رنگیلہ شاہ کا گھوڑا وزیر۔۔۔اختر علی

محمد شاہ رنگیلا کا دور حکومت ستائس سال پر محیط تھا ۔ وہ 1729 سے 1748 تک ہندوستان کا بادشاہ رہا ۔ بدنام زمانہ سید برادران نے اسے جیل سے آزاد کرا کر تخت پر بٹھادیا تھا ۔اس سے منسوب کئی قصے، کہانیاں، مشاغل وغیرہ تاریخ کی کتابوں میں لکھے ہیں۔ یہ عیش و عشرت کا دلدادہ تھا ۔ روز پانچ وزیر مقرر کرتا ۔ سو، پچاس کو شاہی خلعت عطا کرتا ۔ اگلے ہی دن ان کو معذول کرتا ۔ وزیر اعظم کو جیل میں ڈلوا دیتا ۔ اچانک حکم دیتا کہ  کل سب درباری زنانہ لباس میں دربار تشریف لائیں ۔ اسی کے دور میں نادر شاہ کا حملہ ہوا ۔ دہلی میں قتل عام ہوا ۔ وغیرہ وغیرہ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے آدمی ہی کو بادشاہ بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔ تو صاحبو! کٹھ پتلی بادشاہ ایسے ہی لوگوں کو بنایا جاتا ہے ۔ اور اگر قسمت سے وہ مذکورہ بالا خصوصیات کا حامل نہ بھی ہو تو ایسی کابینہ عطا کی جاتی ہے کہ  بقول شخصے بوقت ضرورت”کوئی گرائے نہ ۔ وہ خود ہی گر پڑے” ۔

کہا جاتا ہے کہ  آدمی کتنا ہی برا کیوں نہ ہو زندگی میں کوئی  کام تو ایسا کر ہی دیتا ہے جو اسکی تمام تر غلط کاریوں کے داغ مکمل نہیں تو بڑی حد تک ڈرائی  کلین کر دیتا ہے ۔ ایسا ہی رنگیلا شاہ کے ساتھ بھی ہوا ۔ جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ  رنگیلا شاہ کیونکہ ایک کٹھ پتلی بادشاہ تھا اور اسکی کابینہ بھی پلانٹڈ ونااہل افراد پر مشتمل تھی لیکن اس نے اپنے سرپرستوں اور کابینہ کی تمام تر مخالفت کے باوجود اپنے ایک چہیتے گھوڑے کو بھی وفاقی وزیر کا درجہ دے دیا ۔ گو تاریخ دان اسکے اس قدم کو بھی تنقید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن راقم تاریخ دانوں کے اس رویہ کو محض خود کااشرف المخلوقات ہونے کا زعم اور حیوانات سے بغض و تعصب کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا ۔

اس گھوڑے اور رنگیلا شاہ کے تعلقات اس وقت سے تھے جب  رنگیلا شاہ کو بادشاہ تو کیا کلرک بننے کی بھی امید نہ تھی ۔ اسکے بچپن کے دوست اور ساتھی طالب علم وغیرہ بھی زیادہ لفٹ نہیں کراتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً”رنگیلا” کہہ  کہہ کر چھیڑتے ۔ وہ انکے خراب رویے کے باعث جب اداس ہوتا تو آنکھوں میں آنسو لیے اصطبل کی طرف نکل آتا جہاں اسکا وفادار دوست “گھوڑا” اسکا منتظر ہوتا ۔ پھر دونوں مل کر انسانوں کی بیدردی کا رونا روتے اور دل کا بوجھ ہلکا کرتے ۔ بس اسی وقت رنگیلا شاہ نے سوچا تھا کہ  کبھی نہ کبھی اس دوستی و دلجوئی کا حق ادا کردوں گا ۔

خیر مختصر یہ کہ  گھوڑے کی محبت اور وفاداری کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے وزیر بنا دیا گیا ۔ وزیر کی خلعت زیب تن کرتے ہی سب سے پہلا کام گھوڑے نے یہ کیا کہ  شہر میں ایک مقام جہاں دہشت گردوں سے مقابلہ جاری تھا فوج کے شانہ بشانہ ، جنگی لباس پہنے ، کمر میں تلوار حمائل کیے اگلے مورچوں پر پہنچ گیا ۔ کبھی وہ    تو  خانہ پر نظر آتا تو کبھی اگلی صفوں میں گھوڑانا وار دشمن پر ہی  پے در پے وار کرتا ۔ جنگ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ  رنگیلا شاہ کی تھکی ہوئی سپاہ سائیڈ پر بیٹھ گئی  اور کہا کہ ” ایسا کرو آپ اکیلے دیکھ لو ” ۔ قصہ مختصر کہ  دہشت گردوں کے صفایہ  کے بعد جب وہ زرہ بکتر پہنے بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو خوش تھا۔ لیکن یہ کیا۔ بادشاہ کے کان پہلے ہی بھرے جاچکے تھے ۔ اس نے گھوڑے وزیر کو سخت سست کہا کہ ” میاں تمہیں وزیر بنایا تھا ۔ سپہ سالار تھوڑی کیا تھا ۔ فوج کا کام انہیں کرنے دو ۔ تم وزیر ہو موج کا کام کرو “.۔ اس واقعے کے بعد گھوڑا کچھ سنبھل گیا ۔

روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ گھوڑا پینٹنگز بنوانے کا بہت شوقین تھا ۔ کیونکہ  آبا و اجداد تاتاری گھوڑوں کی نسل سے تھے تو خون میں جنگی جنون بھی موجود تھا ۔ اب یہ شوق جنگ اور شوق مصوری مل کر مغلیہ دور کے مصوری کے شاہکار فن پارے بنوانے کا باعث بنے ۔ وہ دشمن کے ہر ہر قلعہ ، تباہ شدہ توپ ، جلے ہوئے خیموں وغیرہ پر دو ٹانگوں پر کھڑا مغلیہ جھنڈا تھامے پورٹریٹ بنواتا ۔ وہ تو اس دور میں جہاز ایجاد نہیں ہوا تھا ورنہ دشمن کے گرے ہوئے جہاز پر پینٹنگ بنوانے تو وہ مہران سے کشمیر تک کا سفر کرنے سے بھی نہ چوکتا ۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ  رنگیلا شاہ کا اعتماد اپنے باقی تمام وزراء کے مقابلے میں گھوڑے پربہت زیادہ ہو گیا تھا ۔ عوامی اجتماعات، دربار وغیرہ میں وہ بادشاہ کا اسپوک پرسن بن کر بیانات بھی دے دیا کرتا تھا ۔ بلاشبہ وہ بادشاہ کا وفادار ساتھی تھا لیکن تھا تو ایک گھوڑا ہی نا اور بقول شاعر “از مغز دو صد اسب فکر انسانی نمی آید ” تو بیان بھی گھوڑے ہی کی فراست کے مطابق ہوتے ۔ مثلاً ایک بار بے روزگار عوام کو بیس روز کے شارٹ ٹرم نوٹس پر بے شمار نوکریوں کی خوشخبری سنادی ۔ دہلی کے عوام بھی چھٹی ہوئی  تھے ۔کاونٹ ڈاؤن شروع کر دیا ۔ بادشاہ و وزیر گھبرا ئے ۔ کافی سبکی ہوئی ۔ درباریوں نے ہاتھ جوڑ لیے کہ اسے معذول کر دو لیکن بادشاہ کی محبت کے سامنے سب مجبور تھے ۔

گو اس واقعے کے بعد گھوڑے کے بیانات پر پابندی لگا دی گئی  تھی لیکن پھر بھی گاہے بگاہے وہ کچھ نہ کچھ بیان دے ہی ڈالتا جیسے اسکا آخری بیان گھاس کی قیمتوں میں اضافے پر آیا کہ گھاس دو سو روپے گڈی پر پہنچی تو بھی عوام بادشاہ کے ساتھ ہیں ۔ خطرناک عوامی رد عمل پر اسے یہ کہہ کر بیان کی وضاحت کرنی پڑی کہ عوام سے مراد گھوڑے ہی تھے نا کہ منافق و مطلب پرست انسان ۔ اب گھاس تو گھوڑوں کو ہی کھانی ہوتی ہے تو اس وضاحت کو درست مان لیا گیا ۔

کہتے ہیں کہ رنگیلا شاہ کے آخری وقت میں عوام نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مطابق لال قلعہ کا گھیراؤ کیا ہوا تھا آخر بادشاہ کا بھی عین اسی وقت قصہ تمام ہوا ۔ اب باقی درباریوں کو اپنی جان کی فکر ہوئی۔ عوامی نمائندوں سے مذاکرات ہوئے ۔ عوام نے مطالبہ کیا کہ  “آپ لوگوں کا کوئی  مسئلہ نہیں ۔ آپ جا سکتے ہو ۔بس وہ گھوڑا ہمارے حوالے کر دو ” ۔ گھوڑے نے قلعہ کے اندر پناہ چاہی تو فوج کو پہلے ہی بڑی عالی توپ کی صفائی  کرتے پایا جسکے دہانے پر گھوڑے کو باندھ کر اڑانا تھا ۔ اس وقت گھوڑے نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہی خلعت اتار پھینکیں اور شاہی اصطبل میں روپوش ہو گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

راوی لکھتا ہے کہ اس نے باقی ماندہ زندگی ایک عام گھوڑے کے طور پر ہی روپوشی کے عالم میں گزاری ۔ تاریخ میں کسی گھوڑے کو ملنے والی وزارت کا یہ پہلا واقعہ  تھا ۔ کہتے ہیں کہ  اب بھی کہیں کہیں اس سے ملتے جلتے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ وللہ اعلم ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply