نام “کراچی” اور شوق “لندن” والے۔۔۔علی اختر

ہمارے شہر کراچی میں بارش چار ، پانچ سال میں ایک ہی بار ہوتی ہے۔ گو اب تو مضافات میں بھی فصلیں ملیر کی مٹر، ہری مرچ اور بھنگ کی رہ گئی  ہیں اور اس میں بھی پانی ہم سیوریج کا استعمال کر لیتے ہیں پھر بھی بارش تو بارش ہے ۔ ویسے ہمارے شہر میں زندگی اتنی مصروف ہے کہ  لوگوں کو خیال ہی نہیں آتا کہ  بارش   کتنے عرصہ سے نہیں ہوئی ۔ ہاں جب چار پانچ برس کا بچہ رات کو ابا کو بتاتا ہے کہ  ۔” پاپا شاید آپ کو یقین نہ آئے پر آج آسمان سے بہت تیز پانی گرنا شروع ہو گیا تھا ۔” اور پھر آنکھوں میں آنسو بھر کر بولتا ہے ۔ ” اب سے میں ہمیشہ آپکی ہر بات مانوں گا ، سوری ” ۔ تو اس وقت پاپا کو پتا چلتا ہے کہ  آخری بار بارش برخوردار کی پیدائش سے پہلے ہوئی  تھی ۔ تبھی موصوف بارش کو عذاب الٰہی سمجھ رہے ہیں ۔

تو صاحبو بات یہ ہے کہ  گزشتہ اتوار ہمارے شہر میں طوفان آیا ۔ اب طوفان کا نام ذہن میں آتے ہی تیز ہوائیں ، طوفانی بارش، برفانی تودے وغیرہ کا خیال دل میں آتا ہے لیکن ہمارے ہاں طوفان بھی آیا تو ریت کا ۔ راقم اپنی بائیک پر سوار طوفان میں بے فکری سے گھومتا ، منزل پہ منزل مارتا ، فاصلے کو لپیٹتا گھر داخل ہوا تو ہر انگ سے سنگ ٹپک رہا تھا. آئینہ دیکھا تو سفید بالوں والی اجنبی صورت نظر آئی ۔ سوچا کہ  غسل کر لیا جائے تو سیدھا واش روم کا رخ کیا ۔ شاور کھولتے ہی ایک غیر مانوس سی مہک سے فضا معمور ہوگئی ۔ نالی کی جانب دیکھا تو جھاگ سے بھری ہوئی تھی۔ سوچا کہ  نیا صابن بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ پھر خیال گزرا کہ  صابن کے استعمال کی تو ابھی تک نوبت ہی نہیں  آئی ۔ عقل حیراں و دیدہ پریشاں کہ پھر یہ سرف ایکسل جیسی جھاگ چہ معنی ۔ اب پانی میں موجود نامانوس سی بو سے ناک مانوس ہوکر گٹر کی مہک کو آئڈینٹفائی  کر چکی تھی ۔ پر افسوس کہ  دیر ہو چکی تھی ۔ کراچی واٹر بورڈ نے “سالہ چھوٹی گنگا بول کے گندے نالے میں کروادیا ” تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ  لندن میں ہر گھر میں پانی کی دو لائنز ہوتی ہیں ۔ ایک معمول کے استعمال کے لیئے یعنی نہانے، کپڑے برتن وغیرہ دھونے کے لیئے تو دوسری فلش ٹینک وغیرہ میں استعمال کی ۔ لکھنے والے نے لکھا تھا کہ دوسری لائن میں آنے والا پانی دراصل سیوریج ہی کا پانی ہوتا ہے جسے تھوڑا بہت چھان کر واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔ اب سچائی  تو وہی جانیں جو لندن میں رہتے ہیں ۔ ہمارا لندن تو ہمارا کراچی ہی ہے ۔ اب ہمارا واٹر بورڈ والوں نے بھی یہ مضمون پڑھا تو شوق چرایا کہ ہم بھی فرنگیوں کی تقلید میں کچھ پانی بچا لیں تو کیا حرج ہے۔ بس دونوں لائنوں کو یکجا کر کے شوق کی تکمیل اور پانی کی بچت کر ڈالی۔ پانی چھاننا نئی  لائنیں ڈالنا وغیرہ تو لمبے چوڑے کام ہیں اور ہم شارٹ کٹ کے عادی ۔ چلیں راقم چلتا ہے کہ  ٹینک صاف کرنا ہے ۔ یہ لندن کے مقابلے والا شوق تھا تو واٹر بورڈ کا، پر مہنگا راقم کو پڑ گیا ہے۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply