احترام میں مخفی ہے، جس کے فکر و فن نے انسانی شعور و سماج کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔
چونکہ جدید لبرل کا کل سرمایہ تنقید ہی ٹھہرا، تو یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ تنقید دنیا کا آسان ترین کام ہے، چونکہ کسی بھی مسئلے کو سمجھنے اور اس کے حل کی کوشش کیلئے انسان کو اعصابی و تخیلّاتی محنت درکار ہے، اس لیے متبادل راستہ ،با آوازِ بلند چِلانا، بہتر و آسان معلوم ہوتا ہے، ان لبرلز کی اکثریت ،ختم کرو، مٹا ڈالو، نہیں مانتا سے آگے کچھ سوچنے اور کرنے سے قاصر ہے، ان کے نزدیک ہمہ قسمی قانون کو روندنا ہی حقیقی آزادی ٹھہرا۔
اب تک اس مضمون میں جو “خصوصیات” اس لبرل کی بیان کی گئی ہیں، یہ سب مغربی لبرل کیلئے تھیں، جو قدرے تعلیم یافتہ بھی ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے سیاسیات ، جغرافیہ و تہذیب کا مطالعہ رکھتا ہے، اس شخص کے اس روپ ، بلکہ بہروپ کو دھماچوکڑی سے تعبیر کیا گیا ہے،
ہمارے ہاں کے لبرلز کا معاملہ نہایت گھمبیر ہے، دلچسپ بات یہ کہ وطنِ عزیز میں اس مقدس تحریک کے نام پر جو بیہودگی دیکھنے میں آ رہی ہے، اس کے سرخیلوں کی اکثریت، اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دیتی آنٹیاں ہیں، ایسا کیوں ہے، یہ نکتہ سمجھ سے باہر ہے۔
مگر جب ہم مغربی لبرل کا اپنے دیسی لبرل سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کے اتارے پاجامے کو ہم سر کے بل پہننے کی کوشش کر رہے ہیں، نتیجتاً چشمِ سَر اور چشمِ سِر دونوں دیکھنے و سمجھنے سے عاری ہیں، اور اس کے نتیجے میں جو چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں، اس کیلئے ،دھماچوکڑا، نرم ترین اصطلاح ہے، ورنہ بقول مشتاق یوسفی صاحب “اس کیلئے پشتو زبان میں انتہائی غیر مناسب لفظ موجود ہے”۔
یہ حادثہ جو، ہمارے ساتھ ہوچکا، اور آب و تاب سے جاری ہے، اس میں ان دانشوروں کا کردار نظر آنا چاہئے جو حقیقی لبرل ازم کے حامی ہیں، مگر ان کا کردار ، اگر ہے، تو بہت کم اور غیر فعال ہے، حالانکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ اس بے ہنگم بہاؤ کو منطقی و اخلاقی طاقت سے روکا جائے کہ رائے عامہ اور معاشرتی اقدار سے وابستہ زبان و رویّے، انسانی شعور و تخیّل کی سمت طے کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply