ہم بیٹیاں بیچنے والی قوم ہیں۔۔۔۔علی اختر

بحیثیت قوم ہم پاکستانی کچھوے سے مشابہہ ہیں ۔ اپنی زندگی ایک خول میں گزار دیتے ہیں ۔ ہماری دنیا ، ہماری سوچ کا محور ایک خول ہے ۔ یہ خول ہماری  بابت ہماری سوچ کا ہے ۔ یہ سوچ کبھی ہمیں دنیا کی سب سے پاکباز و دین دار قوم بتاتی ہے ۔ کبھی سب سے بہادر ۔ کبھی عسکری مہارت میں سب سے اول ۔ کبھی محمد بن قاسم و محمود غزنوی کا جاں نشین ۔ کبھی ہمارے طالب علم او لیول میں دنیا میں ٹاپ کرتے ہیں ۔ کبھی کم عمر ترین مائکروسافٹ پروفیشنل ہمارے ملک کا ہوتا ہے ۔ اب ہم سب سے انٹیلیجنٹ قوم بھی ہیں۔ کبھی ہمارا نو جوان جہاز بنا لیتا ہے ۔ کبھی ہم سڑک پر لینڈنگ کرتے ہیں ۔ کبھی الخالد ٹینک بناتے ہیں ۔ کبھی کرکٹ میں جھنڈے گاڑتے ہیں ۔ پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرتے ہیں ۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسی نمبر ون ۔ ہمارا ٹیکسی ڈرائیور ہزاروں ڈالر واپس لوٹانے والا ۔ روس کو شکست ہم نے دی۔ مڈل  ایسٹ ہمارے مزدور نے بنایا ۔ کوریا کو پانچ سالہ منصوبہ ہم نے دیا ۔ چاول ہمارا ایک نمبر ۔ کپاس ہماری اعلی۔ چار موسم ہمارے ملک میں ، اونچے پہاڑ ، ریگستان، جھیلیں ہماری ۔ مساجد ہماری فل۔ احترام رمضان ہمارا شیوہ ۔ کانوں میں رس گھولتی قرات کرتے ہمارے حافظ ۔ کراچی اجماع میں ہم ۔ رائونڈ کااجتماع ہمارا ۔ سب سے نیک ۔ سب سے تیز ۔ سب سے عقل مند ۔ ارے وہ تو قیادت اچھی نہیں ملی ہمیں ۔ سیاست دان کرپٹ ہیں سب ۔ آمریت ہمیں کھا گئی۔ بیوروکریسی خراب ہے ۔ فوج نے آگے نہیں بڑھنے دیا ۔ اپنی پسند کے حکمران بنادیے ورنہ ہم تو دنیا پر حکمرانی کرنے والی قوم تھے ۔

چلیے اب مسکرائیے ۔ آپ پاکستان میں ہیں ۔ابھی کل ہی کا واقعہ ہے جب کندھ کوٹ میں ایک نانی نے ڈھائی  لاکھ میں اپنی دس سالہ بیٹی چالیس سالہ شخص سے بیاہ دی ۔ چلیں تھوڑا پیچھے چلتے ہیں جب ایک بچی کی وڈیو وائرل ہوئی  جسے جرگہ نے تاوان کے طور پر دشمنوں کے گھر بیاہنے کا فیصلہ دیا تھا ۔ چلیں کوہستان چلتے ہیں جہاں عورتوں کے ناچ کی وڈیو وائرل ہونے پر انہیں خاموشی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ شہر ہوں کہ  دیہات ۔۔ سبھی یکساں ہیں ۔ کہیں ان پر تیزاب گردی کی جاتی ہے تو کہیں ہسپتال میں زیادتی کے بعد زیر کا انجکشن لگا دیا جاتا ہے ۔ کہیں پسند کی شادی کرنا جرم بنتا ہے ۔ چلیں سب کو چھوڑیں مال مویشی کی طرح انکو بیچ بھی دیا جاتا ہے ۔

مجھے گاؤں کاوہ محنت کش اچھی طرح یاد ہے جس نے مجھے فخر سے بتایا کے اس نے اپنے بیٹے کو شہر میں بھائی  کے گھر بھیج دیا ہے تاکہ وہ سیکنڈری اسکول میں پڑھ سکے ۔ تین بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا اکلوتا لڑکا ہے اور گاؤں کا اسکول صرف پرائمری تک ۔ میں نے بیٹیوں کی  بابت دریافت کیا کہ  انہیں کہاں تک پڑھایا ہے تو بولا وہ صرف قرآن شریف پڑھی ہیں ۔ جس پر میں نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر کچھ لیکچر دینا چاہا تو اس نے ٹوک دیا ۔ بولا ” صاحب آپ انکی شادیاں شہر میں کرانے کی ذمہ داری لے لیں تو میں انہیں اسکول میں داخل کرا دیتا ہوں کیونکہ میرے گاؤں میں تو کوئی  پڑھی لکھی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا “.

Advertisements
julia rana solicitors london

تو جناب یہ ہے فرق اس خیالی خول میں اور حقیقت میں ۔ شاید اب وقت آچکا ہے کہ ہم کم سے کم خود کو اتنا تو بالغ کرلیں کہ  عورت نامی مخلوق کو انسان سمجھنے شروع ہو جائیں ۔ کم سے کم بیٹیوں کو بیچنا تو بند کر دیں ۔ کیا اس ملک میں ایسا ادارہ نہیں ہونا چاہیے جو کندھ کوٹ میں بیچی جانے والی یتیم بچی اور اس جیسی بہت سی بچیوں کی کفالت ، پرورش اور تربیت کرے ۔ انہیں معاشرے کا عزت دار و کار آمد شہری بنا سکے ۔ سوچیے کہ  ہم خود کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ دیکھیے کہ اصل میں ہم کیا ہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply