افغانستان کی بدلتی ہوئی مساوات

افغانستان اور خطے میں حالات بہت حد تک بدل چکے ہیں لیکن شاید ہمارے ہاں اس کا درست ادراک اور فہم موجود ہی نہیں ہے۔ ہماری توجہ آپریشن ضربِ عضب کے اندرونی نتائج کی طرف مبذول رہی اور اس امر کا احساس ہی نہ کیا گیا کہ اس نے افغانستان اور خطے پہ کتنے بڑے اثرات مرتب کئے۔ یہ ایک بے حد کامیاب سیاسی چال تھی اس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان دہشت گردی سے باہر نکلا بلکہ اس نے افغانستان کی صورت حال بھی یکسر بدل ڈالی۔ افغان حکومت  نے پسپا ہوتے جنگجوؤں کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہ لی بلکہ ان کو پناہ کا موقع فراہم کیا۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں داعش کا ظہور ہوا، جس کے پیچھے افغان اور انڈین انٹیلی جنس تھی۔ اس میں پسپا ہونے والے جنگجوؤں کے علاوہ زیادہ سخت مزاج افغان طالبان بھی مل گئے۔ مرکزی خیال یہ تھا کہ ان کی تربیت کرکے واپس پاکستان میں بھی داخل کیا جائے گا اور افغان طالبان کے خلاف بھی ان کو استعمال کیا جائے۔ ملا عمر کی وفات کی خبر لیک ہونے سے نہ صرف افغان امن مذاکرات ناکام ہوئے بلکہ افغان طالبان کے بہت سے دھڑے بھی داعش میں آملے جس سے اس کو مزید تقویت ملی۔ 

انڈیا اور افغان حکومت کی طرف سے عجلت میں تیار کی گئی یہ پالیسی بہت احمقانہ قدم ثابت ہوئی۔ داعش کی پاکستان کو برآمد تو نہ ہوسکی لیکن اس سے چین، روس اور ایران میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں۔ ایران اپنی مغربی سرحد پہ پہلے ہی داعش سے نبردآزما تھا، اب مشرقی سرحد پہ اس کی موجودگی مزید باعث پریشانی تھی، انہیں شک تھا کہ سعودیہ بھی اس موقع سے فائدہ اٹھائے گا۔ چین اور روس بھی وسطی ایشیا میں دہشت گردی پھیلنے سے خوفزدہ تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان سے پسپا ہونے والے جنگجوؤں میں بہت بڑی تعداد چیچن، ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی باشندوں کی تھی۔ اس سے قبل وسطی ایشیا کے اویغور، ازبک، تاجک و دیگر داعش کی خاطر لڑتے شام تک جاپہنچے تھے تو اب داعش کی وسطی ایشیا تک آمد کے کیا اثرات مرتب ہوتے؟ 

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ داعش کو ختم کرنے اور افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے روس اور ایران تیزی سے پاکستان کے قریب آنے لگے۔ دوسرے، افغانستان کے اندر داعش اور طالبان کی جنگ سے روس اور ایران طالبان کو اپنا حلیف تصور کرنے لگے۔ روسی اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ براستہ تاجکستان وہ طالبان کو اسلحہ فراہم کرتے رہے۔ انڈیا داعش کا دائرہ پاکستان اور چین تک پھیلانے میں دلچسپی رکھتا تھا، امریکہ اس کا دائرہ روس اور ایران تک بھی پھیلانا چاہتا تھا جس کا جوابی ردعمل ان ممالک کی طرف سے ہونا بھی لازم تھا۔ 
جواباً ایران بھی پاکستان کے قریب آیا ، روس کی رفتار زیادہ تیز تھی، اس کا پاکستان سے قریبی دفاعی اور سٹریٹیجک تعاون بھی شروع ہوگیا۔ 

اس سال دو اہم واقعات ہوئے۔ افغانستان کے مسئلہ پر چین، افغانستان، پاکستان اور امریکہ کے مذاکرات ہوا کرتے تھے، وہ سلسلہ موقوف ہوا اور امریکہ، انڈیا، افغانستان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جواباً روس، چین اور پاکستان نے اس دسمبر میں افغانستان کے مسئلہ پہ مذاکرات کا فیصلہ کرلیا جس سے تقسیم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران انڈیا اور روس کے رویوں کا فرق اسی تقسیم کا عکاس ہے۔ 

امریکی ہوشیار ثابت ہوئے، انہوں نے افغانستان کے معاملات کی باگ ڈور عملاً انڈیا کے ہاتھ میں دیدی کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ انڈین پالیسی داعش کی پس پردہ مدد کی ہوگی، اس طرح انکا مقصد بھی پورا ہوتا رہے گا اور اس کا ملبہ بھی انڈیا پہ گرے گا، روس اور ایران انڈیا سے مایوس اور دور ہوتے جائیں گے۔ 

سوال یہ ہے کہ افغانستان کے حالات آئندہ کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں؟ بہت کچھ نئی امریکی انتظامیہ پہ بھی منحصر ہے۔ ٹرمپ نے مشرق وسطی میں روس کی مخالفت کی بجائے اس کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑنے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عندیہ دیا ہے۔ کیا افغانستان میں بھی یہی پالیسی ہوگی؟ 
اس کا جواب شاید ہاں میں ہے۔ 

جیت کے فوری بعد ٹرمپ کا پہلا انٹرویو کافی اہم ہے جس میں افغانستان کے بارے میں اس نے یہ کہا کہ ہم نے وہاں جنگ پر کئی ٹریلین ڈالر لگادیے لیکن وہاں سے معدنیات چین حاصل کررہا ہے، ہمیں کیا حاصل ہوا اس جنگ سے؟ غور کی بات ہے کہ افغانستان کے معاملے میں اس نے دہشت گردی کی کوئی گھسی پٹی کہانی نہیں سنائی بلکہ وسائل سے استفادہ کی بات کی۔ ویسے بھی اگر سی پیک رواں ہوجاتا ہے اور افغانستان میں امن بحال نہیں ہوتا تو وسطی ایشیا کے تیل کے ذخائر پہ عملاً چین اور روس کی اجارہ داری ہوگی جو امریکہ کے لئے بہت مہنگا سودا ہے۔ 

اس صورت میں انڈیا کے لئے موجودہ پالیسی کو جاری رکھنا اور طالبان سے کسی معاہدے میں رکاوٹ ڈالے رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ موجودہ افغان حکومت کو اس پالیسی کو جاری رکھنے کے لئے جو مالی امداد انڈیا کو دینی پڑے گی اس کا معاشی بوجھ بھی ناقابل برداشت ہوگا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

امید کی جانی چاہئے کہ نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد ہم بدلی ہوئی صورت حال دیکھیں اور امریکی بھی سنجیدگی سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کی طرف جائیں کیونکہ امریکی پٹرولیم لابی ٹرمپ کی پشت پہ ہے اور ان کی دلچسپی وسطی ایشیا کے پٹرولیم کے ذخائر سے استفادے پر ہے۔ 

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply