چُوک۔۔مختار پارس

گھر کے لان میں مٹی کے برتن میں باجرہ اور دانے رکھے تھے اور ہر طرح کے پرندے طرح طرح کی بولیاں بولتے ہوۓ برتن کے گرد جمع تھے۔ مجھے میری رعونت نے اکسایا کہ میں فخر کروں کہ پرندے میرے گھر سے کچھ کھا پی رہے ہیں۔ یہ عطاۓ ربِ کریم ہے کہ تمہاری خواہش کسی پر فرض بن کر اترے اور کسی پر قرض بن کر۔ جو عمل نہ فرض ہو اور نہ قرض اور پھر بھی ادا کرنا ضروری ہو، وہ بھی عطاۓ ربِ کریم ہے۔ دنیا میں انسان کچھ نہ کچھ دینے کےلیے آیا ہے۔ مگر یہ موقع رب سب کو نہیں دیتا۔

میں حجامت بنوانے کی غرض سے گھر سے نکلنے لگا تو خاتونِ خانہ نے پیچھے سے آواز دی کہ پرندوں کے دانے ختم ہیں، لینے ہیں اور بازار سے گوشت بھی لیتے آئیے گا۔ گوشت کا سن کر خواہ مخواہ دیوِ اشتہا جاگ اٹھا اور رات کے کھانے پر رکھی مٹن بریانی اور بھنی ران کا گوشت نظر آنے لگا۔ انسان کتنا کمزور ہے کہ اسکی خواہشیں اسکے ارادوں کو بدل سکتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ قصائی کے پاس سے گوشت پھر ملے نہ ملے، پہلے وہیں چلتا ہوں۔ وہاں پہنچ کر بہت اہتمام سے اپنے پیٹ کا ایندھن بھرنے کےلیے بکروں کی بوٹیاں کٹوائیں اور لفافے بھر کر وہاں سے نکل کر حجام کی دکان کر راہ لی۔

راستے میں ایک بلی مل گئی جس نے لفافے میں گوشت سونگھ میرے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا۔ وہ مسلسل میاؤں میاؤں کر رہی تھی اور میں اپنا اور اپنے بچوں کا رات کا کھانا اس سے بچانے کی کوشش میں ‘ہش ہش’ کرتا کرتا نائی کی دکان پر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر گوشت کے لفافے کو ڈھانپ کر ایک نکر میں رکھا اور بڑے طمطراق سے بال بنوانے بیٹھ گیا۔ بلی کی آس ابھی ختم نہیں ہوئی تھی، وہ بھی میری طرف دیکھتے ہوۓ دکان کے دروازے پر ہی بیٹھ گئی۔ حجام نے میرے بال گیلے کیے، قینچی اٹھائی اور اپنا کام شروع کردیا۔ بلی اب بھی بول رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ گھر جا کر بیگم سے کہوں گا کہ آج تو نرگسی کوفتے بھی بنا دے۔ اچانک نائی نے میری حجامت روک کرمسلسل بولتی بلی کو دیکھا اور مجھے کہا کہ ‘صاحب! میں ابھی آتاہوں’۔

میں سمجھا کہ وہ بلی کو بھگانے گیا ہے۔ نائی دکان سے باہر نکلا اور چلتا ہوا سامنے پلازے میں چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ سامنے قصائی کی دکان میں داخل ہوا۔ کچھ دیر کے بعد نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ اس نے وہ لفافہ واپس اپنی دکان میں آ کر بلی کے سامنے پلٹ دیا۔ بلی کے منہ سے شکریے کی غراہٹیں نکلیں اور وہ گوشت پر پل پڑی۔ کچھ دیر کے بعد بلی بھی وہاں سے چلی گئی اور میں بھی وہاں سے چل دیا۔ مگر میرا دل اداس تھا۔ مجھ سے نیکی کا ایک موقع ضائع ہو گیا۔ وہ نائی مجھ سے مرتبے میں کتنا بڑا تھا کہ وہ اپنی روزی چھوڑ کر اس بلی کی بھوک مٹانے چلا گیا۔ میں کتنا مدہوش تھا کہ اپنے پیٹ کا ایندھن ہاتھ میں اٹھاۓ مجھے کسی بےزبان کی طلب بھی نہ سمجھ آئی اور نہ سنائی دی۔

اسی افسوس میں مبتلا گھر کی طرف روانہ ہوا تو موبائل پر کسی پرانے دوست کا فون آ گیا۔ اس سے بات کر کے اتنی خوشی ہوئی کہ ابھی ابھی ہونے والے واقعے کا احساسِ جرم بھول گیا۔ دوستانہ گفتگو رفتہ رفتہ قہقہوں میں بدل گئی اور میں چوراھے پر کھڑا دوستی نبھا رہا تھا۔ اچانک کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے موبائل پر بات کرتے کرتے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک بڑھیا تھی جو اللہ کے نام پر کچھ مانگتی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ میں موبائل اور دوسرے ہاتھ میں گوشت کا تھیلا پکڑا ہوا تھا، اپنا بٹوہ کیسے کھولتا۔ میں نے فقیر کو رکنے کا اشارہ کیا کہ بات ختم کرکے کچھ دیتا ہوں۔ گفتگو کو جلدی سے سمیٹ کر بٹوہ نکالا اور حسبِ توفیق چند سِکے نکال کر مڑا تو بڑھیا کہیں نہیں تھی۔ وہ چلی گئی تھی۔ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں تھی یا اسے جلدی تھی، اسے اس طرح نہیں جانا چاہیے  تھا۔ اسے میرا انتظار کرنا چاہیے تھا، کہ میں اس کے ہاتھ پر کچھ رکھتا۔ میں ابھی ابھی ایک احساسِ جرم سے نکلا تھا کہ دوسری غفلت نے میرا گریبان پکڑ لیا۔ فقیرنی نے بہت ظلم کیا کہ میرا انتظار کیے بغیر چلی گئی۔ میں ساری مارکیٹ میں بھاگا کہ شاید وہ بڑھیا کہیں نظر آ جاۓ تو میں سارے نوٹ بغیر گنے اس کو دے دوں ۔ مگر وہ بڑھیا کہیں نہیں تھی۔ رب جب ہمیں اپنے خزانوں سے عطا کرنے کے لمحے عطا کرتا ہے تو وہ کتنے مختصر ہوتے ہیں۔ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو رب کے حکم سے عطا کرتے ہی رہتے ہیں۔

بابا یاد آگئے۔ بابا صبح گھر سے تیار ہو کر باہر مردانے میں بیٹھ جاتے۔ گھر کا صدر دروازہ کھلا رہتا تھا۔ بابا کی جیب میں ریزگاری بھری ہوتی تھی۔ گھر کا دروازہ ہر دس منٹ کے بعد بجتا رہتا تھا۔ کبھی کوئی آ جاتا کبھی کوئی۔ ہم بابا پہ ہنستے کہ یہ کیا آپ چار آنے آٹھ آنے دیتے رہتے ہیں، اس سے ان کا کیا بنتا ہو گا۔ تو وہ ہنس کر کہتے کہ یہ امداد نہیں، دعا دیتا ہوں۔ بس تم خیال رکھا کرو کہ میری جیب میں سکے کم نہ ہونے دیا کرو۔ ایک روز بابا گھر میں جلدی سے داخل ہوۓ اور سخت غصے میں تھے۔ کہنے لگے کہ جہاں پیسے رکھے تھے وہاں پڑے نہیں، جیب میں بھی ختم ہیں اور باہر ایک سائل کھڑا ہے۔ گھر میں جو پڑا ہے ڈھونڈ کر دو، باہر کھڑے شخص کو کبھی خالی نہیں جانا چاہیے۔ کچھ عرصہ بعد اللہ کا حکم آیا اور بابا چلے گئے۔ ایک روز دروازہ بجا۔ دروازہ کھولا تو باہر ایک سائل کھڑا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر پوچھا،’باباجی؟’ میں نے ہولے سے کہا کہ وہ چلے گئے۔ سائل کی آنکھوں سے پانی بہہ نکلا اور وہ دھاڑیں مار کر وہاں سے چل دیا۔ میرے ہاتھ میں اٹھنی انگلیوں میں پکڑی رہ گئی۔ اس نے سکے کو آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں اور جاتا رہا۔ میری ریزگاری میرے ہاتھ میں رہ گئی۔ تب مجھے احساس ہوا وہ کوئی آٹھ آنے لینے تو آتا نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انہی یادوں میں بات آئی گئی ہو گئی۔ میں گھر واپس آ گیا۔ گوشت بھی پک گیا اور کھایا بھی جا چکا۔ رات کو گھر والی نے پوچھا کہ پرندوں کا دانہ لاۓ تھے کیا؟ میں نے کہا، ‘نہیں۔ بھول گیا’۔ اگلے دن سب سے پہلے اٹھ کر دانے لایا۔ پرندوں کے برتن بھرے۔ کتنے دن ہو گئے۔ برتن باجرے سے بھرے ہوۓ ہیں۔ پرندے دانا کھانے ہی نہیں آۓ۔ کہیں انہوں نے میری نگاہ میں رعونت تو نہیں دیکھ لی تھی؟کسی کو کچھ دینے کا انتظار کتنا کٹھن ہوتا ہے۔ میرے رب مجھے معاف کردے۔مجھے لمحوں کی تسخیر کا ملکہ ایسے عطا کر دے کہ طالبِ نظر سے نظر نہ چھوٹے۔ مجھے میرے پرندے واپس کر دے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply