سکندر اور ایک ارب درختوں کا معلق باغ۔۔۔علی اختر

عظیم فاتح اور سپہ سالار سکندر اعظم 330 قبل مسیح میں پیدا ہوا ۔ 350 قبل مسیح میں محض بیس سال کی عمر میں باپ کی موت کے بعد مقدونیہ کا حکمران بنا۔ چاہتا تو ساری زندگی وہیں عیش و عشرت میں گزارتا لیکن دور کی منزلوں کا مسافر تھا تو دو سال بعد ہی فوج لے کر مقدونیہ سے فارس کی جانب پیش قدمی کی ۔ پروگرام دنیا فتح کرنے کا تھا ۔ مد مقابل ایران کا بادشاہ دارا تھا ۔ بہت بڑی سلطنت تھی لیکن سکندر کی مانند جذبہ نہیں تھا سو بہت سی جنگوں میں سکندر سے پے در پے شکستیں کھاتا رہا ۔ سکندر نے مصر ، شام بھی فتح کرلیا۔ اسکندریہ شہر کی بنیاد ڈالی ۔ بابل فتح کیا ۔ فوج نے کہا بس ۔ سکندر نے کہا نہیں ہندوستان کا پلان ہے ۔ کچھ دن آرام کیا ۔

اور پھر ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ  سکندر نے ہندوستان کا رخ کر لیا ۔ یہاں چناب کے کنارے پورس نامی ایک بادشاہ سے مقابلہ ہوا ۔ بڑا زور دار رن پڑا ۔ کہتے ہیں کہ  پورس کے پاس بکتر بند ہاتھیوں کی فوج تھی جنہیں وہ ٹینک کی طرح دشمن کی فوج روندنے کے لیئے استعمال کرتا تھا ۔ ویسے تو سب کچھ نارمل تھا لیکن عین لڑائی کے وقت پورس کے ہاتھی سامنے چلنے کے بجائے ریورس گیئر میں چلنا شروع ہو گئے اور اپنی ہی فوج کو روندتے ہوئے چلے گئے ۔ محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنے پچھلے کالم میں ہاتھیوں کی جانب سے کی گئی  اس غداری کا انکار کیا ہے اور اسے جھوٹ کا پلندہ کہا ہے لیکن مجھے یہ روایت صحیح لگتی ہے ۔ سکندر اور پورس والی جنگ کے بعد بھی ٹیپو سلطان سے جلیاں والا باغ تک اور اٹھارہ سو ستاون سے آج تک کئی  جگہ ہمارے فیل بانوں نے ہاتھی ریورس گیئر میں ڈال کر اپنے ہی لوگوں کو کچلا ہے ۔ حد تو یہ کہ  سیلاب میں ہمارے سیم نالے بھی الٹا بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مختصر یہ کہ  پورس کو شکست ہو گئی  اور اسے سکندر کے سامنے گرفتار کر کے پیش کیا گیا ۔ سکندر نے پوچھا “بول تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے” ۔ پورس بولا “جوایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے” ۔ سکندر نے خوش ہو کر اسکا ملک اسکے حوالے کر دیا ۔ واپسی کا سفر کیا بابل میں بیمار پڑ کے مر گیا ۔ اسکندریہ میں دفن ہوا ۔

بس یہیں تک تاریخی کتب میں لکھا ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ  ہم تاریخ بھی دوسروں کی لکھی ہوئی پڑھتے  ہیں ۔ خود سوچیں کہ  اتنا بڑا فاتح یہاں آیا پورس سے دوستی ہوئی  اور بس واپسی ۔ جی نہیں صاحبو ۔ یہ سب اتنی آرام سے نہیں ہوا بلکہ میں یہاں سکندر کے ایک عظیم پراجیکٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا  جو تاریخی کتب میں تو جگہ نہ پا سکا لیکن اس خطے کے لوگوں کے دلوں میں سینہ بہ سینہ موجود ہے ۔

ہوا کچھ یوں کہ  ہندوستان میں پورس کا مہمان بنے سکندر کو کافی وقت ہو گیا تھا اور پورس اور اسکے درباری سکندر کی واپسی کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے ۔ ایسے میں ایک دن پورس نے پوچھ ہی لیا کہ “جہاں پناہ واپسی کا کیا سوچا ؟ “۔ سکندر بولا   ۔۔چلا تو جاؤں ،پر لوگ کیا کہیں گے کہ  اتنا بڑا شہنشاہ آیا اور کوئی  یادگار چھوڑے بنا ہی چلا گیا ۔ ” پھر کچھ دیر رک کر بولا ” پورس میرے دوست ! میں چاہتا ہوں کہ  تم میری یاد میں یہاں بابل کے معلق باغات کی طرز پر باغ بناؤ اور سنو باغ میں پورے ایک ارب درخت ہونے چاہیئں۔ فنڈز کی فکر مت کرنا ۔۔۔۔” جی بہتر “۔ پورس نے مستعدی سے جواب دیا ۔ اس کے بعد سکندر تو تخلیا کہہ  کر چلا گیا لیکن پورس کو مشکل میں چھوڑ گیا ۔

پورس نے مشیروں ، وزیروں کی میٹنگ بلائی اور سب سر جوڑ کر اس نئی  افتاد کا حل ڈھونڈنے لگے ۔ پریشان تھے کہ  کیا کیا جائے ۔ ایسے میں خیر پور کے ایک وزیر نے کہا   ۔ “گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ لکشمی خود چل کے آئی  ہے ۔۔آنے دو ۔ ابھی تک سکندر نے ایران ، یونان دیکھا ہے” ۔ پھر آنکھ مار کے بولا ” اب ہندوستان دیکھے گا ” ۔

بس پھر کیا تھا ۔ اگلے ہی ہفتے پورس ، سکندر کو لیے  چھانگا مانگا کے جنگل کے سامنے تھا ۔ “عالی جاہ ! باغ تیار ہے بس ابھی معلق بھی ہو جائے گا “۔ ابھی سکندر درختوں کی تعداد کے بارے میں کچھ کہتا کہ  جنگل سے کچھ لوگ ایک کٹا درخت لے  کے نکلے “جہاں پناہ ! گنتی مکمل ہو گئی  ہے ۔ یہ ایک زیادہ تھا ۔ کاٹ دیا ” ۔ “چلیے سرکار باہر بہت گرمی ہے ” یہ کہہ  کر پورس حیران سکندر کا ہاتھ پکڑے خیمے میں لے گیا ۔ خیر پوری وزیر خیمے میں پہلے ہی مٹی کی کونڈی میں کچھ پتے پیس رہا تھا ۔

“یہ کیا ہے ” سکندر نے تجسس سے پوچھا ۔ “سرکار ! شو جی  کا پرساد ہے ۔ گرمی نہیں لگتی اس سے ” ۔ غیر مطبوعہ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ  سکندر اسکے بعد پورا دن سبحان اللہ، ماشاللہ، پورس کی جے ہو کے کلمات دہراتا ایک ارب درختوں والے چھانگا مانگا کے معلق جنگل میں گھومتا رہا ۔ پھر شام کو واپسی کی گاڑی پکڑ لی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : تاریخی شخصیات و واقعات سے موجودہ دور کی شخصیات و واقعات کا موازنہ انتہائی  قبیح فعل ہے ۔ خدا سب کو محفوظ فرمائے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply