نئی حکومت کا مستقبل(1)-ٹیپو بغلانی

یہ جدید دور ہے، یہ نیا زمانہ ہے،نیا زمانہ پیسے پر کھڑا ہے، دولت ہی اصلی طاقت اور عزت ہے۔ریاست اس وقت کنگال اور بے روزگار ہے،بے روزگار تو شروع سے تھی لیکن پہلے کنگال نہیں تھی،بے روزگاری اور کنگالی کو اب علیحدہ علیحدہ کھول کر دیکھتے ہیں۔
بے روزگاری
ریاست کے پاس کوئی ایسا کام نہیں جو وہ کرے اور پیسہ کمائے،لگ بھگ سبھی محکمے جن سے کچھ نہ کچھ کمایا جا سکتا تھا اور منافع سے قسمت بدلی جا سکتی تھی وہ ادارے پرانی ٹیکنالوجی (جس کا اب زمانہ گزر گیا) اور کرپشن کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں،ریاست کے پاس کوئی ایسی پیداوار نہیں جو اس کی اپنی ضرورت پوری کرے، پہلے اور بعد میں وہ پیداوار دوسرے ملکوں کو بیچ کر پیسہ کمایا جا سکے۔
سبزیاں، پھل اور اناج ملک پیدا تو کرتا ہے لیکن یہ 25 کروڑ آبادی کو بھی پورے نہیں ہو رہے تو دوسری قوموں کو بیچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اُلٹا دوسری قوموں سے ہر سال گندم، دالیں اور چینی خریدنا پڑتی ہے۔پہلے کپڑا، کپڑا بنانے والا دھاگہ اور بجلی والے پنکھے ملک سے باہر دوسری قوموں کو بیچ کر پیسہ کمایا جاتا تھا،لیکن جب سے مزدوروں کی مزدوری بڑھی ہے، جب سے لوڈشیڈنگ اور بجلی کے یونٹ اور تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں،بہت سی فیکٹریاں منافع سے گھاٹے میں چلی گئیں۔اب وہ آرڈر پورے نہیں کر پا تیں اور جلدی میں کوالٹی بھی صحیح نہیں بنا پاتیں۔
اب ان کے پاس زیادہ مزدور بھی نہیں، اس لیے مال کا معیار بہت گر گیا ہے جس سے منافع اور گاہگ دونوں کم ہوئے اور اس طرح سے تھوڑی بہت دکانداری بھی ٹھپ ہو گئی۔

یہاں تک ہم نے دیکھا کہ ہم چیزیں خود پیدا کر کے پوری نہیں کر پا رہے،جب پوری نہیں کر پا رہے تو باہر بھی نہیں بھیج سکتے۔جب پوری نہیں کر پا رہے جبکہ ضرورت باقی ہے تو مجبوراً باہر سے خریداری کرنا پڑ رہی ہے
“یہ تو پیسے لینے کے دینے پڑ گئے ”
یعنی ہم بے روزگار سے کنگال ہوتے چلے گئے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جب ہم تھے ہی نکمّے اور سُست تو پھر اب تک ملک ہم نے کیسے چلایا؟
اس کا آسان سا  جواب ہے۔
وہ یہ کہ ہم نے ملک چلایا دو چیزوں سے
پہلا آئی ایم ایف کا قرض ،جو ہمیں امریکہ کی سفارش پر ملتا تھا کیونکہ ہم امریکہ کے کام کرتے تھے اور بدلے میں اس سے سفارش کرواتے تھے۔

دوسرا ذریعہ تھا ملک چلانے کا، امریکی امداد۔۔
امریکی امداد ڈالر کی شکل میں ملتی تھی اور یہ انعام ہوتا تھا افغانستان سے جنگ لڑنے کا۔

پھر کیا ہوا؟
عمران خان کی حکومت آ گئی اور مہنگائی آ گئی۔
بالکل ایسا ہی ہوا
مہنگائی آ گئی لیکن وہ عمران خان کے آنے سے نہیں آئی  بلکہ  اس لیے آئی کہ ا   فغانستان میں جنگ نہ کرنے کی وجہ سے،امریکہ نے پاکستان کو جنگ کا کرایہ دینا بھی بند کر دیا۔ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے بھی کہا کہ ان کو اب قرضہ مت دو۔
جی یہ تھی اصل وجہ کیونکہ ملک جنگ سے ملنے والے فوجی کرائے اور قرضے پر چل رہا تھا۔
نہ کوئی ترقی تھی نہ کوئی مثال۔۔

سوال یہ ہے کہ اب نئی حکومت کیا ملک کو امیر بنا لے گی؟
کیا نئی حکومت مہنگائی کم کر دے گی؟
کیا عوام سکھ کا سانس لے گی؟
کیا امریکہ جس نے پچھلی حکومت گرائی اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت لایا اور اب ن لیگ کی حکومت  لا رہا ہے
کیا وہ ن لیگ حکومت کی مدد کرے گا ڈالر دے کر؟
کیا وہ پھر سے ایران یا افغانستان سے جنگ کے لیے اڈے لے گا اور امداد دے گا؟
کیا وہ ہماری فوج پھر سے کرائے پر لے گا اور خوش ہو  کر ہمیں وظیفہ دے گا؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں تو پھر کیسے ہاں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply