کُن۔۔مختار پارس

کُن۔۔مختار پارس/آنکھ کھلتے ہی جو بات دل میں در آئے وہ یا حقیقت ہوتی ہے یا خوف۔ خوف حقیقت پر مبنی ہوتا ہے کہ دل اس وقت تک نہیں دھڑکتا جب تک سچ سامنے نہ آ جائے۔ حقیقت سے اس وقت تک ڈر رہتا ہے جب تک اس سے واسطہ نہیں پڑتا ۔ انسان کو اس کے وجود کا اختیار ملتے ہی دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔ جب تک حقیقت جاننے کا عمل جاری رہتا ہے، انسان زندہ رہتا ہے۔ جب اجسام پگھل کر پانی بن جاتے ہیں تو پھر خوف حقیقت کی گود سے نکل جاتے ہیں ۔ زندگی خوف سے حقیقت تک سفر کر لیتی ہے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا۔ آنکھ بند ہوتے ہی جو بات روح کو میسر آئے، وہ التباس بھی ہو سکتا ہے اور امید بھی۔

اندھیرے لفظ و ہنر، خیال دگر، سامان فکر کو چھپانے نہیں، انہیں جلا دینے آتے ہیں ۔ جس میں سکت ہوتی ہے وہ یہ پردے چاک کرنے ضرور نکلتا ہے۔ رات کالی ہو تو کالی کملی پہن کر باہر نکل جانے کا اپنا مزا ہے۔ عشق نہ کبھی اجالوں کا محتاج رہا ہے اور نہ اسے تجلیوں سے کوئی غرض ہے۔ تلاش برحق ہے اور رات کی خاموشی میں ڈھونڈ نا اچھی رہتی ہے۔ حسن کی مجال نہیں کہ نقاب میں چھپ سکے۔ فراق حجاب میں رہ نہیں سکتا۔ ضروری ہے کہ اندھیرے کسی کی آنکھ کا کاجل بن جائیں یا کسی کے تصورات میں شب۔ جو بات رتجگے میں سمجھ آ سکتی ہے، وہ روز روشن کی شکتی میں ممکن نہیں ۔ ایک دنیا ہے جو شام سے رات کا انتظار کرتی ہے؛ ایک زمانہ ہے جو ہر رات کسی دیجور کا انتظام کرتا ہے ۔ آدھی دنیا سایہ ہے اور آدھی دنیا آگ۔ دھواں آگ سے بھی اٹھتا ہے اور آب سے بھی۔ اندھیرے پانی میں بھی بہتے ہیں اور ہوا میں بھی رہتے ہیں ۔ جسے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ دن میں نکلتا ہے ۔ جسے ہونا ہوتا ہے وہ رات کی سلوٹیں سیدھی کرتا ہے۔

ہونے کےلئے کچھ کرنا ضروری نہیں ۔ ہونے کےلئے تو ہونا بھی ضروری نہیں ۔ ساری عمر کچھ کر کے بھی کچھ نہیں ہوتا اور بعضے تمام عمر کچھ نہ ہونا کسی ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ ہونے کو ایک لمحے میں راز دروں، ناز بروں پر منکشف ہو جاتے ہیں ۔ ہو جانا کچھ ایسا مشکل تو نہیں، بس ایک مسکراہٹ اور آنکھ کی جنبش درکار ہے۔ ایک شخص کو کسی کی تعظیم میں کھڑے ہونے میں کیا خرچ آتا ہے۔ کسی کے افعال بےجا کے جواب میں مسکرا کر جواب دینا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں ۔ کسی درانداز کو راستہ دے کر اپنے سامان کی گٹھڑی باندھ کر اسکے سر پر رکھنے میں حرج ہی کیا ہے ۔ ضروری تو نہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمیشہ ہمارے پاس رہے۔ اگر کوئی اپنا نصیب لوٹ لینے پر مصر ہے تو اسے لوٹنے دو۔ کسی کی آنکھ میں توقع کو شکوہ بننے سے پہلے دامن جھاڑ لیا جائے تو بہتر ہے ۔ کسی کا سہارا بننے میں تاخیر ہو جائے تو یہ بہتر نہیں ۔ کسی کو کوئی لفظ سکھانا ہو، کسی کو کوئی مطلب بتانا ہو، کہیں کوئی الجھن سلجھانی ہو تو اس میں کونسی ایسی مشکل ہے ۔ یہ سب کرنا مشکل ہے مگر ان سب کا ہونا تو ممکن ہے ۔ چلو۔۔۔ جو مشکل ہے وہ نہیں کرتے، جو ممکن ہے وہ کر دیکھتے ہیں ۔

پیدا ہونے والے کا پیدا کرنے والے  سے جھگڑا نہیں جچتا۔ اندھیرا بن کر سوچیں تو سمجھ آئے گی کہ چراغوں کی لو کی لرزاہٹ کا مطلب کیا ہے ۔ ہر رخ روشن نے ایک رات مدھم ہو جانا ہے۔ آسمان میں دور کچھ چمکتا ہے۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہے۔ پھر اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی پرندہ ہے جو اڑتا ہے۔ اس کے پر کبھی چمکتے ہیں اور کبھی گم ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمیں جیسے بھی نظر آتا ہے، ہوتا وہ سفر میں ہے۔ چراغ کی لو نے بھی ختم ہو کر دھوئیں میں بدل جانا ہے اور ہر اندھیرے نے ہر چراغ کو اپنے اندر سمیٹ لینا ہے۔ دیے کی اندھیرے سے کوئی لڑائی نہیں؛ دونوں کی منزل ایک ہے۔ نجات صرف ہونے میں ہے۔ پیدا کرنے والے نے جیسے بنایا ہے، ویسا ہو جا۔ اس نے تجھے فطرت کے حسین اصولوں پر پیدا کیا ہے ۔ مصور کی اس تخلیق میں ہم رد و بدل کا اختیار نہیں رکھتے۔ چراغ ہو تو جلتے رہو، اندھیرا ہو تو خفتہ رہو۔

میں کون ہوتا ہوں کہنے والا کہ بھائی کا حصہ بھائی کو دے دو۔ ہمارے پاس تو جو موجود ہے وہ بھی ہمارا نہیں ۔ جب سب کچھ رب کا ہے تو میری کیا مجال کہ نصیحت کروں ۔ مجھے تو محبت کے دو بول    کمزور کر گئے ہیں۔ جب ہوا نے سوکھے پتوں کی مالا پہنی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر زرد موسم کے ہاتھ پکڑ لیے۔ در حقیقت وقت کے باغ پر کسی لامحدود کی گرفت ہے۔ میرے ہاتھوں میں موجود خشک لکڑی اگلے موسم میں ہری بھری ہو جائے گی کہ خستگی کی بھی حد مقرر ہے۔ میں بہتے پانی کو روک نہیں سکتا کہ اسے آگے جا کر کسی ہستی کو سیراب کرنا ہے یا پھر کسی بستی کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ مجھے تو بس اختیار اتنا ہے کہ بہہ رہا ہوں تو بہتا جاؤں اور رک گیا ہوں تو جھک جاؤں ۔ مجھے کچھ کرنے کا اختیار نہیں، میں صرف ہونے کےلئے ہوں۔ یہ میری نصیحت نہیں ہے، یہ میں ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے التباس پر سب خوش ہیں ؛ ہوا کریں، کوئی بات نہیں ۔ کسی کو یہ ابد آٹھ کا ہندسہ لگتا ہے تو کوئی اسے ایک مسلسل گرہ سے تشبیہ دیتا ہے۔ کسی نے اسے وقت کا پہیہ کہا تو کسی نے ایسا سانپ بتایا جو اپنی دم کے پیچھے رینگتا ہے۔ ہمیشگی کی تلاش میں مبتلا انسان کبھی چاند کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہو جاتا ہے اور کبھی سمندر دیکھ کر کنارا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ سمندر کو بھی چاند سے عشق ہے اور نہ جانے کب سے ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ چاند بھی سمندر کی لہروں سے سرگوشیاں کرتا ہے۔ سمندر اور چاند دونوں ملکر اس کی بابت بات کرتے ہیں، اسے یہ معلوم نہیں ۔ ان دونوں نے اس کی بہت سی نسلوں کو کبھی پتوار کبھی کنارہ  بنتے دیکھا ہے۔ صرف ایک ذات ہے جس نے یہ دیکھ رکھا ہے کہ چاند اور سمندر کیساتھ کیا ہونے والا ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply