نیا محاز (1) ۔۔۔ رضا شاہ جیلانی

کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے علاقے نوشکی کے قریب ایک کار کے جلنے کا واقعہ پیش آیا جس میں دو افراد جان سے گئے اور ایسے کہ تقریباً لاشیں بھی پہچاننے کے قابل نہیں رہیں۔ فوری طور پر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کے یہ افراد کون تھے اور کہاں سے آرہے تھے اور انکی منزل کیا تھی؟ مگر بتدریج اطلاعات نے اس الجھے معاملے کو رفتہ رفتہ سلجھانا شروع کر دیا کے ان میں سے ایک اہم شخص کون ہے اور اسکا پسِ منظر کیا تھا۔

معاملہ مکمل طور پر اس وقت سمجھ میں آیا جب اسکی تصدیق ملک کے ایک معتبر نیوز چینل نے کار جلنے کے کچھ ہی دیر بعد کسی بین الاقوامی ادارے کی تصدیق سے کر دی۔ گاڑی کے قریب سے ملنے والے پاسپورٹ اور طالبان کمانڈر ملا منصور اختر کی تصویر کو باہم ملا کے بتایا گیا کے جلنے والا ایک شخص طالبان لیڈر ہے۔ مگر بھلا ہو امریکہ بہادر کا جو اس نے ایسے وقت میں دوبارہ اپنا کام دکھا دیا جب پانامہ کا نیا نیا شوشہ جنم لے رہا تھا اور شور میں میاں صاحب کی آواز کافی کمزور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ اس وقت اس گاڑی پر کیا گیا وہ ڈرون شاید امریکہ کی پسندیدہ سیاسی حکومت کی کچھ مدد کر گیا جس کے بعد پاکستانی میڈیا مکمل طور پر پانامہ کی جانب سے اپنی توجہ ہٹا چکا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا سمیت پاکستانی عوام کی توجہ واقعی کافی عرصے تک پانامہ پیپرز سے مستقل دور رہی۔ مگر پانامہ کا شور پچھلے دنوں پھر سے جاگنے لگا

علامہ صاحب کے وطن آتے ہی اور اپنی تحریک کا آغاز کرتے ہی عمران خان کے جلسوں جلوسوں میں بھی جیسے ایک دم پھر سے جان پڑ گئی یوں عمران خان کو پانامہ پیپرز اور حکومت کے خلاف محاز کے لیے ایک ساتھی کا ساتھ میسر آگیا۔ میڈیا نے ایک بار پھر سے عوامی جلسوں کو فل کوریج دینا شروع کر دیا۔ مگر یہ کیا کہ جیسے ہی علامہ صاحب اور عمران خان کا اتحاد وجود میں آتا ہے اور جلسے جلوسوں کا اعلان ہوتا ہے تو اسی دوران ایک اور ڈرون ہو جاتا ہے مگر اس بار یہ ڈرون کچھ عجیب تھا جس نے میڈیا کی مکمل کوریج ایک بار پھر سے پانامہ کے شور سے نکال کر کراچی کی جانب کر دی۔ 

یہ ڈرون بائیس اگست کے دن برطانیہ سے اس وقت کے ایم کیو ایم قائد الطاف حسین نے بذریعہ اپنے ٹیلی فونک خطاب میں بھی کیا۔ جسکے بعد پاکستانی عوام کے شدید رد عمل نے الطاف حسین کی سیاست کو ایک بار پھر سے نائن زیرو سے نکال کر صرف زیرو پر کھڑا کر دیا۔ ان تمام تر معاملات کی گرد میں جو اہم معاملہ تھا وہ کہیں کسی بہانے دب گیا، یا دبا دیا گیا۔  ایک کے بعد ایک سیاسی ڈرونز کی نظر ہونے والا وہ ایک اہم معاملہ، جس کا تعلق ہماری قومی سلامتی سے تھا، کہاں رہ گیا؟ اس پر حکومتِ وقت نے کیا قدم اٹھایا؟ اور وہ عمل کتنا مؤثر رہا؟ اور بین الاقوامی سطح پر اسے لیکر اپنا کیس کتنا لڑا؟ یہ سب اور ان جیسے کئی سوالات کے جوابات کہیں دور کسی سرد خانے میں ہی پڑے رہ گئے۔

وہ اہم معاملہ بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایکٹنگ کمانڈر کلبھوشن یادو اور اسکی ایران نوازی کا تھا۔
کیا وجہ ہے کے ہماری جمہوری حکومت اس معاملے پر ابھی تک ایران سے دو ٹوک بات چیت بھی نہ کر سکی؟ کیا وجہ ہے کے ہماری حکومت اب تک ایرانی حکومت سے کلبھوشن اور اسکے ایران میں موجود نیٹ ورک کے حوالے سے کوئی واضح بات چیت کرنے میں سفارتی طور پر بھی ناکام رہی ہے؟ دوسری  جانب ایران کا یہ دوہرا معیار بھی عام پاکستانی کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے کہ آیا ایران ایک مسلم دوست اور ایک پڑوسی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کے خلاف کام کرنے والی خفیہ ایجنسیوں کی افغانستان کے بعد دوسری محفوظ پناہ گاہ کیوں کر بنا ہوا ہے؟ ہم اگر حالیہ اس سال کی ہی مثال اٹھا کے دیکھ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کے عزیر بلوچ ہو یا کلبھوشن عرف حسین مبارک یا پھر نوشکی میں مارا جانے والا نامعلوم ولی محمد جس کے بارے میں میڈیا کی خبریں تھیں کہ یہ ایک طالبان کمانڈر تھا یہ سب کے سب ایران کے راستے سے ہی پاکستان میں کیوں کر داخل ہوئے، یہاں سے ہی ایران کیوں جاتے رہے؟ ایران ہی میں انکے لیے ایسا کیا ہے جو یہ صرف وہاں ہی کا سفر کرتے رہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایران مکمل طور پر پاکستان مخالف قوتوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے؟ کیا اسکی ایک وجہ کہیں پاکستان کا سعودی اتحاد میں شامل ہونا تو نہیں؟ ویسے بھی یہ بات روزِ اوّل سے عیاں ہے کے پاکستان کی سعودی اتحاد میں کلیدی کردار کیساتھ شمولیت ایرانی حکومت کو ایک آنکھ نا بھائی تھی۔ جس پر خاموش احتجاج بھی ایران نے کیا تھا۔ خاموش احتجاج سے مراد ایران کی جانب سے پاکستانی بارڈر پر پھینکے گئے کچھ میزائل تھے جس کے نتیجے میں کئی بار پاکستانی عوام کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ کچھ روز قبل بھی ایران کی جانب سے فائرنگ سمیت گولے پھینکے جا چکے ہیں۔

اب آتے ہیں اصل اور اندرونی بات کی جانب، کہ آخر ہمارا برادر اسلامی ملک ایران کیا چاہتا ہے؟
ویسے مجھے آج تک امریکہ کی کچھ پالیسیز بڑی عجیب لگتی ہیں۔ جیسا کہ وہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کو تباہ کرنے کے در پر ہے مگر آخر کیا وجہ ہے کہ وہ ایران جیسے کمزور ملک کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتا؟ کئی مغربی ممالک میں فائرنگ سمیت کئی دھماکوں کے واقعات ہو چکے ہیں جن میں سے کئی افراد کا تعلق بیشمار مسلم ممالک سے نکالا جاتا رہا ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ کسی کا تعلق بھی آج تک ایران یا ایران کی کسی مذہبی تنظیم سے نہیں نکلتا؟ یہ ہی بات کچھ روز قبل ہم نے اپنے ایک دوست سے پوچھی جن کا کاروبار کے حوالے سے ایران کافی آنا جانا لگا رہتا تھا۔

موصوف کا کہنا تھا کہ ایرانی ایک طاقتور اور ایک مضبوط قوم ہیں۔
بالکل صاحب، مضبوط ہوں گے مگر افغانیوں سے زیادہ مضبوط تو نہیں ہو سکتے، افغانی کئی دہائیوں سے آج بھی جنگ کے ماحول میں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply