جس دن میں بچ گیا تھا۔۔۔شاہد مسعود

2 فروری، 1974 کے کسی دن کا کوئی وقت تھا۔ میں سی ایم ایچ اسپتال ، راولپنڈی کے ایک کمرے میں اپنی ماں کے ہاتھ پہ سر رکھے اُسے دیکھے چلے جا رہا تھا۔ وہ نیم کوما Coma حالت میں تھی۔ اُس کے گُردے جواب دے چکے تھے، اور وہ dialysis مشین سے منسلک تھی۔ یہ مشین، سائز میں اتنی بڑی تھی کہ اُس نے آدھے سے زیادہ کمرہ گھیر رکھا تھا۔ اُس زمانے میں یہ مشین، کوئی علاج نہ تھا، بلکہ وہ صرف ایک وقتی ” مہلت ” مہیا کرتی تھی، جس کے استعمال کے دوران، گُردوں کو دوبارہ چلانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ایک موہوم سی اُمید تھی کہ شاید ایسا ہو جائے۔

ایک ہی جگہ سر رکھے رہنے سے میری گردن دُکھنے لگی تھی۔ میں نے سر اٹھایا اور ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ آج اُس کے ہاتھ میں فیروزے کی وہ انگوٹھی نہیں تھی جسے، جب بھی میں اُس کا ہاتھ پکڑتا، تو گھُماتا رہتا۔ مُجھے ایسا کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اسپتال والوں نے، ماں کو،اسپتال میں داخل کرتے وقت اُسے اُتروا دیا تھا۔
میں نے جونہی اُس کا ہاتھ پکڑا، تو بچپن کی ساری فلم آنکھوں میں جیسے گھوم گئی تھی۔
وہ بُرقعع پہنتی تھی، اور جب بھی بازار جاتی، میں ضد کر کے اُسکے ساتھ جاتا۔ سارے راستے اُس کا ہاتھ پکڑے رکھتا۔ وہ دکاندار کو پرس سے پیسے دینے کے لئے جب چند لمحوں کے لئے بھی میرا ہاتھ چھوڑتی ، تو مُجھے بہت کوفت ہوتی۔ نجانے کیوں، مُجھے بچپن ہی سے ہر لمحہ یہ خوف رہتا تھا کہ میں اُس سے کہیں بچھڑ جاؤں۔
میرے والد، اُس زمانے کے مردوں کی طرح سخت مزاج تھے۔ اس کے علاوہ، فوج کی نوکری اور انتہا درجہ کی دیانتداری نے اُن کی سخت گیری میں کُچھ اضافہ کر دیا تھا۔ دیانتداری ایسی تھی کہ فوج کے Station supply depot ( جہاں سے فوج کو اسلحہ کے علاوہ ہر چیز سپلائی کی جاتی ہے) کے OC ہونے کے باوجود، گھر میں جو روزانہ کی سبزی بھی آتی تھی، وہ بھی قیمتاً آیا کرتی تھی۔ اب، اتنے عرصہ بعد جب میں پیچھے مُڑ کے اُن دونوں کے بارے میں سوچتا ہُوں تو احساس ہوتا ہے، کہ والد شاید زیادہ سخت مزاج نہیں تھے، صرف یوں تھا کہ میری ماں بہت نازک تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود صرف پانچ سال کی تھی، جب میری نانی فوت ہُوئیں۔ اس محرومی نے اُسے ایسا بنا دیا تھا، شاید ! اُن دنوں، ماں کا دُکھ صرف ایک تھا کہ، گھر میں نہ رُکنے والی مہمانداری، اور بچوں کو مہنگے سکولوں میں پڑھانے کے با وصف ، مہینہ کے آخر میں والد کی تنخواہ ہمیشہ کم پڑ جاتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ اپنی ماں کو اسی پریشانی میں چھُپ چھُپ کے روتا دیکھا ہے۔ اسی لئے میری زندگی کے سب سے خوبصورت، نو عمری میں، کی گئی اُس پہلی نوکری کے وہ تین مہینے ہیں، جن میں، اپنی ایک سو بیس روپے کی تنخواہ میں سے، ستر روپے، اپنی ماں کی ہتھیلی پہ رکھتا تھا۔ ایسے میں اُس کا چہرہ کھِل اُٹھتا تھا۔ تب میں سوچتا تھا کہ بس ایک مرتبہ میں اپنے پیروں پہ کھڑا ہو جاؤں تو میں کبھی اپنی ماں کو رونے نہیں دونگا۔ میں ایک feminist ہُوں ، اور مجھے feminist ، کسی NGO ، یا عورتوں   کے عالمی دن نے نہیں بنایا، بلکہ خود میری ماں کی آنکھ سے گرتے ہُوئے آنسؤں نے بنایا ہے۔ اسی لئے میرا feminism, سطحی نہیں ہے۔ میرے لئے اُس کا رونا برداشت سے باہر تھا ۔ اُسے یوں روتا دیکھ کے میں بھی رونے لگتا تو وہ ہمیشہ مُنہ سے ” شی ” کی آواز سے مُجھے چُپ ہو جانے کا کہتی۔
مُجھ جیسے اکھڑ شخص میں شاعری اور ادب کا جو تھوڑا بہت ذوق ہے، اُسی سے آیا ہے۔ میرے اپنوں میں صرف وہی تو تھی، جسے میرے شعر یاد تھے۔ ہر ہفتہ، دس دن بعد وہ رات میرے سرہانے بیٹھ جاتی اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہُوئے کہتی، “شینو ! اپنے شعر سُناو ؟ ” ۔(وہ مُجھے پیار سے شینو کہہ کے پکارتی تھی) میرے ایک مرتبہ سنانے پر اُسے میرے شعر یاد ہو جاتے۔ مُجھے نہیں یاد کہ کبھی ایسا ہُوا ہو کہ مجھ سے، میرا کوئی شعر دوبارہ پوچھا ہو۔
اُن دنوں رسائل میں ، اور خصوصاً ، خواتین کے رسائل میں، جیسے ” حور “، زیب النسا “، ” شمع ” وغیرہ، میں ایک صفحہ ” میرے پسندیدہ اشعار ” کے عنوان سے ہُوا کرتا تھا، جس میں قارئین اپنی پسند کے شعر بھیجتے تھے۔ان صفحات میں چھپنے والے میرے سارے شعر، میری ماں ہی کے بھیجے ہُوئے ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی شادی کی تقریب سے گھر واپس آئیں تو مُجھے کہنے لگیں: “میں نے آج عجیب حرکت کی ہے”، ” وہاں، تُمہارے کالج کی کُچھ لڑکیاں، بھی تھیں، جو تُمہارے اور تُمہاری شاعری کی باتیں کر رہی تھیں ۔ پہلے تو میں خاموشی سے سُنتی رہی، لیکن پھر اچانک، نجانے مُجھے کیا ہُوا کہ میں اُونچی آواز میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکی کہ، ” شاھد میرا بیٹا ہے “۔ زور ” میرا ” پہ تھا۔
dialysis مشین وقفہ وقفہ سے چلتی اور بند ہوتی، اور اُس کے نتیجہ میں پڑنے والا صوتی فرق، بار بار،مجھے چونکا کے، یادوں کے سفر سے واپس لے آتا۔
عجیب بات ہے کہ میں کسی سے پیار کا اظہار، اُس شخص کا اصل نام لے کے نہیں کر سکتا۔ مُجھے کوئی نہ کوئی Love name چاہئے۔ مومو، مومی، بِجو، اُلو کی دُم، وغیرہ۔ میری بیٹیاں بھی میرے لئے، “مِچو” اور “مُنچ” ہیں۔
سو، جن دنوں میں کالج میں پڑھتا تھا، تو میں نے ماں کو Bugs Bunny کہنا شروع کر دیا۔ اس پہ وہ ہنستی اور یہی کہتی کہ ” دیکھو کیا زمانہ آ گیا ہے کہ اب اولاد ماں کو خرگوش سمجھتی ہے” ۔ اس نام کے رکھنے کی غالباً وجہ یہ تھی کہ مُجھے کارٹون بہت اچھے لگتے تھے، اور ہیں، اور وہ اس لئے ، کہ چاہے اُن پہ بم پھٹ پڑے، گاڑی سے ٹکرا جائیں، روڈ رولر کے نیچے آ کے پچک جائیں۔ کُچھ بھی ہو جائے، وہ مرتے نہیں۔ مُجھے کیا علم تھا کہ میرا Bugs Bunny تو اتنا پائدار نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ مُجھ میں اب بھی زندہ بولتی ہے۔ اُسے بھی شدید گرم چائے پینے کا شوق تھا، میں بھی ایسا ہی کرتا ہُوں۔ اُسے بھی اُبلے ہُوئی آلوؤں پہ نمک اور سُرخ مرچ ڈال کے کھانا پسند تھا، رمضان میں افطار کے وقت میرے میز پر بھی اس ڈِش کا ہونا لازم ہے۔ وہ بھی بستر پہ سیدھا سوتی تھی، میں بھی سیدھا سوتا ہُوں۔ میں اُس میں سے تھا، اور وہ اب بھی مجھ میں ہے۔
وہ میرے سامنے، اسپتال کے سفید بستر پر سیدھا ” سو ” رہی تھی۔ کبھی کبھی coma سے لمحہ بھر کے لئے باہر آتی تو کوئی ایک آدھ اُنگلی ہِل جاتی۔ میں حقیقت اور خیالوں کی دہلیز پہ کھڑا، کبھی پیر اِدھر پڑ جاتا، تو کبھی اُدھر۔
آخری عُمر میں اُس کے غم اور تھے۔ ایک تو میری بہن کے ہاں اولاد نہ ہونے کا غم، اور دوسرا بڑے بیٹے کی جُدائی کا غم، جس کا اُس نے کبھی کسی سے اظہار نہیں کیا۔( ہم دو بھائی، اور ایک بہن تھے )۔ میرے بڑے بھائی پر باہر جانے کی دھُن سوار تھی۔ وہ جرمنی جانا چاہتا تھا، لیکن والد اجازت نہیں دیتے تھے۔ میری ماں نے میرے والد کی منت سماجت کر کے اُسے باہر جانے کی اجازت دلوائی تھی۔ جس دن میرا بھائی جا رہا تھا، وہ دن ماں بیٹے کے ملاپ کا آخری دن تھا۔
میرےبہنوئی، کرنل نیاز، فوج میں تھے اور اکہتر کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد قیدی بنا لئے گئے۔ دو سال قید میں رہنے کے بعد جب دسمبر 73 میں یہ خبر ملی کہ وہ اپریل 74 کے اوائل میں وطن واپس آ جائیں گے، تو اس بات سے،جیسےگھر میں بہار آ گئی ہو۔ بھائی نے بھی لکھ بھیجا کہ، جب نیاز بھائی آئیں گے تو وہ بھی پاکستان آئے گا، اور یوں پانچ سال بعد سب لوگ ایک مرتبہ پھر اِکھٹے مل بیٹھیں گے۔ میری ماں نے، جسے پھولوں کا ویسے بھی شوق تھا، بڑے اہتمام کے ساتھ لان میں رنگ برنگے گلاب کے پھولوں کی قلمیں لگوائیں۔ کہتی تھیں کہ میں چاہتی ہُوں کہ “جب جیدی ( بڑا بھائی، جاوید )،اور نیاز آئیں تو لان، گلاب کے پھولوں سے مہک رہا ہو”
میں اپنی ماں کے ساتھ کیاریوں میں قلمیں لگانے میں مصروف ہی تھا کہ اچانک کسی نے میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھا۔ مُڑ کے دیکھا تو میرے والد تھے، اور یہ کہ میں گھر کے لان میں نہیں تھا، بلکہ اسپتال کے اُسی کمرے میں تھا، جہاں میری ماں بستر پر بے سُدھ پڑی تھی ۔ سر کی ہلکی سی جُنبش سے مُجھے باہر آنے کیلئے  کہا۔ کمرے سے نکل کے کوریڈور میں آیا تو پتہ چلا کہ باہر شدید بارش ہو رہی ہے، اور یہ کہ، دوپہر، شام میں ڈھلنے کو ہے۔ ” ابھی ابھی ڈاکٹر میرے پاس آیا تھا، اور کہہ رہا تھا کہ تُمہاری ماں آج کسی بھی وقت مر سکتی ہے۔
Its only a matter of time. کل عاشورہ ہے، دسویں محرم ۔ سب کُچھ بند ہو گا۔ تُمہیں آج ہی کفن دفن کے لوازمات خریدنے ہوں گے” یہ کہتے ہُوئے والد نے کُچھ رقم میرے اوؤر کوٹ کی اندر والی جیب میں ڈال دی، اور بوجھل قدموں سے چلتا ہُوا، ایک طرف پڑے ہُوئے بینچ پہ، اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کے بیٹھ گیا۔مُجھے یوں لگا کہ جیسے میرا وجود شل ہو گیا ہو۔ میں شاید وہیں کھڑا رہ جاتا، اگر بجلی کی ایک کڑاکیدار گرج نے مُجھے اپنی جگہ سے ہلا نہ دیا ہوتا۔ کتنی عجیب بات تھی کہ، میری ماں زندہ تھی، اور اُس وقت میری سب سے بڑی خواہش بھی یہی تھی کہ وہ زندہ رہے، لیکن میرا عمل اس کے بالکل برعکس ہونے جا رہا تھا۔ میں اپنی زندہ ماں کے دفنانے کا انتظام کرنے جا رہا تھا۔ کیا مُجھ میں یہ کُچھ کرنے کی سکت ہو گی ؟ مُجھے بس یوں لگا کہ جیسے ایک زندہ عورت کو اُسے، اُس کا مُردہ بیٹا، دفنانے چلا ہے۔
میں پنڈی کی شدید سردی اور بارش میں پیدل چلتا ہُوا لال کرتی بازار پہنچا، اور پھر وہاں سے، نجانے کیسے، راجہ بازار جا پہنچا۔ شدید سردی اور بارش میں، اکیلا۔ بالکل اکیلا۔ ذہن میں بس ایک ہی خیال تھا، کہ اگر، ” آج کے دن میں بچ گیا تو پھر بڑے سے بڑا غم مُجھے توڑ نہیں سکے گا “۔
” میت بڑا ہے یا چھوٹا ؟ “، دوکاندار کا سوال، مُجھے چیرتا ہُوا، میرے اندر سے گُزر گیا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ میں چیخ چیخ کے کہوں، کہ اے دُنیا والو سُنو، میری ماں زندہ ہے۔ لیکن یہ چیخیں کہیں میرے اندر ہی گونجتی رہیں۔ میں رویا بھی نہیں۔ شاید اس لئے کہ آسمان میرے لئے پچھلے کئی گھنٹوں سے، دھاڑیں مار مار کے رو رہا تھا۔ اور اگر روتا بھی تو بارش میں میرے آنسوؤں کو کس نے دیکھنا تھا۔ دوکاندار نے شاید خود ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ مُجھے بڑا کفن چاہئے۔ غالباً تسلی دینے کی خاطر کہنے لگا، ” بہت خوش قسمت لوگ ہیں جو ان پاک دنوں میں، دُنیا سے جا رہے ہیں “- میرے ذہن میں بس ایک بات، جیسے پھنس کے رہ گئی تھی، کہ اگر آج کے دن میں بچ گیا تو پھر بڑے سے بڑا غم مُجھے توڑ نہیں سکے گا۔
کفن دفن کی چیزیں گھر رکھ کے جب میں دوبارہ اسپتال پہنچا، تو جیسے میری ماں، میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔ آخری آواز جو اُس کے ہونٹوں سے نکلی، وہ میرا نام تھا، لیکن پورا نام نہ لے سکی۔ ایک خفیف سی، ” شی ” سُنائی دی، جیسے مُجھے کہہ رہی ہو کہ دیکھو شینو ! میرے بعد رونا نہیں۔ بالکل اُسی طرح جیسے بچپن میں، مُجھے میرے رونے پر ” شی ” کر کے چُپ کرایا کرتی تھی۔ بچپن سے میرے دل میں، مُجھ سے،ماں کا ہاتھ چھوٹ جانے کا خوف آج سچ ثابت ہو رہا تھا۔ میرے سامنے، دھیرے دھیرے اُس کی سانسیں بے ترتیب ہوتی جا رہی تھیں ۔ وہ میرا نام، اور مُجھے ادھورا چھوڑ کے، اور مُجھ سےاپنا ہاتھ چھُڑا کے،ہمیشہ کے لئے کہیں وقت کے بازار میں کھو گئی۔
یہ 1974 کی فروری کی 2 تاریخ تھی۔ اگلے دن، میں نےاپنے ہاتھوں سے، اپنی ماں کو، اپنے آبائی قبرستان میں دفنا دیا۔ میں نہ رو سکا، نہ چیخ سکا، نہ کُچھ کہہ سکا۔ اِس واقعہ کے بعد میں کئی سال اِس دھوکے میں رہا، کہ اُس دن میں بچ گیا تھا۔
ماں کے دفن ہو جانے کے کُچھ دن بعد بھائی بھی جرمنی سے آیا، اور ڈیڑھ مہینے بعد، نیاز بھائی بھی قید سے چھوٹ کے آ گئے، لیکن وہ جس نے اُن کی راہ میں گلاب اُگائے تھے، وہ نہ رہی۔ گھر سے جنازے کے نکلنے کی افرا تفری میں لان کے سارے پھول بکھر گئے۔
موت، زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے، لیکن جو چیز اسے ٹریجڈی بناتی ہے، وہ اس کی timing ہے۔ کُچھ نہ کُچھ ہمیشہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
جب چھوٹے بچے گرتے ہیں تو شروع میں تو وہ روتے ہیں، لیکن اگر دیکھیں کہ کوئی توجہ نہیں دے رہا، تو چُپ ہو جاتے ہیں، آہستہ آہستہ، پیروں کے بل کھڑے ہو جاتے ہیں، اور چل دیتے ہیں۔ زندگی بھی یہی کرتی ہے۔ گرتی پڑتی، آخر خود ہی معمول پہ آ جاتی ہے۔
1979 کی ایک صبح میں نے اپنے کمرے میں، ناشتہ کے دوران، پاکستان ٹائمز اخبار میں ایک خبر پڑھی تو، وہ چیخیں، جو ماں کے کفن کا سامان خریدتے ہُوئے کہیں میرے اندر ہی رہ گئی تھیں، دھاڑ سے ساری کی ساری، باہر نکل آئیں۔ میں زندگی میں کبھی اتنا نہیں رویا، جتنا اُس دن میں دھاڑیں مار کے رویا۔ سب گھر والے پریشان تھے، لیکن اُن کے پوچھنے پر بھی میں کُچھ نہ بتا سکا ۔وہ لوگ، میرے رونے کا، اخبار اور اُس میں چھپی ہُوئی خبر سے کوئی ربط جوڑ سکے یا نہیں، کُچھ پتہ نہیں۔۔۔اخبار میں، جلی حروف میں لکھا تھا:
First successful kidney transplant operation performed at CMH, Rawalpindi.

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بار پھر 2 فروری کی شام ہے، سال ہے 1992۔ وہی سی ایم ایچ راولپنڈی کااسپتال ہے۔ میں اور میرا بھائی اسپتال کی پارکنگ میں، گاڑی میں بیٹھے ہُوئے ہیں۔ گاڑی سگریٹوں کے دھویں سے بھری ہوئی ہے۔ میری بیوی لیبر روم میں ہے، اور مُجھے 1974 کے اُس دن، اور آج کے دن کی مماثلتیں بے چین کئے ہُوئے ہیں۔ دھند کی وجہ سے کُچھ نظر نہیں آ رہا۔ دل تسلی دیتا ہے کہ، ” دیکھو ! اسپتال، تاریخ اور مہینہ وہی سہی، لیکن آج تُم اکیلے تو نہیں۔ بھائی جو اُن دنوں جرمنی میں تھا، آج تُمہارے ساتھ ہے۔ بارش بھی تو نہیں ہو رہی۔ بس دھند ہے، وہ بھی تھوڑی دیر میں چھٹ جائے گی “۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسپتال کے اندر جاتا ہوں، لیکن لیبر روم سے کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ پھر آ کے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہوں۔ آخر کئی اذیت ناک گھنٹوں کے بعد پتہ چلتا ہے کہ الله نے مُجھے بیٹی عطا کی ہے۔
کیا عجیب بات ہے کہ جس مہینے کی جس تاریخ، جس اسپتال میں، میں نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا، اُسی مہینے کی اُسی تاریخ، اور اُسی اسپتال میں، مُجھے قدرت کی طرف سے ایک لازوال تحفہ عطا ہُوا۔
میں نے جب اپنی بیٹی کو اپنی باہوں میں اُٹھایا، اور چوما، تو مُجھے کئی سالوں بعد، پہلی دفعہ یقین آیا، کہ 1974 کے اُس یخ بستہ، ٹھٹھرتے دن، میں واقعی بچ گیا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”جس دن میں بچ گیا تھا۔۔۔شاہد مسعود

Leave a Reply