کون موڑے مہار ، کوئی سانول نہیں / ناصر منصور

الیکشن ہونے جارہے ہیں ، سیاسی جماعتیں نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں، جوڑ بے جوڑ اور بے جوڑ ,جوڑ بننے جا رہے ہیں۔ جو کل تک ناممکن نظر آتا تھا آج ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی منظر نامہ کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے ہاں چہرے اور کردار بدل چکے ہیں۔ پرانے ولن ہیرو کا روپ دھار رہے ہیں اور گزرے دنوں کے ہیرو راندہ درگاہ ہوئے جاتے ہیں۔

الیکشن کے نتائج عوام کی رائے سے مرتب نہیں ہوتے بلکہ یہ کوئی اور ہی طے کرتا ہے جسے عوام بخوبی جانتے ہیں۔ وہ زمانے گئے جب الیکشن کے دن ہی مطلوبہ نتائج کے لئے تمام ناجائز حربے استعمال کئے جاتے تھے ، اب نئے نئے طریقے رائج ہو چکے ہیں ۔ ان کا اظہار ہمیں پچھلے الیکشن اور موجودہ الیکشن سے پہلے نظر آ رہا ہے۔ ایک فریق اور اس کے ہم دردوں کو خوف زدہ کیا جارہا ہے ، دباؤ میں لا کر انٹرویوز کے ذریعے ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ہر بندہ سمجھ جائے کہ اس الیکشن میں کس طرح کا نتیجہ درکار ہے ، لوگوں کو کسی ایک فریق کے اقتدار میں آنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ہر جماعت عوام سے مکالمہ اور طاقت لینے کی بجائے طاقت ور حلقوں کے دستِ  شفقت کی متمنی ہے۔ نواز شریف سیاسی بن باس کے بعد اپنی قیمت لگا چکا ، پی پی پی اپنے کیے  کا صلہ اپنے حصّے اور ” جُثّے” سے زائد کی صدا لگا   رہی ہے اور مقتدرہ سے بے وفائی کا گلہ کر رہی ہے ، دیگر جماعتیں بھی گوشہ عافیت کی متلاشی ہیں۔

پنجاب میں کسی حد تک ن لیگ کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان استحکام پارٹی کو سیاسی کچرا کنڈی بنایا جا رہا ہے تو بلوچستان میں اشاروں پر رقصاں سیاسی پتلیاں نواز شریف کے لیے وفاق اور صوبے میں اضافی کمک کا سبب بننے جا رہی ہیں ، سندھ میں بساط اس طرح سے بچھی ہے کہ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم علیحدہ علیحدہ ن لیگ کی انگلی پکڑنے کو تیار بیٹھے ہیں کہ اگر آنکھ دکھائے تو نیا سیاسی سانچہ ڈھالا جا سکے ، پختون خوا  میں جے یو آئی ، ن لیگ اور شاید اے این پی پر مشتمل مخلوط حکومت والے منظر میں مطلوبہ رنگ بھرے جا رہے ہیں۔

قرائن ہیں کہ اگلے سال  فروری میں ہونے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے ماحول اتنا ہی بدتر ہوگا جتنا اس نے جنرلوں کے ساتھ مل کر ن لیگ کے لئے پچھلے الیکشن میں ترتیب دیا تھا ، فرق صرف یہ ہے کہ ن لیگ اور اس کے رہنماؤں نے اس افتاد کو سیاسی انداز میں ہمت سے بھگت لیا لیکن عمران خان کی پارٹی اور اس کے رہنما ایک ہی جھٹکے میں مٹی کا ڈھیر ہو گئے۔

اس ساری صورت حال میں ہمیں تو یہی کہنا ہے کہ اگر مقتدرہ نے ایک غلطی کا ازالہ ایک نئی غلطی کی صورت کرنا ہے تو یاد رہے نتیجہ بھی کچھ مختلف نہیں نکلے گا۔ آپ عمران کو نکالیں یا نواز شریف کو لائیں ،کوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑنے والا ،کیوں کہ ملک کا موجودہ بحران ہمہ جہتی اور گھمبیر ہے یہ چہروں کی نہیں نہایت بنیادی معاشی و سیاسی تبدیلیوں کا متقاضی ہے جس کے لیے سیاسی جماعتیں اور مقتدرہ رتی بھر بھی تیار نہیں اس لیے کہ یہ تبدیلیاں ان کے مفادات کو روند کر ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ اس اُبھرتے سیاسی و معاشی منظر نامہ میں حقیقی ترقی اور تبدیلی سیاسی ایجنڈے پر موجود ہی نہیں۔ سیاسی جماعتیں موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا ذمہ دار مخالفین کو قرار دے کر تنقید کر رہی ہے۔ لیکن کوئی ٹھوس معاشی و سیاسی ایجنڈہ دینے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔آج جس بدترین صورت حال سے ملک دوچار ہے اس کا ذمہ دار مقتدرہ اور سیاسی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ ہے۔

ملک کے اقتدار پر قابض سیاسی جماعتوں نے ملک کے 78 فیصد انسانوں کو غربت کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، جو جانوروں سے بدتر زندگی گزرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ عام لوگوں کی حقیقی آمدنی میں پچاس فیصد سے زائد کمی واقع ہو چکی ہے۔ پاکستان جنوبی اشیاء میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے سب سے کم تر درجہ پر ہے جب کہ مہنگائی میں سرفہرست ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ عام شہریوں کے روز مرہ استعمال خصوصاً اشیاء خودرونوش کی قیمتوں میں اضافے کا تناسب ستر فی صد تک پہنچ چکا ہے۔

پچھلے پانچ سالوں میں پاکستانی روپے کی قد ر میں پچاس فیصد سے زائد کمی نے ضروریات زندگی کے حصول کو تقریبا ًناممکن بنادیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ناجائز ٹیکسو ں  نے مزید لاچار اور مجبور بنا دیا ہے۔

پچھلی حکومت کی نجی اہسپتالوں مافیہ کے مفادات کے لئے تحت بنائی گئی صحت پالیسی نے عوام کو علاج معالجے کی سہولیات سے محروم کر دیا ہے ۔ سرکاری اہسپتال میں ادویات اور صحت کی عام سہولیات ختم کردی گئی ہیں اور عوام کی نجی اہسپتالوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فارما سوٹیکل کمپنیوں نے ادویات کی قمیتوں میں ایک اندازے کے مطابق حالیہ مہینوں میں اسّی فیصدکر دیا ہے۔بجلی اور گیس کی قمیتوں میں بے تحاشا  اضافے نے صنعتی و زرعی پیداوار کو خطرناک حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت دو کروڑ سے زائد افراد بے روز گار ہیں اور ان کی تعداد میں ہر سال پچاس لاکھ سے زائد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ شرح نمو دو فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت کی وجہ سے سب سے زیادہ بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں ۔

بے روزگاری ، غربت اورنہ رکنے والی مہنگائی کے نتیجے میں زہنی امراض کے علاوہ خود کشیوں کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو ا ہے۔ورلڈ بنک کے اعدادو شمار کے مطابق مڈل کلاس کے لیے تقریبا ً پانچ اشاریہ پانچ ڈالر روزانہ کی آمدن ضروری ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی 78.4 فیصد یعنی تقریبا ً انیس کروڑ  افراد غربت کی لائن سے قریب زندگی گزار رہے ہیں ،جبکہ بدترین غربت کا شکار افراد کی تعداد نو کڑور سے زائد ہے۔ جب کہ لاکھوں نوجوان ملک کے مستقبل سے مایوس ہو کر ملک چھوڑنے کے لئے قانونی و غیر قانونی راستے اختیار کر رہے ہیں ۔

کسی بھی ملک کے لیے اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ حکمران عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے کوئی پالیسی دینے کے بجائے آئی ایم ایف کے غلامی کے منصوبے پر دستخط کو خوشی کی نوید بنا کر پیش کررہے ہیں ۔ آئی ایم ایف ایک ایسا عفریت ( مانسٹر) ہے جس نے دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کے اربوں انسانوں کو قرضوں کے چنگل میں پھنسا  کر ترقی اور خوشحالی کے تمام راستوں کو مسدود کر دیا ہے۔ حکمرانوں کی ناعاقیت  اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان سیاسی و معاشی طور پر غلام ملک بن چکاہے جس پر مسلط حکمران آئی ایم ایف کے وائسرے کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان قرضوں کی ادائیگی کے لئے قرض لیتا ہے، پاکستان دنیا کا پانچوں اور جنوبی ایشیاء کا سب بڑا مقروض ملک بن گیا ہے۔

ایسی صورت حال میں الیکشن کے نتائج کچھ بھی مرتب کئے جا سکتے ہیں ، طاقت کے زور پر کسی بھی قسم کی سیاسی صف بندی کی جاسکتی ہے۔ کچھ قوتیں سیاسی انجینئرنگ کی نہ صرف استعداد رکھتی ہیں بلکہ وہ اس صلاحیت کو بروکار لا بھی رہی ہیں لیکن درپیش مسئلہ کو حل نہیں کر سکتیں۔

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی سیاسی جماعت مسئلہ کے بپھرے سانڈ کو سینگوں سے پکڑ کر گرانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ مسائل اور ان کے حل کا جو گروہ گہرا ادراک رکھتے ہیں وہ نہ صرف عوامی طاقت سے یکسر محروم ہیں بل کہ انہوں نے عوامی طاقت سے رجوع کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ سعی کی بھی نہیں ہے۔

قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
(میر)

سو میدان خالی ہے قاتلِ جاں ہیں کہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ نا امیدی کے پھیلے اندھیرے میں امید ہی وہ چنگاری ہے جو کسی لحظہ بھی بھڑک سکتی ہے۔ انتخابی معرکہ کے دوران کروڑوں عوام ایک بڑے سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں، ایک امکان ضرور ہے کہ وہ اس سیاسی اشرافیہ اور مقتدرہ کو آئینہ دکھائیں اور ان کے سات دہائیوں پر پھیلے کالے کرتوتوں کے نتائج پر ان کو جواب دہ بنائیں اور اپنے لیے نئی راہیں اور نئی سیاسی صف بندیوں کی بنیاد رکھیں۔

julia rana solicitors london

لینن نے کہا تھا کہ بعض اوقات کئی دہائیاں گزر جاتی ہیں کچھ نہیں ہوتا اور بعض اوقات دہائیاں کا سفر ہفتوں میں طے ہو جاتا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply