تعدیل۔۔مختار پارس

رات بھر شہر میں چراغاں رہا۔ پھر اچانک بادل امڈ آئے اور ایسا گرجے اور اتنا کڑکے کہ خدا کی پناہ ! ایسا لگ رہا تھا جیسے کہہ رہے ہوں عشق کو ثابت کرنے کےلئے کیا صرف جلتے بجھتے برقی قمقمے ہی رہ گئے ہیں کیا؟ اگر یہی بات ہے تو آؤ  کرو مقابلہ ! عشق کو آگ اور جاگ سے ثابت نہیں کیا جاتا کہ نہ یہ دلیل ہے اور نہ دستور ؛ یہ ایک مقام ہے جو میسر آ جائے تو حیرت کہلاتا ہے اور نہ مل سکے تو استغراق۔ محبت پر اصرار ، ظلم پر اقرار اور سینے پر تلوار میں کچھ بھی فرق نہیں۔

میں دھیمی آنچ پر عشق کرتا ہوں ۔ مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ اذان دوں یا وجد میں آ سکوں ۔ مجھے پو پھٹنے کے ساتھ ہی ایک کلی کی مانند کھلنا ہے اور شام ہونے تک سارے پنکھ بکھیر دینے ہیں۔ شام کے بعد انتظار کرنے والے کو معلوم تک نہیں ہو گا کہ دوران زیست اسکا انتظار بھی اسی طرح کیا گیا تھا۔ ہر خوشبو کا ایک اپنا حصار ہوتا ہے۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا جا سکتا ہے مگر پس دیوار ہونے والے انتظار کی بابت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر انتظار مقدر میں لکھ دیا گیا ہو تو پھر منتظر کو مقتدر کی فکر نہیں رہتی۔ دشمن چاروں طرف خندق بھی کھود لے تو پھر بھی انتظار کی آس نہیں ٹوٹ سکتی۔ ایک وقت آتا ہے جب بے توجہی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ؛ درد جسم پر نہیں حواس پر اپنا اثر دکھاتا ہے۔ روح اگر جسم سے باہر نکل کر تماشا دیکھنا شروع کر دے تو پھر یا حیی و یا قیوم کے معنی سمجھ میں آتے ہیں ۔

ایک زمین ہمارے سامنے تا حد نگاہ آباد ہے جس میں ہر شخص نے دفن ہونا ہے۔ اس سے بھی بڑی زمین ہمارے اندر موجود ہے۔مگر ہر شخص کا مزار اس کے اپنے اندر نہیں بن سکتا۔ اپنے اندر دفن ہونے کےلئے آنکھیں کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنے مدفن کے بارے میں صرف وہی جانتا ہے جو اس راز سے واقف ہو جو حیات اور ممات دونوں پر بھاری ہے۔ یہ راز سر راہ کنکر اور پتھر کی طرح جا بجا بکھرے ہیں مگر راہرو کو نہ خبر ہے اور نہ مہلت۔ کوئی راز کسی ظالم پر کبھی افشا نہیں ہو سکتا۔ سایہ دیوار میں چوکڑی مارے ایک شخص زمین کی طرف دیکھتا ہو  اور خاک کا ہر ذرہ آنکھیں بھر بھر کر اس سے مخاطب ہے۔ مرید مدفن کے باہر کھڑے ہیں مگر انتظار میں نہیں۔ مرشد کا اشتیاق انہیں بیٹھنے نہیں دیتا۔ اب شق قبر ہو تو شق قمر کا نظارہ کر سکیں ۔

بوڑھے برگد کے نیچے بیٹھا بوڑھا کتاب کہنہ کا باب نو لکھ رہا ہے۔ اسے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کچھ نہیں ہے ۔ تعمیر میں کسی توقیر کا کوئی سروکار نہیں اور کوئی تفسیر کسی تقسیر کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ حق اور حقیقت کے درمیان ایک دریا بہتا ہے جو دونوں زمینوں کے مابین واحد تعلق ہے۔ یہ زندگی کا دریا ہے۔ اگر کسی نے اس پانی کو پار کرنے کےلئے کسی نا ؤکا سہارا لیا تو اس کا جسم بھیگنے سے محروم رہا اور اگر کسی نے تیراکی کے زعم میں آب ِ رواں میں چھلانگ لگا دی تو بھی مارا گیا۔ طریقت کے تقاضوں کا اصرار ہے کہ دریا میں اترنا ضروری ہے مگر شرط یہ بھی ہے کہ لباس بے داغ رہے۔ مگر حقیقت کا کہنا ہے کہ زندگی ناؤ میں بیٹھ کر کپڑے سمیٹنے کا نام نہیں۔ یہ تو چادر پر لگے داغ پر مزید میلاہٹ کو ثبت کرنے کی ایک انتظام ہے۔ یہ سازش احسن الخالقین کو فنا کر سکتی ہے۔ اس سازش سے بچنا ہے تو میلے لباس کو پہنے رکھنا اور اس سازش کا شکار ہونا ہے تو بہتے پانی سے وضو کرتے رہنا لازم ہے۔

ہر وہ نفس جو برکت کا طلبگار رہتا ہے، دار السکون میں رہتا ہے۔ برکت کے معانی ہیں کہ جو بھی نیت اور سکت ہو، اس کا نتیجہ خیر ہو۔ سکون دل میں ہو تو ہر طرح کے حال میں گزارا ہو سکتا ہے۔ برکت اس بندے کے کام میں ہوتی ہے جو نیت کا ولی رہتا ہے۔ ہم نے بہت سے سورما اپنے تعصب سے ٹکرا کر منہ کے بل ایسے گرتے دیکھے کہ آئینہ بھی ان سے آنکھیں چرائے۔ اس دنیا میں جس شخص سے دوسرے انسان پناہ مانگتے نظر آئیں وہ اسفل السافلین ہے، کچھ اور نہیں۔ کسی کے مرتبے اور کسی کی شان سے نفرت کسی کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ بہت افسوس ہوتا ہے جب انسان اس قدر گر جاتا ہے کہ لوگوں کو ترازو ٹیڑھا کر کے دکھا دیتا ہے ۔ اسے یہ خبر نہیں کہ انصاف کرنے والا اسے دنیا کی نظروں میں رذیل کی پہچان عطا کرکے، اسی دنیا میں اسکا حساب کر چکا ہے۔ یہ بھی اس پر عذاب ہے کہ وہ اپنے مقدر میں لکھی گئی سزا کو اپنا اختیار سمجھ کر جیتا رہتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت آ کر گزر چکا ہے۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے، صرف ماضی ہے اور یہ کافی نہیں۔ اب بھی راست کا گھونگھٹ نہ اٹھایا تو جلوہ فکر و نظر کسی عہد و پیمان کے بغیر شب غفلت کے قدموں میں ڈھیر ہو جائے گا ۔ آج کے لمحے کا المیہ یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم ایک ہیں۔ دونوں آنے والے وقت کی چاپ سے لاتعلق ہیں۔ وقت کے چہرے پہ نقاب نہیں مگر وقت سے بیزار ہر چہرے پر ہزار چہرے ہیں۔ ظالم کو اس کی ترسناکیوں نے بے رحم بنایا ہے اور ہر مظلوم کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ بے درد بننے میں تاخیر نہیں کرتا۔ ہر وہ شخص جس نے اس خاک پر چلنا سیکھا ہے، اس کے اندر ایک فاسق، ایک جاہل اور ایک جابر بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہر روز اس کے دل میں ایک نئی خواہش جنم لیتی ہے کہ وہ خدا کی زمین پر اترا کر چلے۔ عافیت اسی میں ہے کہ وہ ایسا کچھ نہ کرے جس سے دوسرے زندگی سے بھرپور انسانوں کی چشم حیراں، ویراں ہو جائے۔ جسم کا طاقت ور ہونا انسان ہونے کی ضمانت نہیں ۔ انسان تب جنم لیتا ہے جب وہ اپنے اندر موجود گدھ کو باہر نکال پھینکتا ہے۔ طاقت کے ہوتے ہوئے دوسرے پر ظلم نہ کرنا انسان ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔ آنے والا وقت صرف اس کا ہے جس کی آواز دھیمی ہوگی اور جو مسکرانا جانتا ہو گا؛ جس کے دل میں کینہ نہیں ہو گا اور جس کے ماتھے پر پسینہ نہیں ہو گا ۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply