میں خدا کو نہیں مانتا ۔۔۔علی اختر/قسط 4

سڑکوں ، فٹ پاتھوں ، خوبصورت دکانیں اور گھر دیکھتے ہم دس منٹ کی واک کے بعد ایک تین منزلہ عمارت کے دروازے پر موجود تھے ۔ بیل بجانے پر ایک نو عمر لڑکے نے دروازہ کھولا اور گرمجوشی سے کنپٹی سے کنپٹی ملا کر ترک انداز میں خوش آمدید کہا۔ جوتے داخلی دروازے کے ساتھ بنے ریک پر اتار دیے گئے ۔ ریک کا سائز اور اترے ہوئے جوتوں کی تعداد دیکھ کر اندر موجود لوگوں کی کثرت کا اندازہ ہوتا تھا۔ سامنے ہی سیڑھیاں تھیں جن پر کارپٹ بچھا تھا ۔ ہم کشادہ سیڑھیوں پر چڑھتے گئے ۔ روشنی ، ہوا اور صفائی  کا انتظام بہت اعلیٰ تھا ۔ تیسری منزل پر سامنے ایک راہداری تھی جس میں آمنے سامنے کچھ دروازے نظر آرہے تھے ۔ چند ایک لڑکے وہاں بھی موجود تھے ۔ وہی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور ایک کمرے میں جانے کا اشارہ کیا گیا ۔ یہ ایک ہال کمرہ تھا جہاں کنارو ں پر سفید صوفے موجود تھے جو وقت پڑنے پر بیڈ بن جاتے ہیں جبکہ درمیان میں قالین بچھائے گئے تھے ۔

گزشتہ تمام تحریروں کا لنک۔۔۔۔علی اختر

اندر کوئی  چالیس کے قریب لڑکے موجود تھے ۔ جن میں سے کوئی  بھی ترک شہری نہیں تھا ۔ ترکمانستان، آزری ، یوکرینی آزری زیادہ تعداد میں تھے ۔ ایک بنگالی اور پاکستانی لڑکے سے بھی ملاقات ہوئی ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس ہیں اور ترکی کی پبلک یونیورسٹیوں کے طالب علم یہ انکی عارضی رہائشی گاہ ہے جو “ہزمت” تنظیم کے افراد چلاتے ہیں ۔ یہ سب مختلف ممالک سے ترکی پڑھنے آئے ہوئے تھے اور انکا رہنا، کھانا پینا ، علاج ، پڑھائی سب مفت تھا ۔ یہاں موجود طالب علموں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی ۔ شراب ، سگریٹ وغیرہ کی قطعی اجازت نہیں تھی ۔ اس جگہ اور اس جیسی بہت سی اور جگہوں کو چلانے کے لیئے فنڈ ترک عوام کے چندے سے حاصل ہوتا تھا۔

دو نسبتاً بڑی عمر کے افراد بھی موجود تھے جو کہ  ہزمت کے عہدے دار تھے باقی شرکاء کو تھوڑی بہت نصیحت نما باتیں کر کے انہوں نے کھانا کھانے کا اشارہ کیا ۔ قالین پر اخبار بچھائے گئے اور تھال رکھ دیئے گئے ۔ کھانے میں رائس کیک اور گوشت پر مشتمل ایک خاص ڈش “مقلوبہ” تھی جسے دائرے میں بیٹھ کر سلاد اور دہی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

کھانے کے بعد میں نے اس عمارت کا مکمل وزٹ کیا ۔ روشن اسٹڈی روم جن میں نصاب اور اسکے علاوہ بھی بہت سی کتابیں ، اسلامی موضوعات اور ترک تاریخ   پر موجود تھیں ۔ “فتح اللہ گولن” کی کتابوں کا بھی ایک  ذخیرہ موجود تھا ۔ واش رومز بھی لائن سے بنے اور انتہائی  صاف ستھرے تھے ۔ شیمپو اور صابن بھی موجود تھے ۔ آٹومیٹک واشنگ مشینز، کپڑے پریس کرنے کا بھی انتظام تھا ۔ کچن میں کھانے کا سامان بھی وافر مقدار میں موجود تھا ۔ ایک بات اور جو ہمیں ان سے الگ کرتی تھی وہ سب مفت ملنے کے باوجود بھی عزت و احترام اور معیار کے ساتھ اشیاء کی فراہمی تھی ۔

بعد میں پتا چلا کہ  استنبول کے تقریباً ہر محلے میں ایسے گھر موجود ہیں جنکا کرایہ، بجلی گیس کے بل ، رہنے والوں کے کھانے وغیرہ کا خرچہ وہاں کے رہنے والے محلے دار رضاکارانہ طور پر  اٹھاتے ہیں اور رہنے والے ترکی کے دور دراز گاؤں دیہات کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن وسائل نہ ہونے کے سبب پڑھنے سے قاصر ہیں ۔ قومیت یا سفارش وغیرہ نہیں بلکہ تنظیم کے منتظمین یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون ان گھروں میں رہنے کا اہل ہے ۔

یہ سب ڈونیشن وغیرہ دینے والے ترکی کے دین دار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ کام کار ثواب سمجھ کر کر رہے تھے ۔ ان گھروں میں رہنے والے طالب علم عملی زندگی میں پہنچنے کے بعد اچھے عہدوں تک اور بڑے کاروباری لوگوں میں تبدیل ہوتے ہیں اور پھر اپنی کمائی سے ایک حصہ اس کار ثواب کے لیئے مختص کر دیتے ہیں ۔ یہ سب کچھ میرے ذہن کے لیئے نیا تھا ۔ خدا کو خوش کرنے ، ثواب کمانے کے لیئے لوگوں کو  پڑھنے میں سہولت دینا ۔ اچھی تربیت کرنا ۔ مستقبل بنانے میں مدد دینا ۔ ہمارا معاشرہ اب تک اس طرح کی سوچ سے نابلد تھا ۔ ماضی میں اور شاید ابھی بھی ہم نے جو پیسہ کارثواب سمجھ کے دیا اس کے ایک حصے کو انتہا پسندی و فرقہ واریت پھیلانے کے لیئے بھی استعمال کیا گیا ۔ کاش کہ  ہم بھی اس پہلو سے کبھی سوچتے ۔ (جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

مصنف علی بخش کے ہمراہ “آ بی ہاؤس ” کے وزٹ کے موقع پر

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply