میں خدا کو نہیں مانتا ۔۔علی اختر/قسط2

اس نے گھر سے نکل کر میرا پر تپاک استقبال کیا اور ہاتھ پکڑ کر گھر میں داخل ہو گیا ۔ تین کمروں پر مشتمل چھوٹے سے گھر کے پہلے کمرے میں وہ مجھے لے کر مختصر سے قالین کے ٹکڑے پر بیٹھ گیا۔

کمرے میں اور کچھ بھی نہ تھا بس دیوار کے ساتھ ایک کونے پر کتابوں کا ایک ڈھیر لگا تھا ۔ “انہیں کسی ریک وغیرہ میں کیوں نہیں جوڑ لیتے ” میں نے کتابوں کی جانب اشارہ کیا ۔ وہ جواب میں مسکرایا”ہاں بس اس بار کی تنخواہ میں ان کا گھر بھی لے لیں گے ” ۔
میں نے کتابوں کے ڈھیر میں سے “کلیات اقبال” اٹھا لی اور پوچھا “یہ پڑھی ہے ”
“ہاں کوشش کر رہا  ہوں”
“اس میں موجود نظم “ابلیس کی مجلس شوریٰ” پڑھو تو پتا چلے گا کہ  علامہ کے نزدیک کون سا نظام بہتر ہے” مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ  شاعری پڑھنے اور سمجھنے میں وہ مجھ سے بہت فرلانگ پیچھے ہے سو تھوڑی بھرم بازی تو بنتی ہی تھی ۔
“بالکل پڑھوں گا ۔ لیکن ضروری نہیں کہ  میں جو پڑھوں اس سے متفق بھی ہو جاؤں ۔ اختلاف کا حق محفوظ رکھتا ہوں”

پھر ایک گلاس پانی پلا کر  وہ کھڑا ہو گیا کہ  میٹنگ   شروع  ہونے والی ہے چلو ۔

ہم گلی کے کونے پر موجود صمد کے بھائی  کے گھر کے سامنے تھے جو نسبتاً کشادہ تھا ۔ گھر کے داخلی دروازے کے بعد تھوڑی سی جگہ اوپن بھی تھی ۔ جہاں ایک گاڑی کھڑی کی گئی تھی اوربالسیشن نسل کا ایک کتا بھی بندھا تھا جو مجھے دیکھ کر فوراًًً  ہی بھونکنا شروع ہو گیا اور جب تک میں اوپن جگہ کے بعد واقع بیٹھک تک نہ پہنچ گیا وہ لگاتار شور مچاتا رہا ۔

بیٹھک میں قالین پر سفید چاندنی بچھائی گئی تھی اور گاؤ تکیے بھی موجود تھے ۔ جن پر دس سے بارہ افراد ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ انہوں نے کھڑے ہوکر میرا خیر مقدم کیا اور فردا ًًً فردا ًًً مصافحہ کرنے کے بعد ایک تکیہ کے ساتھ مجھے بھی جگہ دی ۔ میں نوٹ کر رہا تھا کہ  اس جماعت میں سولہ سترہ سال کے لڑکوں کے ساتھ ساتھ ساٹھ سال سے اوپر کے بوڑھے بھی ہیں ۔

زیادہ تر پشتون تھے اور اتنے تعلیم یافتہ بھی نہیں تھے کہ  کمیونزم کو پوری طرح سمجھتے ہوں ۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ  چاہے مقاصد ایک ہوں لیکن یہ سب ملحد نہیں ہو سکتے ۔ بہرحال یہ خیال بھی دل میں تھا  کہ اگر ابھی نہیں بھی ہیں تو بنا لیئے جائیں گے ۔

مقرر یا لیڈر ٫پارس” نام کا ایک لڑکا تھا جو مجھ سے کچھ ہی زیادہ عمر کا ہوگا ۔ وہ پشتون نہیں تھا ۔ لہجے سے پنجاب کا لگتا تھا ۔ اس نے بھی مجھے ویلکم کیا اور صمد نے مجھ سے اسکا تعارف کرایا ۔ اس نے بیگ سے ایک اخبار بھی نکال کر دکھایا جس پر “طبقاتی جدو جہد” لکھا تھا اور اس میں “پارس ” کا مضمون بھی چھپا تھا ۔

ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی  زیادہ تر باتیں مزدور طبقہ سے متعلق تھیں ۔ نہ میں نے مذہب پر کوئی  بات کی اور نہ کسی اور نے ۔ تھوڑی دیر میں کھانے کے لیئے دسترخوان بچھا دیا گیا ۔ بریانی اور سالن کے ساتھ فرائی  مچھلی کی بھی  موجود تھی ۔

“آپ لوگوں کی باتیں تو غریبوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیئے تھیں اور کھانے میں فرائی  فش ” میں نے مچھلی کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے طنز کیا ۔ “یہ سب آپکے لیئے ہے ” کیونکہ آپ ابھی تک کامریڈ نہیں بنے ۔ جواب صمد کے بھائی  کی جانب سے تھا ۔
” آپکو کیسے پتا کہ  میں کامریڈ نہیں ہوں”
“ہم روکھی سوکھی کھاتے ہیں ۔ کمزور کمزور سے ہوتے ہیں اور آپ کی جسامت دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ  آپ مولوی ہیں ”
میں سن کر ہنس دیا ۔

کھانے کے بعد بھی کچھ وقت بات چیت میں گزرا ۔ میں نے سویت یونین کے انہدام کو کمیونزم کی ناکامی سے تعبیر کیا تو “پارس ” نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال کر اس وعدے پر میرے حوالے کی کہ  میں پڑھ  کر “صمد” کو  دے دونگا ۔ یہ کسی کمیونسٹ رائٹر کی لکھی کتاب کا اردو ترجمہ تھا جسمیں تفصیل سے ان اقدامات کا جائزہ تھا جس کی وجہ سے سویت یونین کا انہدام ہوا ۔ میں فرداً فرداً سب سے مصافحہ کے بعد وہاں سے رخصت ہوا ۔

یہ میری کمیونسٹوں کی کسی محفل میں شرکت کا پہلا اور آخری موقع تھا ۔ میں طبیعت کے اعتبار سے کھلا ڈھلا انسان ہوں اور لوگوں کا رنگ اتنی جلدی خود پر نہیں چڑھاتا ۔ میرا اپنا ہی ایک رنگ اور ترنگ ہے ۔ اس بات کا صمد نے بھی اندازہ کر لیا تھا سو اس نے دوبارہ مجھ سے اصرار بھی نہیں کیا اور نہ ہی میں نے خواہش ظاہر کی لیکن ہماری نشستیں اسکے بعد بھی کچھ عرصہ چلیں ۔ میں بھی اسکے الحاد کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر چکا تھا بہرحال خدا کو ماننا یا نہ ماننا اسکا نجی معاملہ تھا اور میں اس میں دخل اندازی کیونکر کرتا آخر کو ہم دونوں نے اپنی اپنی قبروں میں جانا تھا سو میں زیادہ تر سنتا اور وہ بولتا رہتا ۔

ہاں میں یہ جانتا تھا کہ  ہم پاکستان کے اسلامی معاشرے کے رہنے والے تھے اور یہاں اسے اسکے نظریات پبلکلی بیان کرنا بہت مہنگا بھی پڑ سکتا تھا ۔ خیر وقت گزرتا گیا اور دنیا کی بھیڑ میں صمد مجھ سے الگ ہو گیا ۔ موبائل اسنیچرز کی مہربانی سے اسکا نمبر بھی کھوگیا اور مکمل رابطہ منقطع ہو گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن یہاں بس نہیں صاحبو کہ  میرے مشاہدے میں ایک اور معاشرہ بھی ایسا ہے جہاں اپنے نظریات کی تشہیر خطرناک ثابت ہو سکتی تھی لیکن اس بار نشانہ اسلام پسند اور نشانہ بنانے والے مسلمان لیکن مذہب بیزار تھے (جاری ہے)

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply