آئین ہار رہا ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

پارلیمان اور عدالت سے اٹھنے والی آئینی اختیارات کی گونج شاہراہ دستور پر ایوان عدل کے سامنے ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ اب دیکھیں کہ ان میں سےسر بلندی کس کو ملتی ہے یا آئین شاباش کس کو دیتا ہے۔

چیف جسٹس بڑے پرتپاک انداز میں اپنے آئینی فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے، کسی کو برا لگے یا اچھا، بنچز کی تشکیل بھی کر رہے ہیں اور فیصلے بھی صادر کرتے جارہے ہیں۔ بلکہ وہ آئین کی سرفرازی کی کوشش میں وہ حکم نامے بھی جاری کررہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں۔ اسے زرا نوازی ہی سمجھئے کہ انہوں نے سٹیٹ بینک کو فنڈز کے لئے حکم جاری کر دیا اور الیکشن کمیشن کی آسانی کے لئے الیکشن کی تاریخ بھی دے ڈالی۔

اب الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ ان کے شکرگزار ہوتے مگر انہوں نے نظر ثانی کی اپیل کر دی۔ کوئی اپنے اختیارات میں کسی کا دخل کہاں پسند کرتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کو بھی اتنا خیال تو کرنا ہی چاہیے تھا کہ اگر وہ اپنے اختیارات کے متعلق پارلیمان کے قانون کے پیدا ہونے سے بھی پہلے ابارشن کی گولی بجھوا سکتے ہیں تو پھر الیکش کمیشن کو بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ کا تعین کرنے دیتے تو شائد انتخابات بارے فیصلے کی تاریخ گزرنے کے بعد اس کی اپیل نہ سننی پڑتی۔ توہین عزت کی کاروائی سے پہلے اس طرح کی عزت افزائی نہ ملتی۔

آئین ہی الیکشن کمیشن کو بھی یہ ذمہ داری دیتا ہے کہ اپنے اختیارات کے زریعے سے صرف الیکشن ہی نہ کروایں بلکہ غیر جانبدار، شفاف اور سب کو قبول الیکشن اپنے اختیارات کے آزادانہ استعمال سے کروایں۔

آئین ہی پارلیمان کو بھی اختیار دیتا ہے کہ وہ قانون بنائے اور انہوں نے اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے قانون بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پیدا کردیا۔ وہ قانون کا خالق ادارہ ہے اور انہوں نے چیف جسٹس کی گولی کومسترد کرتے ہوئے پیدائش کردی۔ اب عدالت چاہے تو اس پیدائش کو جائز قراد دے یا ناجائز قانون تو پیدا ہوچکا ہے اور اس کی باقائدہ اشاعت بھی ہوچکی ہے۔

چیف جسٹس کی کرم فرمائی اور نوازش ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھی بڑھ کر کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ فیصلے صادر کرتے جارہے ہیں اور ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں۔ عمل درآمد کروانا حکومت کا کام ہے وہ کروائے یا نہ کروائے۔ ویسے اگر تھوڑی سی کرم فرمائی اور شائسگتی کا مظاہرہ حکومت سے بھی کر لیتے تو اچھا ہی تھا۔ ان پر بھی اتنا ہی بوجھ ڈالتے جتنی انکی طاقت ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہے۔ اللہ بھی کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

حکومت بھی انکی مشکور ہوجاتی اور آئین و قانون اور اداروں کی ساکھ بھی متاثر نہ ہوتی۔ حکومت اور قوم کی صلاحیتیں بھی ضائع نہ ہوتیں۔

یوں تو عمران خان نے بھی قومی اسمبلی سے استعفےٰ اور اپنی دو صوبائی حکومتوں کو فارغ کرنے میں اپنے آئینی حق کا ہی استعمال کیا تھا مگر اس پر اٹھارویں ترمیم اور غیر آئینی اور غیر جمہوری قوتوں کو تعجب ضرور ہورہا ہوگا۔ کہ جب وہ آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے صدر صاحب سے حکومتیں فارغ کرواتے تھے تو سیاستدان شکوے کرتے تھے اور ججز کو بھی توثیق دینے پر برا بھلا کہتے تھے مگر اب تو ایک پارٹی کے سربراہ نے سب کچھ کسی اور کے کہنے پر کروا ڈالا۔

اب تحریک انصاف پھر آئینی اختیار کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات چاہتی ہے۔ تو کیا آئینی کے اختیار سے اپنی ہی اسمبلی کی بے توقیری کے بعد پھر اسی حکومت کو ترس رہے ہیں۔ ان کا یہ آئینی اختیار تو ہے مگر ہے بڑا ہی ناشکری کا فعل۔ اب انتخابات صوبائی اسمبلیوں کے ہونے ہیں مگر اس کے اخراجات وفاقی حکومت کو دینے پڑ رہے ہیں۔ یہ تو یوں ہی ہے جیسے کوئی اپنے دشمن سے کہے کہ میری برات کا خرچہ تم اٹھاؤ۔ ان کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ کیا ہوتا تو شائد آج وہ بھی فراخدلی کا مظاہرہ کر ہی دیتے۔ لیکن خان صاحب تو ہر آئے روز اپنی صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاق پر چڑھ دوڑے ہوتے تھے اور ان کو بائیس کلومیٹر کی حکومت کے طعنے دیتے تھے۔

اب حوصلہ رکھیں اگر آپ نے اپنے آئینی اختیار کے استعمال سے ان کے آئینی اختیار کو مضبوط کردیا ہے تو پھر وہ بھی اپنے آئینی اختیارات کا استعمال ہی کر رہے ہیں۔ آئین ہی ان کو قانون بنانے اور فنڈز کو جاری کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیتا ہے اور وہ بھی بڑے اعتماد کے ساتھ اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ شائد ماضی کی آمریت اور تسلط بھی پشیمان ہو۔

آئین تو سب کا ہے ناں! کسی ایک فرد، جماعت یا ادارے کا تونہیں۔ آئین ہی سب کو پر امن اور آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر احتجاج اور دھرنوں کا اخیتار بھی دیتا ہے۔ جسکا استعمال ہر شہری اور سیاسی جماعت کا حق ہے۔ جس کا استعمال تحریک انصاف نے بھی کیا ہے اور آج پی ڈی ایم بھی کر رہی ہے۔ اگر کسی کا حق اظہار یکجہتی ہے تو کسی کا حق مطالبہ استعفیٰ بھی تو ہے۔

ہاں اگر کوئی کوئی امن کو تباہ کرنے کی کوشش کرے یا قومی املاک اور ریاستی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو پھر آئینی ہی حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ حکومت کی رٹ کو قائم کرتے ہوئے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ وہ چاہے تو کسی کو شہر بدر کردے اور کسی کو چاہیے تو ریڈ زون بھی اس کے لئے کھول دے۔

اب عدالت کو بھی آئین ہی یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ کٹہرے سے باہر کھڑے ہوؤں کو بھی بلا لے اور ان کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق برتاؤ کرتے ہوئے سزا دے یا بری کردے۔ یہ انکا انداز جاہ و جلال سمجھئے یا عسل طبیعی شافی منکسری کہ چاہیں تو وزیر اعظموں کوکھڑے کھڑے گھر بھیج دیں اور چاہیں تو قیدی کو بھی قفس سے آزاد کردیں۔ چاہیں توکسی کو گنتی میں ڈال دیں چاہیں تو نکال دیں۔ وہ جب چاہیں اپنے آئینی اختیارات سے عدالتی رائے پر بھی حاوی ہوجائیں کیونکہ آئین جو ان کو اختیار دیتا ہے۔

اس دفعہ پارلیمان نے بھی معاملے کو بھانپتے ہوئے نااہلی کے بعد سڑکوں پر نکلنے کی بجائے وقت سے پہلے نکلنے کی حکمت عملی اپنائی ہے تاکہ ان کو کوئی پچھتاوا نہ رہے اگر وہ نا اہل ہوتے ہیں تو پھر نا اہل کرنے والوں کے استعفوں کے مطالبے احتساب و حساب برابر کر پائیں۔

اب عدالتوں کا اختیار اگر قانون کی تشریح کرنا اور سزا و جزادینا ہے تو پھر پارلیمان کا اختیار قانون، تحریکیں اور قراردادیں منظور کرنا تو ہے ہی۔ انہوں نے بھی اپنے اختیار کے استعمال میں کنجوسی کرنی چھوڑ دی ہے اور مذمتی قراردادوں اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے بعد چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی تحریک منظور کر ڈالی ہے۔

ہر کسی کے پاس آئینی اختیارات کے استعمال کا منطق اور اعتماد موجود ہے۔ ہر کوئی آئینی حلف سے وفاداری کے دعوے کر رہا ہے مگر آئین حیران سب کے منہ دیکھ رہا ہے۔ پارلیمان چیف جسٹس کے انصاف کو جتھوں کا انصاف اور چیف جسٹس سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو سیاسی جتھوں کا انتظام کہہ رہے ہیں۔ مگر ایک جمہوریت اور قانون پسند کے نزدیک اگر اس صوتحال کو غیر آئینی نہیں کہا جاسکتا تو یہ مثالی بھی نہیں کہا جاسکتا جس سے ملکی امن، ترقی، خوشحالی اور سلامتی کی امیدیں وابسطہ کی جاسکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہر کوئی اپنے آئینی اختیاراور حق ذمہ داری کا ہی استعمال کر رہا ہے تو پھریہ انتظامی افراتفری کیسی، سیاسی نفسا نفسی کیسی یا اقتدار کی رسہ کشی کیسی۔ یہ امتیازی برتاؤ کی خرمستی کیسی۔ یہ آئینی اختیارات کی جنگ ہے یا آئینی پاسداری و بالا دستی کی۔ سب کو آئین کی خواہش کو سمجھنا پڑے گا نہیں تو ہم سمجھیں گے کہ آئینی اختیارات جیت رہے ہیں مگر آئین ہار رہاہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply