علی اختر کی تحاریر
علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

میں خدا کو نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔علی اختر/ قسط 6

میں یہ نوٹ کرتا تھا کے عرب اسٹوڈنٹس کا رویہ ایرانیوں کے ساتھ تو سرد تھا ہی میرے ساتھ بھی اب وہ گرمجوشی نہ تھی ۔ پھر ایک دن ایک بریک کے دوران میرے ایک شامی کلاس فیلو “خالد” نے←  مزید پڑھیے

کچھ رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔علی اختر

کافی عرصہ ہوا دومختصر سی تحریریں نظر سے گزری تھیں ۔ ہمارے قومی رویہ کو سمجھنےمیں ان کو پڑھ کر بہت حد تک مدد ملے گی ۔ پہلی تحریرکچھ یوں تھی ۔ “اگر ہم سڑک پر کھڑے کسی موٹر سائیکل←  مزید پڑھیے

ہم بیٹیاں بیچنے والی قوم ہیں۔۔۔۔علی اختر

بحیثیت قوم ہم پاکستانی کچھوے سے مشابہہ ہیں ۔ اپنی زندگی ایک خول میں گزار دیتے ہیں ۔ ہماری دنیا ، ہماری سوچ کا محور ایک خول ہے ۔ یہ خول ہماری  بابت ہماری سوچ کا ہے ۔ یہ سوچ←  مزید پڑھیے

رنگیلہ شاہ کا گھوڑا وزیر۔۔۔اختر علی

محمد شاہ رنگیلا کا دور حکومت ستائس سال پر محیط تھا ۔ وہ 1729 سے 1748 تک ہندوستان کا بادشاہ رہا ۔ بدنام زمانہ سید برادران نے اسے جیل سے آزاد کرا کر تخت پر بٹھادیا تھا ۔اس سے منسوب←  مزید پڑھیے

میں خدا کو نہیں مانتا ۔۔۔۔۔علی اختر/قسط5

ترکی زبان کے کورس “تومر” میں میرے ساتھ اکثریت شامی، یمنی اور فلسطینیوں کی تھی ، پھر ایرانیوں کا نمبر تھا ۔ سیاہ فام کیمرونی اور صومالی بھی چند ایک تھے ۔ رشین اور آزری بھی ۔ چائنا کے سنکیانگ←  مزید پڑھیے

سکندر اور ایک ارب درختوں کا معلق باغ۔۔۔علی اختر

عظیم فاتح اور سپہ سالار سکندر اعظم 330 قبل مسیح میں پیدا ہوا ۔ 350 قبل مسیح میں محض بیس سال کی عمر میں باپ کی موت کے بعد مقدونیہ کا حکمران بنا۔ چاہتا تو ساری زندگی وہیں عیش و←  مزید پڑھیے

پتھر کے ہاتھ۔۔۔علی اختر

آج آفس میں داخل ہوتے ہی میں کرسی پر دراز ہو گیا ۔ رات دیر تک مطالعہ کی وجہ سے سوتے سوتے دو بج گئے تھے اور پھر وہی صبح چھ بجے اٹھنا۔ ہاں آفس جاتے ہوئے راستے میں اچھی←  مزید پڑھیے

بشیرے میراثی کی واپسی۔۔۔۔۔علی اختر

کہتے ہیں کے بشیرا نام کا ایک میراثی اپنے گاؤں اور میراثی فیملی کو چھوڑ کے شہر آگیا ۔ کام پیدائش سے ایک ہی کرتا چلا آیا تھا تو شہر میں بھی گلے میں ڈھول ڈالے، رنگین کپڑے پہنے ،←  مزید پڑھیے

میں خدا کو نہیں مانتا ۔۔۔علی اختر/قسط 4

سڑکوں ، فٹ پاتھوں ، خوبصورت دکانیں اور گھر دیکھتے ہم دس منٹ کی واک کے بعد ایک تین منزلہ عمارت کے دروازے پر موجود تھے ۔ بیل بجانے پر ایک نو عمر لڑکے نے دروازہ کھولا اور گرمجوشی سے←  مزید پڑھیے

ارماڑہ میں پنجابی استعمار کا قتل۔۔۔۔علی اختر

کمرے میں داخل ہوتے ہی ناگوار سی بو نے میرا استقبال کیا۔ جیسے کسی نے بہت دن کے بعد گندے موزے اتارے ہوں ۔ کمرے کی میلی دیواریںں، سیلن زدہ ماحول، زمین پر بچھےگندے بستر، ایک سائیڈ پر پڑے گندے←  مزید پڑھیے

سکھاندرو (ٹرینی) وزیر خزانہ۔۔۔۔۔علی اختر

ہماری کمپنی میں بھی دوسری اچھی کمپنیوں کی طرح ہر سال مختلف انجیئنرنگ یونیورسٹیوں سے فائنل ایئر اسٹوڈنٹس کو ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد جاب آفر کی جاتی ہے۔ کمپنی جوائن کرتے ہی انکو ٹرینی انجینئر کا ڈیسگنیشن دیا جاتا←  مزید پڑھیے

نام “کراچی” اور شوق “لندن” والے۔۔۔علی اختر

ہمارے شہر کراچی میں بارش چار ، پانچ سال میں ایک ہی بار ہوتی ہے۔ گو اب تو مضافات میں بھی فصلیں ملیر کی مٹر، ہری مرچ اور بھنگ کی رہ گئی  ہیں اور اس میں بھی پانی ہم سیوریج←  مزید پڑھیے

سیاسی ٹیٹریاں اور “ٹی ٹیوں” کا حساب (ایک تجزیہ )

مکالمہ پر محترم حسن نثار صاحب کا کالم “سیاسی ٹیٹریاں اور ٹی ٹیوں کا حساب“ کے عنوان سے پڑھا ۔ حسن نثار صاحب کو میں پڑھنے سے زیادہ سننا پسند کرتا ہوں۔ سچ بولتے ہیں تو زیادہ تر کڑوا ہی←  مزید پڑھیے

میں خدا کو نہیں مانتا ۔۔۔۔علی اختر/قسط 3

مجھے ترکی پہنچے ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا تھا ۔ تاریخ اور تاریخی عمارات سے مجھے عشق ہے تو استنبول دیکھنا اور وہاں رہنا میرے لیئے ایسا ہی تھا جیسا کسی عاشق کے لیئے اسکے محبوب کا دیدار ۔←  مزید پڑھیے

انھیں نیند کیسے آتی ہوگی۔۔۔۔علی اختر

برسوں پہلے میں نے مشہور مصنف “ہیرالڈ لیمب ” کی کتاب “tamerlane the earth shaker” (تیمور لنگ جس نے دنیا ہلا دی ) پڑھی تھی۔ اس کتاب میں جا بجا تزک تیموری یعنی تیمور کی سوانح حیات کے حوالے موجود←  مزید پڑھیے

کوہ نور ہیرا اور ننگے دادا ۔۔۔ علی اختر

میرے بچپن کے زمانے میں ایک فیملی ہمارے علاقے میں ایک اچھی ، بڑی بلڈنگ خرید کر شفٹ ہوئی ۔ ماں ، باپ دو بیٹے اور ایک بوڑھے سے لحیم شحیم چھ فٹ کے دادا جی۔ باپ کوئی کاروبار کرتا←  مزید پڑھیے

قانون کے آگے ۔۔فرانز کافکا یہ کہنا چاہتا ہے/علی اختر

مجھے سن 2007 میں کسی دفتری کام کے سلسلے میں تھر کا سفر کرنا تھا اور وہاں کچھ عرصہ قیام بھی کرنا تھا ۔ یاد رہے کہ  اس دور میں اینڈرائڈ موبائل بھی نہیں تھے اس لیئے وقت گزارنا بہت←  مزید پڑھیے

میں خدا کو نہیں مانتا ۔۔علی اختر/قسط2

اس نے گھر سے نکل کر میرا پر تپاک استقبال کیا اور ہاتھ پکڑ کر گھر میں داخل ہو گیا ۔ تین کمروں پر مشتمل چھوٹے سے گھر کے پہلے کمرے میں وہ مجھے لے کر مختصر سے قالین کے←  مزید پڑھیے

نفاست , نظریہ اور شاکر”کنکھجورا”۔۔۔۔علی اختر

راقم پاپے ، ڈبل روٹی لے کر بیکری سے نکلا تو سامنے سے آنے والے آدمی کو دیکھ کر ٹھٹک گیا ۔ گندی ڈھیلی ڈھالی جینز اور کریم کلر کی میلے کالر والی شرٹ میں ملبوس بھاری بھرکم سیاہ رنگت←  مزید پڑھیے

قصہ “روغن و ماہی “۔۔۔علی اختر

راقم لڑکپن میں شکار کا شوقین رہا۔ یاد رہے کہ کراچی میں شکاری ، “شیر افگن” یا “چڑی مار” کو نہیں بلکہ ماہی گیر کو کہا جاتا یہ ہے کہ آسانی و سہولت کے ساتھ “مچھی” ہی وہ حیوان ہے←  مزید پڑھیے