وکی لیکس کے بعد دُنیا میں تہلکہ مچادینے والے پانامہ لیکس نے جہاں دنیا کے حکمرانوں کے لیے مشکلات کھڑی کردی تھیں وہی پاکستان کے وزیراعظم کے خاندان کا نام شامل ہونے کے باعث یہاں بھی ہر طرف پانامہ کا شور تھا۔ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کے حکمرانوں نے اپنے دوست ,رشتہ داروں اور دیگر احباب کے پانامہ لیکس میں نام آنے کے باعث اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دیا تھا مگر یہاں پاکستان کے وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب کے بیٹوں اوربیٹی کا نام براہ راست آنے کے باوجود اس اخلاقی اقدام سے گریز کیا گیا۔ پاکستان کے وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب کی جانب سے اخلاقی اور اصولی سیاست کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور عوام کو حقیقت بتانے کے بجائے عوام کو مزید گمراہی کے دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کا نام آنے کا معاملہ اُسی روز ختم ہوجانا تھا کہ جب وزیراعظم صاحب عوام کو سچ کہہ دیتے کہ انہوں نے یا اُن کے خاندان کی جانب سے جو کچھ کمایا گیا یا کاروبار کیا گیا اس کے پیچھے تمام قانونی راستے اختیار کیے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔مگر ایسا نہیں ہوا۔
معاملہ عدالت میں گیا سپریم کورٹ میں 126 روز میں 36 دن کیس کی سماعت ہوئی۔ پانامہ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کی جس میں سینئر ججز شامل ہیں۔ جسٹس آصف خان کھوسہ , جسٹس اعجاز افضل خان , جسٹس گلزار احمد , جسٹس شیخ عظمت سعید ,جسٹس اعجاز الاحسن نے دونوں فریقین کے دلائل سنے اور 36 روز ہونے والی سماعتوں کے پیش نظر 23 فروری 2017 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 20 اپریل 2017 کو 540 سے زائد صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ کر سنایاگیا ۔ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد کے منظر نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور کردیا تھا حالا نکہ ابھی وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب اُن کے بیٹوں اور بیٹی کو بنچ کی جانب سے حتمی طور پر نہ ہی بری قرار دیاگیا ہے اور نہ ہی مجرم قرار دیاگیا ہے۔ اس کے باوجود دونوں فریقین کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں ۔ شایدجس کی سب سے اہم وجہ فیصلے کا انگریزی میں آنا ہو۔حالانکہ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس پر بننے والے بنچ کی جانب سے ابھی حتمی فیصلہ آیا نہیں کہ دونوں فریقین اسے اپنی اخلاقی فتح قرار دے رہے ہیں۔خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اگر بنچ کی جانب سے یہ فیصلہ اردو میں جاری کیا جاتا تو سب معاملہ صاف ہوجانا تھا۔ بنچ کی جانب سے انگریزی میں فیصلہ جاری ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ دوسال قبل 2015 میں جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اُردو زبان کے نفاذ کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ملک بھر میں اردو زبان کو سرکاری اور غیرسرکاری دفاتر میں آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون کے تحت نافذ کیا جائے مگر نہ ہوسکا، پھر جب جناب جواد ایس خواجہ صاحب ستمبر 2015 میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تو ان کی جانب سے پھر حکم دیا گیا کہ اردو کو ہر سرکاری غیرسرکاری اداروں میں نافذ کیا جائے اورتمام احکامات اردو میں جاری کیے جائیں۔ آج جو پانامہ کیس پر ہر طرف سے اپنے فہم و فراست کے مطابق مطلب نکالا جارہا ہے اگر یہ ہدایت نامہ یا فیصلہ بنچ کی جانب سے اردو میں جاری کیا جاتا تو شاید وزیراعظم اور دیگرحکومتی ارکان کو بھی سمجھ آجاتا کیونکہ سپریم کورٹ کے بنچ کے 3 ججز کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں نے اُن کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن کے جواب میں کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیے اور وزیراعظم صاحب اور ان کے خلاف مزید تحقیقات کی ضرورت ہے جس کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا گیا ہے جو 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے گی اور اس کے بعد مکمل یا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔بنچ کے 2 ججز جسٹس گلزار اورجسٹس کھوسہ کی جانب سے اختلافی نوٹ جاری کیے گئے۔ جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اس صورتحال میں عدالت عظمیٰ محض تماشائی کا کردار ادا نہیں کر سکتی بلکہ اسے تکنیکی نکتوں سے بالاتر ہو کر انصاف کی فراہمی کے لیے ایک مثبت فیصلہ دینا ہوگا۔
عوامی عہدیدار کی حیثیت سے یہ میاں محمد نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے بارے میں صحیح حقائق سے قوم اور اس عدالت کو آگاہ کرتے لیکن وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے اس لیے وہ آئین کی شق 62 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے ۔اس لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں اور اسی بنا پر وہ رکن قومی اسمبلی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو چکے ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت سے کام جاری نہیں رکھ سکتے ۔ دوسرے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے نواز شریف اپنی ملکیتوں اور لندن کی جائیدادوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس قوم، پارلیمنٹ اور عدالت کے سامنے دیانت دار نہیں رہے ۔وزیراعظم نواز شریف صاحب بد دیانتی کی وجہ سے آئین کی شق 62 اور عوامی نمائندگان کے قانون 1976 کے تحت مقننہ( پارلیمنٹ) کے رکن رہنے کے اہل نہیں رہے ۔ جسٹس کھوسہ نے اپنے نوٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے نااہل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے جس کے نتیجے میں وہ وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار پائیں۔ صدر ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قوانین کے تحت کارروائی کرے ۔اگر ہم پانامہ کیس کے فیصلے کو اردو میں پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بنچ نے فیصلہ ُسنا دیا ہے مگر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم جے آئی ٹی سے تحقیقات کی ہدایت کی وجہ سے عام شہریوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ماضی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن اور دیگر جے آئی ٹیز کی طرح وزیراعظم صاحب اپنے عہدے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس بار بھی بنچ کے فیصلوں اور ہدایات کو مذاق میں نہ اُڑادیں۔اِس وقت اصولی اور اخلاقی سیاست کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم صاحب استعفیٰ دے کے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کریں مگر ججز کے اتنے سخت ریمارکس کے باوجود وزیراعظم صاحب اور ان کے وزراء کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم ہونا افسوسناک عمل ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں