ہمارے ملک میں طبقاتی فرق ، غیر منصفانہ حکمت عملی اور مفاد پرستی کی پالیسیوں سے گداگری کے پیشے کو بڑا فروغ ملا ہے۔ نہ صرف اپاہج اور معذور لوگوں نے بلکہ تندرست بچوں اور جوانوں نے بھی بھیک مانگنے کو ایک آسان نسخہ بنا لیا ہے۔ وہ بچے جنہوں نے تعلیم و تربیت حاصل کرنی ہوتی ہے اور بڑے ہو کر ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہوتا ہے ان کے سامنے صرف پیٹ کے مسائل رکھ کر انہیں گداگری کے طریقے سکھائے جاتے ہیں، وہ ہاتھ جو محنت مزدوری کے لیے بنائے گئے ہیں سوالی بن کر بھیک جیسی لعنت پر لگ جاتے ہیں۔ ہاتھ جب پھیل جاتے ہیں تو نہ کوئی شرم رہتی ہے اور نہ غیرت۔ گلی کوچوں میں بازاروں میں جدھر دیکھیں ، مظلوم چہروں کے ساتھ گداگر خاک چھانتے نظر آئیں گے۔ کچھ مرد و زن نے ہاتھ میں ڈاکٹر کے نُسخے پکڑے ہوتے ہیں دوائی لینی ہے۔ کوئی کہتا ہے ماں کو کینسر ہے۔ علاج کے لیے لاکھوں روپیہ اکٹھا کرنا ہے۔ عورتیں خوش پوش لباس میں نظر آتی ہیں ہم مانگنے والی نہیں ہیں۔ بیٹی کی شادی کرنی ہے ، ہمارے رواج کے مطابق پہلے دن کا جوڑا مانگ کر بنایا جاتا ہے۔ ہزار پانچ سو آپ بھی دے دیں، کوئی کہتا ہے بڑی منتوں مرادوں سے بیٹا پیدا ہوا ہے مزار پہ جا کر دیگیں چڑھانی ہیں۔ اگر مارکیٹ کی طرف نکل جائیں تو وہاں مانگنے والوں کا ہجوم نظر آئے گا۔ جونہی کسی کے ہاتھ میں پرس نظر آئے یا گاڑی کو بریک لگ جائے۔ بھکاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بچے ماں کی گود سے آزاد ہوتے ہی پہلا فقرہ یہ سیکھتے ہیں اللہ کے نام پر مدد کریں، روٹی کھانی ہے، باپ بیمار ہے، دوا لینی ہے۔
ماں سب سے چھوٹے بچے کو کمر سے لگائے خالی فیڈر ہاتھ میں پکڑ کر گاہکوں کے گرد چکر کاٹ رہی ہوتی ہے۔ بچہ بھوکا ہے دودھ لینا ہے۔ بچے کے تن پہ کپڑا نہیں ہے۔ سردی ہو یا گرمی یہ بچے ننگ دھڑنگ ہی رہتے ہیں اور کندھے پر لٹکے ہوئے مریل بچے کا فیڈر بھی ہمیشہ خالی رہتا ہے۔ ان گداگروں کا ہر پبلک مقام پر تانتا بندھا ہوتا ہے۔ بازار، بسوں کے اڈے، ٹیکسی سٹینڈز ۔اس بڑھتے ہوۓ سیلاب کو اگر روکا جا سکتا ہے تو حکومتی حکمتِ عملی سے۔ حکومت چاہے تو ان گداگروں کو پکڑ کر ان کے لیے لائحہ عمل تیار کر سکتی ہے۔ جو معذور ہیں محتاج ہیں ، مسکین ہیں ان کے وظیفے مقرر کرے اور جو ہڈ حرام ہیں یا بیروزگار ہیں ان کو روزگار فراہم کرے۔ مگر یہاں تو پڑھے لکھے نوجوان ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں نہ تو معدنیات کی کمی ہے نہ صنعت و حرفت کی، نہ زرعی پیداوار کی۔ لیکن حکومتوں کی خود غرض پالیسیوں کی وجہ سے معیشت دن بدن کمزور ہو گئی ہے۔ محنت کرنے والے ہاتھ تہی داماں ہیں۔ وسائل ہونے کے باوجود بیروزگاری بڑھ رہی ہے ،غلط پالیسیوں نے طبقاتی فرق کو زیادہ اجاگر کیا ہے۔ جو غریب ہے وہ تو مرتے دم تک کشکول اپنے ہاتھ میں رکھے گا۔ متوسط طبقے کے پَر کٹے ہوئے ہیں وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اسے اپنی زبوں حالی پہ رونے کا پورا حق دے دیا گیاہے۔ امیر طبقہ دن رات اپر ہائی طبقے میں جانے کے لیے پریشان ہے اور ایک حکمران طبقہ ہے جو ملک پر قابض ہوتا ہے۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں ہر کوئی بھاگ رہا ہے۔
غریب کے اوپر تو گداگری کا ٹھپہ لگ ہی گیا ہے لیکن اگر ہم حقائق کو سامنے رکھ کر تمام شعبوں میں جائزہ لیں تو ہمیں اپنے اردگرد کشکول گھومتے نظر آئیں گے۔ جس کا جتنا بڑا سٹیٹس ہے اسکی شان و شوکت کے پیچھے اتنا ہی بڑا کشکول چھپا ہوا ہے۔ کشکول چاہے مٹی کا ہو یا سونے کا وہ کشکول ہی ہوتا ہے۔ چاہے اس کے اندر بھیک کے پیسے ہوں ، رشوت کا مال ہو، سود کی رقم ہو ، یا تحفے تحائف ، کشکول پوری قوم کے ہاتھ میں ہے، اس کے بغیر کسی کام کی انجام دہی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
جائز و ناجائز کام ہو، بل پاس کروانا ہو، کسی نے اپنا جائز حق لینا ہو۔ زمینوں دوکانوں ، مکانوں ، پلاٹوں کی الاٹمنٹ ہو حتٰی کہ بچوں کی نوکریوں اور بھرتیوں کا کام ہو، کشکول کے اندر خون پسینے کی کمائی ڈال کر ہی نکلوانا پڑتا ہے۔ بعض سودےبازیاں اتنے بڑے پیمانے پر ہوتی ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے کشکول بیکار نظر آتے ہیں کیوں کہ کبھی بیگم کا ہار، بیٹے کی سپورٹس کار، کبھی کوئی خوبصورت لوکیشن میں پلاٹ تحفتاً وصول کر کے کام سے کام نکل جاتا ہے۔ حکمران اپنے ہتھکنڈوں میں مصروف سیلز ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، انکم ٹیکس لگا کر عوام کا خون چوستے ہیں۔قومی خزانہ ہمیشہ خالی ہی بتایا جاتا ہے اور اغیار کے آگے کشکول پھیلایا جاتا ہے ، کبھی قرضہ کے لیے اور کبھی قرضہ کی ادائیگی کے لیے اور یہ اڑانیں جاری رہتی ہیں۔ اربوں کی مالی امداد کدھر جاتی ہے عوام کو خبر نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے بدعنوانیاں ، رشوت سود ، ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو، عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ جب تک ہم دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا نہیں چھوڑیں گے اور اپنے حصے پر توکل نہیں کریں گے، کشکول ہمارے ہاتھ میں رہیں گے یہ ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں