سوشل میڈیا ڈے

سوشل میڈیا ڈے(30جون)

تیونس میں آنے والا چنبیلی انقلاب تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔۔جب صحافتی آزادیوں اور حقوق سے محروم قوم ایک ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں انقلاب برپا کردیا۔اس انقلاب کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں غربت،بیروزگاری، لاقانونیت شامل تھیں لیکن سوشل میڈیا نے اس انقلاب میں بے حد خاص کردار ادا کیا۔یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس نے لاکھوں لوگو کی آواز،ان کے جذبات کی ترجمانی کی،جو کہ عوامی میڈیا کرنے سے قاصر رہا تھا،موبائل فون اور انٹر نیٹ میڈیاکی نئی شکلیں ہیں،جو کہ اب سیاست میں بھی اپنا اہم کردار نبھا رہا ہے۔ اور یہ صورتحال مختلف ممالک کے ڈکٹیٹرز کے ہوش اڑانے کے لیئے کافی ہے۔یہ سوشل میڈیا ہی ہے جس نے محکوم لوگوں کو اپنے اند ر کی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا ہے۔ ابلاغ ِ عامہ کے ماہرین اس حقیقت کو اٹل مان چکے ہیں کہ سوشل میڈیا عالمی سیاست کے میدان میں اپنا کردار احسن طور پر نبھا رہا ہے،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے کمتر درجہ رکھتے ہیں ۔یہاں صحافیوں کو کچھ دے دلا کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے،جبکہ سوشل میڈیا اور موبائل پر ایسا ممکن نہیں۔

ذرائع ابلاغ کے ذریعے آنے والے انقلاب کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی سالو ں میں ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں جب عوام نے اپنی طاقت کا اظہار سوشل میڈیا کے ذریعے کرتے ہوئے تبدیلی لانے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو عروج پر پہنچایا،فیس بک پر ایک شخص میسج کرتا کہ فلاں وقت کرفیو توڑا جائے گا اور اسی وقت یہ پیغام جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل جاتا، او رآن کی آن میں ہزاروں لوگ سڑک پر پہنچ جاتے۔ظاہر ہے کہ فوج کے لیئے ہزاروں کے مجمعے پر گولی چلانا مشکل ہوجاتا،اور کوئی فوجی ایسا کر بیٹھتا تو نتیجتاً بھارت کو عالمی میڈیا پر خوب لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی مرنے اور زخمی ہونیوالوں کی تصویریں اور ویڈیوز ساری دنیا میں پھیل جاتیں۔ آج کشمیر میں اسی لیئے سوشل میڈیا کو پابندی کا سامنا ہے کہ سچ پر پردہ ڈالنا مقصود ٹھہرا۔۔۔

سوشل میڈیاکی اہمیت نے بہت سی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔نائجیریا کے صدر گڈ لک جوناتھن سوشل میڈیا کے اس قدر گرویدہ ہیں کہ انہوں نے صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کا اعلان کسی او ر میڈیا نہیں بلکہ فیس بک پر سٹیٹس لکھ کر کیا تھا۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس نیٹ ورک کے بانی مار ک ز کر برگ کم عمر ترین ارب پتی کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں جو کہ فیس بک کی ہی مرہون منت ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ہوں سرکاری و غیر سرکاری ادار ے سب ہی سوشل میڈیا کے استعمال میں پیش پیش ہیں۔کوئی بھی مسئلہ ہو سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلا کر لاکھوں لوگوں کو باآسانی اپنا ہمرکاب بنا لیا جاتا ہے،

لیکن اس کیساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی پہلو تہی نہیں برتی جاسکتی کہ اسی سوشل میڈیا نے اخلاقی اقدار کا جنازہ بڑ ی دھوم دھام سے نکالا ہے ،لوگ ایک دوسرے کی حمایت میں زمین آسمان ایک کرتے ہیں تو دوسری طرف مخالفت میں بھی ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں،جو کہ کسی طور بھی درست رویہ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا میں چاہے کوئی بھی پلیٹ فارم ہو اس کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے ،ان وسائل کو بدامنی اور انتشار پھیلانے کی بجائے اچھائی اور اچھی روایات کی ترویج کا ذریعہ بھی بنایا جا سکتا ہے،چونکہ یہ نیٹ ورکس تعلیم یافتہ ، غیر تعلیم یافتہ،اور ہر طبقے کی پہنچ میں ہیں اس لیئے اخلاقیات کا سبق کہیں پیچھے رہ گیا ہے، اگر ان سائٹس کو اسی طرح شر پسند افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو شدید معاشرتی بگاڑ کا خدشہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سلسلے میں حکومت کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا، یہ ضروری نہیں کہ ہربار کسی بڑے انتشار اور مصیبت کا انتظار کیا جائے اور پھر کچھ اقدامات کیئے جائیں بلکہ ہمیں پہلے ہی کچھ ایسی پالیسیز وضع کرنا ہوں گی جو کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو اس کے درست استعمال سے آگاہی دے سکیں، ہم سب کو سوچنا ہوگاکہ کس طرح ملک دشمن عناصر جو کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ان سے نمٹا جائے، مثبت تبدیلی ترقی کے راستے کھولتی ہے،اور سوشل میڈیا اس سلسلے میں بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply