• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انڈیا کا عالمی سیاسی جوڑ توڑ اور مسئلہ کشمیر۔۔۔۔عمیر فاروق

انڈیا کا عالمی سیاسی جوڑ توڑ اور مسئلہ کشمیر۔۔۔۔عمیر فاروق

کشمیر پہ آخری تحریر مودی حکومت کے حالیہ اقدامات سے قبل قلمبند کی تھی لیکن اشارہ دے دیا تھا کہ چین کو ڈارک ہارس سمجھا جائے جو کسی بھی وقت میدان میں کود سکتا ہے اور مودی حکومت کے اقدامات کے بعد بعینہ یہی ہوا۔
انڈین حکومت کا اگرچہ بی جے پی کے بنیادی ایجنڈا میں  حصہ تھا تاہم اس وقت اس پہ عمل جلدبازی اور افراتفری میں کیا گیا اور یقیناً افغانستان پہ ہونے والی متوقع پیشرفت اس عجلت کی وجہ بنی اس طرح کشمیر کے مسئلہ کا براہ راست تعلق افغانستان اور خطے کی سیاست سے ہے۔
بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اثر علاقائی سیاست پہ کیا ہوگا سیاست اور حالات کیا ممکنہ رخ اختیار کرسکتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک تصور یہ موجود ہے کہ امریکہ کو اس اقدام کا علم تھا اور وہ اندر سے ملے ہوئے ہیں ،شاید یہ تصور ضرورت سے زیادہ قنوطیت پہ مبنی ہے، طالب علم کی رائے میں امریکہ ابھی اوپن ہے اور وہ حالات کو دیکھ رہا ہے کہ کون کیا رخ اختیار کرتا ہے تبھی وہ اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالے گا۔ کشمیر کو اس بار مغربی میڈیا میں جو اہمیت ملی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ہمارے ہاں اس امر کا ادراک موجود نہیں کہ گزشتہ دو تین سالوں سے انڈیا کا رویہ امریکہ کے لئے مایوس کن بلکہ پریشان کن تھا چین امریکی بالادستی کے لئے عمومی چیلنج ضرور ہے لیکن فوری خطرہ وہ روس کو سمجھتے ہیں اسی لئے روس اور ایران کے بارے میں انکا رویہ بہت سخت ہے لیکن انڈیا انکی خواہش کے برعکس ان ممالک سے فاصلہ اختیار کرنے کو تیار نہیں،جبکہ وہ انڈین خواہش پہ پاکستان کو مکمل طور پہ نظرانداز کرچکے تھے یہ رویہ کسی بھی سپرپاور بالخصوص امریکہ کے لئے قابل برداشت نہیں ،دوم انہیں یہ بھی سمجھ آچُکی تھی کہ پاکستان کو نظرانداز کرکے انہوں نے انڈیا کے بارے میں موجود واحد لیوریج کو بھی ختم کردیا جبکہ انڈیا کی چین مخالفت کی وجہ امریکی دوستی نہیں بلکہ پاکستان سے دشمنی ہے جو موجود رہے گی لہذا وہ اپنی جنوبی ایشیا کی پالیسی کو ری بیلنس کرنے لگے ہیں جو کسی حد تک ابھی نظر بھی آرہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا امریکی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا مکمل عدم تعاون انکے لئے اتنا بڑا نقصان ہے کہ وہ اسکا خطرہ مول نہیں لیں گے پاکستانی تعاون انہیں صرف افغانستان سے نکلنے کے لئے ہی نہیں چاہیے بلکہ دوبارہ وسطی ایشیا پہ اپنا سیاسی اور معاشی اثر قائم رکھنے کے لئے بھی درکار ہوگا۔
اس لئے ابھی سے یہ تصور کرنا غلط ہوگا کہ امریکہ کشمیر کے ضمن میں کوئی فیصلہ کرچکا ہے، ڈپلومیسی کے لئے جگہ موجود ہے۔
جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو وہ فیصلہ کرچکے ہیں اور اب مسئلہ کشمیر میں براہ راست فریق بھی ہیں۔
روس نے انڈیا کو اشارہ دیا ہے جب روس نے اس آئینی ترمیم کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دیا اس پیغام کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اگر انڈیا امریکہ کی بجائے روس کو اتحادی چنتا ہے تو وہ موجود ہیں فیصلہ انڈیا کے ہاتھ میں ہے۔
لیکن انڈیا کے لئے یہ آسان فیصلہ نہیں اوّل تو روس کی معیشت اتنی مضبوط نہیں کہ وہ انڈیا کے لئے امریکہ کا متبادل بن سکے دوم روس کسی طرح بھی چین سے اپنا اتحاد ترک نہ کرے گا اور چین پھر پاکستان کا اتحادی ہے لہذا پاکستان کو یہاں بھی وہ خارج نہیں کرسکتے
سوم یہ کہ کسی ایسے فیصلہ کو امریکہ کس طرح لے گا اور پاکستان اسکا کیا فائدہ اٹھائے گا یہ سوچ کر وہ ایسا رسک نہ لیں گے بلکہ انکی کوشش یہی ہوگی کہ امریکہ ہی کسی طرح انکے ایران اور روس سے تعلقات کو برداشت کرے۔
وہ اگر اب بھی اس وہم سے باہر نہیں آئے تو بہت جلد انہیں آنا پڑے گا کہ محض بڑی مارکیٹ ہونا جیوسٹریٹیجک اہمیت کا متبادل نہیں اور مارکیٹ کا سائز دوطرفہ معاملہ ہے ڈبلیو ٹی او کی موجودگی میں مارکیٹ تک رسائی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ممکن نہیں ورنہ چین ہی انکے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے پہ مجبور ہوتا جو امریکہ سے کہیں زیادہ انڈیا کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔
انڈیا کا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ خطے کا کوئی ملک بشمول امریکہ طالبان کے بارے میں انکے خوف میں شریک نہیں طالبان کی افغانستان واپسی کی صورت میں کشمیر کی مزاحمت سخت اور تیز ہوتی لگ رہی ہے۔ فی الحال کشمیر میں کرفیو نافذ ہے لیکن بالآخر جب اٹھے گا تو عوامی ردعمل کیا ہوگا اور دنیا اس کو کس نظر سے دیکھے گی ؟
کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے سے پڑنے والا ایک فرق تو ابھی سے واضح ہے کہ کشمیری قومیت پرست محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ وغیرہ جو ہمیشہ دہلی نواز رہے اب نہ صرف عوام کے سامنے غلط ثابت ہوئے بلکہ اپنی سیاست کا جواز بھی کھو بیٹھے اور یہی وہ لوگ تھے جن کو وہ ہمیشہ دنیا کے سامنے اپنے قبضے کے اخلاقی جواز کے طور پہ پیش کرتے رہے۔
اب عملاً کشمیر کی حیثیت غزہ کی پٹی سے مختلف نہیں رہی جبکہ اسرائیل کے پاس کوئی گیا گزرا امن فارمولا تو ہے جبکہ انڈیا کے پاس یہ بھی موجود نہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ کب تک وہ کسی اخلاقی جواز کے بغیر محض طاقت کے زور پہ کشمیر کو محبوس رکھ سکتے ہیں اور عالمی سیاسی جوڑ توڑ میں انکے پاس کوئی غیرمشروط طاقتور اتحادی کم سے کم ابھی تک موجود نہیں اور اگر ڈھونڈنے نکلے تو اس کی قیمت بھی ادا کرنا ہوگی۔
مختصراً یہ محض ابتدا ہوئی ہے آگے آگے سیاست کھلتی جائے گی البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ کشمیر ایک بار پھر بطور عالمی مسئلہ لائم لائٹ میں آگیا ہے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply