تعاقب ۔۔ مختار پارس

دل مضطرب کہ کوئی تعاقب میں ہے۔ حالانکہ کسی تعاقب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بے وجہ کسی کو تلاش نہیں کرتا۔ ضروری نہیں کہ قدموں کے نشان ڈھونڈنے والے دشمن ہی ہوں۔ انسان جب اپنی تلاش میں نکلتا ہے تو بھی اسے لگتا ہے کہ کوئی اس کے پیچھے آ رہا ہے اور اسے چھپ کر دیکھتا ہے۔ جو ہمیں نظر نہیں آ رہا ہوتا، ہم اسے ضرور جانتے ہیں مگر یہ تسلیم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ جب انسان خود کو اندیشوں کے الجھے ریشم کی گرفت سے نکال کر حقیقت پر قائل کر لیتا ہے تو تعاقب کرنے والا ایکدن اچانک سامنے آ کھڑا ہو جاتا ہے۔

یہ فکر بے سود ہے کہ کسی کی نگاہ آپ پر ہے۔ روشنی اندھیرے میں گھرے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کوئی عیب نہیں کہ کوئی آپ کے پیچھے چلنے پر مائل ہو جاۓ۔ تعاقب کرنے والا اگر پیچھے چلنے والا ہے تو ایک دن آگے نکل جاۓ گا۔ تقلید اور تعاقب میں فرق یہی ہے کہ تقلید قائم رہنا ہے اور تعاقب درپے ہو جانا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو رک کر بھی سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ اطاعت کرنے والے امامت کرنے والوں کی جبینوں پر شکن نہیں آنے دیتے۔ ہمراہ ہونے اور کر دینے کا احساس جدا ہے اور قدموں کی چاپ پر مڑ کر دیکھنے کی روایت کہیں اور لے جاتی ہے۔

ہر ذرہ اپنے دائرے  میں گھومتا ہے،مدار میں یہ جاننا مشکل ہے کہ کون کس کے پھیر میں ہے۔رزق مغفرت کے تعاقب میں ہے،پریشانی کے بعد راحت ہے، رات کے بعد دن اور حبس کے بعد بارش، خزاں بہار کے تعاقب میں اور جاں رگِ جاں کے پیچھے، کسی کو نظروں کے تعاقب میں خوشی میسر اور کوئی بوۓ گل میں سرشار، کبھی ہستی کو کھینچنے کےلیے ایک خیال کافی اور کبھی ریگزار اور کوہسار بھی محوِ انتظارِ کمال و زوال۔ لفظ لہجوں کے متمنی اور نعمتیں شکر کےلیے سرگرداں۔ زندگی کسی کے تعاقب میں نڈھال ہے یا موت کسی کے حصار میں شکار ہے، نشیب کے بعد فراز، فراز کے بعد کمال، کمال کے بعد جلال اور قہر کے بعد مہر۔ حاصلِ حیات، انکار کے تعاقب میں درج اقرار ہے۔

بھروسہ وہ طاقت ہے جو تعمیل پر مجبور کرتا ہے۔ فقیر مراقبے سے اطمینان کے باعث سر نہیں اٹھاتا۔ قانون کی پابندی انسان کی سرشت میں ہے لیکن اگر اسے یہ اختیار مل جاۓ کہ وہ قانونِ محبت کی تشریح کر سکے تو مرشد کہلاتا ہے اور اگر اسے یہ اختیار نہ چاہیے ہو تو مرید بن جاتا ہے۔ ملنگ کبھی مرشد نہیں بن سکتا کہ تسلیم و رضا کے تعاقب میں بہت دور نکل جانے والے کسی منزل پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ عرش کی بادشاہی کا توکل انہیں فرش پر بکھرنے نہیں دیتا۔ مرشد مریدوں کے بغیر بھی مرشد رہتا ہے، مرید مرشد کے بغیر کہیں کے نہیں رہتے۔ ان کے نصیب میں تعاقب اور توکل کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

مگر یہ دنیا چارہ گروں اور گرویدہ ہو جانے والوں کی ہے، بہت سے ایسے ہیں جن کی نظروں کا تعاقب بہت ضروری ہے۔ وہ ہاں میں ہاں ملانے میں دیر نہیں کرتے مگر ان کی آنکھیں جھوٹ بولتی ہیں۔ کئی کربلا تک تعاقب میں آتے ہیں مگر کناروں پر بیٹھ رہتے ہیں۔ بہت سوں کو تارِ عنکبوت غار کے اندر نہیں گھسنے دیتا۔ ایک جمِ غفیر ساتھ آ جاتا ہے مگر کہتا ہے کہ انہیں کھانے میں لہسن چاہیے۔ بہت سے ایسے ملتے ہیں جو چاند کو دو ٹکڑوں میں کر کے دکھانے کو کہتے ہیں۔ کئی تو پیچھے چلتے چلتے منزل سے بھی آگے نکل جاتے ہیں اور کئی آنکھ سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر نہ تمنا ان کی آہوں سے ختم ہوتی ہے اور نہ سرفروشی انہیں نگلتی ہے۔ اپنے سائے کے تعاقب میں چلنے والے اپنے شہر سے کتنا باہر نکل سکتے ہیں۔ دعویٰ محبت کا ہو اور شہر نہ چھوٹے، یہ ہو نہیں سکتا۔

افسانوں کو حقیقت بنتے دیر نہیں لگتی۔ ہر کہانی اپنے کرداروں کی تلاش میں رہتی ہے۔ نرگسیت سے ناروائی تک کا سفر یہ عیاں کرنے کےلیے کافی ہے کہ پہچان کے بغیر کوئی داستان مکمل نہیں ہو سکتی۔ آنے والا وقت گزری نسلوں کے تعاقب میں لے جاتا ہے۔ اقتدارکے تخت پر بیٹھ کر بھی اختیار کے حسن سے آنکھیں ماند نہ ہوں تو پھر سفر کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ اختیار تب ملتا ہے جب آپ کو طلب نہیں رہتی۔ پیاس پانیوں کو پینے سے نہیں مٹتی، یہ جب حد سے بڑھتی ہے تو مٹ جاتی ہے۔ ظلم کو ظلم سے ختم کرنا فضول ہے کہ گناہ بغیر جڑوں کے بھی توانا رہ سکتا ہے۔نفرت کو جذبات سے ختم نہیں کیا جا سکتا، غم کو غلط کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر کسی افسردہ کو کوئی پیچھے سے آ کر تھام لے تو اس سے بڑی سعادت کیا ہے۔ لوگوں کو سہارا دینے میں بقا ہے۔ اگر فنا سے بچنا ہے تو انسان کو اپنا تعاقب چھوڑ کر خدا کو ڈھونڈنا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ طے ہے کہ کوئی بےوجہ پسِ ازاں جانے کا نہیں سوچتا۔ کوئی بغیر اجازت نہ اتباع کر سکتا ہے اور نہ اقتداء ۔ پیچھے پیچھے آنے اور ساتھ ساتھ چلنے میں یقین کا اتنا کردار نہیں جتنا توقعات کا ہے۔ حقیقت خواب کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی دکھائی نہ دے تو پژمردہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ خواب جتنے توانا ہونگے، حقیقت اتنی ہی محکوم رہے گی۔ انسان جو سوچتا ہے کر گزرتا ہے، نہ کر سکے تو خود گزر جاتا ہے۔ اسے اپنی خواہشوں کا تعاقب جاری رکھنا ہے اور اس کی خواہشوں نے حقیقت کا گریبان نہیں چھوڑنا۔ حقیقت ہمیشہ خوابوں میں مسکن تلاش کرے گی اور خوابوں کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ خواب خوشیوں میں اور خوشیاں خوابوں میں باربار لوٹتی ہیں۔ خدا نے انسان کو بہت سہج پن سے نوازا ہے،جنگل اور بیابان میں اگر کوئی پہلی دفعہ چل کر کوئی رستہ بنا لے تو اس کا تعاقب ضروری ہو جاتا ہے۔ اِس پہلے مسافر پر یہ فرض ہے کہ پہلے اپنا قرض اتارے اور پھر آگے بڑھے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply