• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عراق کی ننھی مونا لیزا، جس نے کروڑوں لوگوں کو رلایا۔۔منصور ندیم

عراق کی ننھی مونا لیزا، جس نے کروڑوں لوگوں کو رلایا۔۔منصور ندیم

بکھرے بال، ننگے پا ؤں، روتے اور بھاگتے ہوئے بچی کو دیکھ کر مجھے بہت صدمہ پہنچا تھا، اس بچی کے کپڑے مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ وہ تیزی کے ساتھ روڈ پر بھاگ رہی تھی، اس وقت اس علاقے میں شدید بمباری ہورہی تھی، میں نے اس لمحے اسے روکا اور اس کی تصویر بنائی۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے  اور کیمرے کو دیکھ کراس  کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی، اس وقت اس بچی کے چہرے پر دکھ اور خوشی کے جذبات ایک ساتھ عجیب سی کیفیات لئے ہوئے تھے، اس تصویر میں خوشی، اداسی، امید اور مایوسی کے امتزاج نے دنیا بھر  میں لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ الفاظ علی الفہداوی کے ہیں۔

یہ تصویر فوٹو جرنلسٹ علی الفہداوی نے آج سے قریب تین سال پہلے بنائی تھی، علی الفہداوی اس وقت ایک خبر رساں ادارے ‘رائیٹز’ کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ واقعہ آج سے تقریبا ً تین سال قبل عراق میں سامنے آنے والی ایک ستم رسیدہ بچی کی تصویر لینا تھا، جس نے اس وقت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، عرب ذرائع ابلاغ، مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی اس بچی کی تصویر پوری دنیا کے میڈیا پر مختلف کیپشن کے ساتھ چلتی رہی، کبھی اسے مبینہ طور پر ایک شامی لڑکی  دکھایا گیا ہے جو جنگ میں زندہ بچی ہے، کبھی اس تصویر کے بارے میں دعویٰ  کیا گیا ہے کہ وہ لڑکی فلسطینی ہے۔

کبھی یہ تصویر اس ورژن کے ساتھ لگائی گئی کہ ایسی عجیب حالت میں جب فوٹو گرافر نے بچی کو تصویر بنانے کی درخواست پر ان آنسوؤں کے دہانے پر مسکراہٹ کے ساتھ تصویر بنائی ۔ تاہم علی الفہداوی کے مطابق جب انہوں نے نے سنہء 2017 میں اس کی تصویر کھینچی تھی، انہوں نے اسے کیمرے کے لئے مسکرانے کے لئے نہیں کہا تھا۔ علی الفہداوی نے تصویر کو عالمی سطح پر مقبول ہوجانے کے بعد اس بچی کو دوبارہ تلاش کیا تاکہ اس کے حالات کا پتا چلایا جاسکے، اس بچی کو بہت تلاش کیا گیا، علی الفہداوی نے اپنے صحافی دوستوں سے بھی اس کی تلاش میں مدد لی، مگر انہیں اس میں کامیابی نہیں ملی۔ یہاں تک کہ انہیں اس بچی کی تلاش میں مدد کرنے والے کے لیے انعام مقرر کرنا پڑا۔

آخرکار تین ماہ کی تلاش بسیار کے بعد علی الفہداوی کو فیس بک پر ایک پیج ملا، اس صفحے پر اس بچی کی تصویر بھی موجود تھی، رابطہ کرنے پر پتا چلا کہ وہ بیچ جس کا ہے وہ اس بچی کا چچا ہے۔ علی الفہداوی کے لئے یہ ایک بہت خوشی کا لمحہ تھا، انہیں فیس بک کے ذریعے پتا چلا کہ یہ عراقی ہے اور اس بچی کا خاندان موصل میں بادوش کے مقام پر ہے۔ اس بچی کو ‘عراق کی مونا’ لیزا کا لقب دیا گیا ۔ عالمی شہرت حاصل کرنے والی  عراق کی ننھی مونا لیزا کا اصل نام’سبا’ ہے۔

حال ہی میں ٹی وی چینل الحدث کے ساتھ بات چیت کی اور بتایا کہ وہ ان دنوں عراق کے شہر موصل میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ میں اس وقت جنگ اور مسلسل بمباری سے خوف زدہ تھی اور اسی خوف کے مارے رو رہی تھی، ہم اس وقت دہشت گرد گروہ   کے ظلم سے فرار ہورہے تھے۔ سبا کی  وائرل تصویر 16 مارچ سنہء 2017 کو اس وقت لی گئی تھی جب موصل میں گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ سبا نے انٹرویو  میں بتایا کہ جب ان کے علاقے میں شدید بمباری شروع ہوئی تو وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وہاں سے فرار ہو رہی تھی کہ اس کا سامنا صحافی الفہداوی کے ساتھ ہوگیا، میں اس وقت رو رہی تھی۔ فہداوی نے مجھے مسکراتے ہوئے کہ میرے کیمرے کی طرف دیکھو۔ یہ تصویر اس لمحے کی تھی، سبا کی روتے ہوئے مسکراہٹ کی تصویر نے دنیا بھر میں درد دل رکھنے والے ہر فرد کو رلا دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تین سال پرانی تصویر کے ساتھ اب اس کی ایک تازہ تصویر ہے۔ یہ دونوں تصاویر فوٹو جرنلسٹ علی الفہداوی نے بنائی ہیں، پہلی تصویر موصل پر داعش کے قبضے کے وقت کی ہے، یاد رہے کہ سنہء 2014 سے سنہء 2017 تک ‘داعش’ نے شمالی عراق کے علاقوں نینویٰ اور موصل پر قبضہ کر لیا تھا۔ علی الفہداوی کی لی گئی تصویر “مونا لیزا آف موصل” نے بین الاقوامی برادری کو ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد اس کی تصویر تین سال کی مسلسل تحقیق کے بعد دنیا بھر میں مشہور ہوئی۔ موصل سے فرار ہونے والی عراقی لڑکی “سبا” جو آج عام شہریوں اور بے گناہ لوگوں کی نمائندگی کرنے والی جنگ میں پوری دنیا میں ایک آئکن بن گئی ہے جنہوں نے عراق میں جنگ کی بھاری قیمت ادا کی اور کررہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply