• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچی افسانہ: مارشت۔۔۔۔تحریر: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ/مترجم: عبدالحلیم

بلوچی افسانہ: مارشت۔۔۔۔تحریر: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ/مترجم: عبدالحلیم

بنی نوعِ انسان اپنے اندر بہت سے احساسات رکھتا ہے۔ جس میں کچھ احساسات اس کی زندگی کو پُرسکون بناتے ہیں اور کچھ اس کی زندگی پر انگاروں کی طرح ٹوٹ کر گرتے ہیں۔ انسان کو اچھا کھانا اور پہننا پسند ہوتا ہے لیکن بھوک اس کو نڈھال کر دیتی ہے۔ علم انسان کو نیکی اور بدی کا فرق سکھاتا ہے اور جہالت اس کو اندھا کر دیتی ہے۔ محبت اور وفا کی دیوی کا بدن اس کی زندگی میں شہد کی طرح مٹھاس گھولتا ہے۔ خوبصورت آنکھیں، گلابی ہونٹ، بلند و بالا حسین قد اور پھر اس سے لپٹنا اس کی بے چین روح کو ایک ایسی لذت فراہم کرتے ہیں کہ جس کو بیان کرنے کے لیے لفظ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ غربت اس کو غم کی گہری گھاٹیوں میں گم کر دیتی ہے جب کہ دولت مند ہونا اس کو ہر چیز پر قدرت رکھنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔

انسا ن ہر حسین لمحہ کو دیکھنے کا آرزو مند رہتا ہے۔ وہ ترقی یافتہ شہر، اس کی خوبصورت سڑکیں، محفل و موسیقی، تھیٹر، قدیم آثارِ قدیمہ، ناچ گانوں اور تعلیمی مراکز اور اسٹیڈیم کو دیکھنے کی تمنا رکھتا ہے۔ انسان کو اپنی سرزمین اور قوم دوستی کا جذبہ بھی بے چین رکھتا ہے۔

دلوش ایک ایسا نوجوان ہے جو اپنی زندگی خیالوں میں بسر کرتا ہے۔ دلوش ہمہ وقت تخیل میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ جس میں وہ اچھی شہرت کا خواہاں ہوتا ہے۔ دلوش کو علم سے بھی گہرا لگاؤ ہے۔ تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ، سیاست، معیشیت اور ادب اس کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ دلوش کی سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے ایک ایسی خوبصورت دنیا دیکھے جو کتابوں میں ہے۔ دلوش الفین ٹاور کی بلندی کانظارہ کرنے، پیرس کے شہر الیز میں شامیں بِتانے اور وہاں خوبصورت لڑکیوں کے جھرمٹ دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔

وہ یہ بھی خواہش رکھتا ہے کہ وہ ایتھنز کو دیکھے جو علم و آگہی کی بنیاد رہا ہے۔ روم کے ویٹیکن سٹی کا دیدار کرے جہاں خدا کے نمائندے لوگوں کے جنت اور جہنم میں جانے اور نہ جانے کا پیمانہ بتاتے ہیں۔ لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ کو دیکھے جو خوبصورت دوشیزاؤں کا مسکن ہے۔ نیویارک میں آزادی کا مجسمہ دیکھے جو آزادی کی نشانی ہے۔ برازیل کی لبمی ساحلی پٹی ریو کی سیر کرے جہاں سیر پر آنے والا ہرشخص اپنی زندگی کے تمام غم بھول کر سمندری لہروں پر چڑھنے اور دوڑنے میں مصروف رہتا ہے۔

کھٹمنڈو جائے اور دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہمالیہ کو دیکھے جو برف کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اور بہت سے انسانون کے وجود کی نشانی ہے۔ چین جائے اور وہاں دیوارِ چین کا نظارہ کرے جو چینی قوم کی تہذیب کی محافظ ہے۔ کینیڈا کی ناگرہ فال کو دیکھے، آگرہ جا کر تاج محل کا نظارہ کرے جو پیار اور محبت کی لازوال نشانی ہے۔ ماسکو میں جا کر لینن کی زیارت کرے۔

دلوش ان خیالات میں غوطہ زن ہونے کے بعد پُرسکون لطف اٹھا رہا تھا اور ایسا گمان کر رہا تھا کہ قلوپطرہ اور لیڈی ڈیانا قبر سے نکل کر اس سے ہمکلام ہیں۔ کبھی کبھار وہ یہی سوچتا ہے کہ اسے خدا نے شاید اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی قوم کو ظالموں سے نجات دلائے۔ بس ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے جس میں ظلم اور انصافی نام کی کوئی چیز ہی باقی نہ رہے۔ وہ اپنی قوم کو شعور اور خوش حالی کا حامل بنا دے۔

دلوش ایک لمحہ میں جھنجوڑ کر کہتا ہے کہ وہ کہیں تھامس مور کی طرح خوابوں کی دنیا میں کھو تو نہیں گیا ہے؟ کیا میں پاگل ہوں کہ دن رات بس خواب ہی دیکھتا رہوں؟ اس بے حس دنیا میں میر ے خوابوں کو معنی اور تعبیرکون دے سکتا ہے؟ کیا میرے احساسات بھی لاحاصل ہیں؟ میں ایک انسان ہوں اور انسان بغیر احساسات کے کچھ بھی نہیں۔

نہیں نہیں!! میں اپنے احساسات سے کسی بھی صورت دست بردار نہیں ہو سکتا۔ یہ میری زندگی کا حصہ ہیں اور بغیر احساسات کے میرا وجود کچھ بھی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے احساسات زندہ رہیں۔
میرے احساسات زندہ رہیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply