ٹیکس جنریشن کے کچھ مستقل اور نئے ذرائع/نسرین غوری

آئی ایم ایف اور ریونیو ڈپارٹمنٹ متوجہ ہوں

ایک بار پھر الیکشن قریب آرہا ہے اور پھر سے ہر طرف بینرز، ہورڈنگز سیاسی نعروں سے مزیّن  اور ہر پارٹی کے پرچم اور سیاستدان کھمبوں پر ٹنگے نظر آئیں گے ۔الیکشن گزر جائیں گے لیکن یہ اشتہار، پرچم اور سیاستدان ایسے ہی کھممبوں پر ٹنگے رہیں گے ، ان کے چہرے دھویں سے سیاہ پڑتے جائیں گے، کچھ ہَوا ، دُھول مٹی اور اگر بارش ہوگئی تو بھیگ کر اور بھی قابلِ رحم بلکہ بدنما ہوجائیں گے اور ساتھ ساتھ شہر کو بھی بدنما بنائیں گے ۔ پچھلے لوکل باڈیز کے الیکشنز کے لگے ہوئے بینرز ابھی تک لٹکے ہوئے ہیں، گندے ، میلے، پھٹے ہوئے اِدھر اُدھر جھول رہے ہوتے ہیں لیکن ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے ۔ بڑے ہورڈنگز تو کمرشل کمپنیوں کی ملکیت ہیں ،وہ ان پہ اشتہار لگانے کے پیسے بھی لیتی ہیں اور مقررہ مدت کے بعد اشتہار اتار بھی دیتی ہیں کیونکہ انہیں کسی اور کا اشتہار لگا کر اس سے پیسے وصول کرنے ہوتے ہیں ،لیکن دیواروں، چوک، چورنگیوں، کھمبوں پر لٹکے یہ لیرے شہر کی بدصورتی میں چار کیا چالیس چاند لگائے ہوتے ہیں۔

لیکن کیا کبھی حکومت، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ یا آئی ایم ایف نے سوچا ہے کہ یہی بینرز، ہورڈنگز اور پرچم ،پاکستان کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔؟ بلکہ الیکشن مہم اور سیاسی اور ہر قسم کے جلسے جلوس بھی ۔ اس سے دو فائدے ہونگے لیکن یہ فائدے ہم بعد میں بتاتے ہیں، پہلے ہم سیاسی اور سماجی پبلک ایکٹیوٹیز سے ٹیکس جنریٹ کرنے کی ترکیبیں بتادیں۔

1۔ ہر قسم کی اشتہاری مہم خواہ وہ کسی پراڈکٹ کا اشتہار ہو یا کسی سیاسی جماعت کا اشتہار یا پھر ایکسپو میں لگنے والی کسی نمائش کا، زکوٰ ۃ کی درخواست ہو یا سیلاب زدگان کے لیے فنڈز جمع کرنے کی اس کی جیوگرافیکل حدود کی ڈی مارکیشن ہونی چاہیے کہ وہ کمپنی یا اداراہ یا سیاسی یا فلاحی جماعت کراچی یا کسی بھی شہر کے کتنے اضلاع اور کون کون سے اضلاع میں کتنی یونین کونسلز میں کتنے بینرز یا پوسٹرز یا پرچم لگائے گی ۔اس پر فی یونٹ ٹیکس ہو، جو بینر ، پرچم یا پوسٹر کے سائز اور تعداد اور یونین کونسل کی تعداد کے حساب سے بڑھتا جائے۔

2۔ پھر یہ کہ وہ ادارہ، کمپنی یا جماعت یہ پوسٹر کتنی مدت کے لیے لگائیں گے۔ ٹیکس کے نفاذ میں ٹائم کا بھی لحاظ رکھا جائے۔

3۔ اگلا ٹیکس یا جرمانہ اس ادارے ، کمپنی یا جماعت پر اس مدت کے بعد ان پوسٹرز ، بینرز اور پرچموں کو نہ اتارنے پر کیا جائے۔ اس طرح شہر کی بصری خوبصورتی قائم رکھی جاسکتی ہے ، ورنہ یہ لیرولیر بدرنگے پرچم اور بینرز شہر کو ایسے ہی بدصورت بنائے رکھیں گے ۔

4۔ جو جماعت اپنی اشتہاری مہم الیکشن کے خاتمے کے بعد شہر سے نہیں اتارتی، اس کے پرچم اور دیگر اشتہاری مواد کو  ایم سی کا عملہ اتار دے اور اس پر پابندی لگا دی جائے کہ آئندہ ایک مخصوص مدت تک وہ شہر میں اشتہاری مہم  کیلئے بینرز نہیں لگا سکتی ۔ یہ مدت ایک سال سے پانچ سال تک ہو ۔

5۔ سیاسی جلسوں اور جلوسوں ، کارنر میٹنگوں پر ا س میں شریک افراد کی تعداد کے لحاظ سے فی فرد/کارکن ایک مخصوص ٹیکس لگایا جائے ، ہر جماعت ہی مصر رہتی ہے کہ اس کے جلسے میں ملین سے کم افراد تو تھے ہی نہیں ، بیٹا آؤ  اور فی فرد ایک روپیہ ٹیکس دو، ایک ملین روپے تو ہاتھ کے ہاتھ لوکل گورنمنٹ کو مل جائیں گے۔

6۔ اس ایک ملین روپے سے اس جلسے جلوس کے لیے جو بجلی خرچ ہوئی ہے اس کے بل کی ادائیگی کی جائے، آج تک کسی ٹیکس دینے والے شہری کو یہ نہیں پتا کہ یہ جو اِن سیاسی جلسوں میں برقی قمقموں سے رات میں دن بنایا ہوتا ہے اس کی بجلی کس حساب میں سے خرچ ہوتی ہے اور اس کا بل کون دیتا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ بجلی حرام کے حساب میں کنڈے مار کر خرچ ہوتی ہے اور اس کا بل ہم تنخواہ دار اور بل ادا کرنے والے قانون پسند شہری اِن ڈائریکٹ ادا کرتے ہیں۔

7۔ انہی پیسوں سے ان جلسے جلوسوں کی سکیورٹی کا انتظام کیا جائے یا کم از کم سکیورٹی پر صبح سے رات گئے تک مامور اہلکاروں کی دلجوئی کی جائے۔

8۔ یہی سلوک مذہبی اور دیگر جلسے جلوسوں اور پبلک گیدرنگز کے ساتھ کیا جائے۔

9۔ شہر کی بصری آلودگی میں بہت بڑا حصہ راتوں رات ہونے والی وال چاکنگ کا ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے جہاں دل چاہتا ہے اپنا ون لائنر اشتہار موبائل فون نمبر کے ساتھ جگہ جگہ پینٹ کروادیتا ہے۔کوئی راتوں رات آپ کے ڈولے اور سکس پیکس تیار کرنے کو تیار ہے تو کوئی ہفتے بھر میں آپ کو چھیل چھبیلی نار بنادینے پر مصر ہے، تو کوئی محبوب آپ کے قدموں میں رولنے کو تیار بیٹھا ہے۔ کوئی تین دن میں آپ کی شوگر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے  کا دعویدار   ہے۔ ایسے مشتہرین کو ان کے دیے گئے فون نمبر کے ذریعے ٹریس کیا جائے اور ان سے زبردستی ٹیکس وصول کیا جائے اور اگر وہ ٹیکس نہ دیں تو ان کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے اور ان کی اشتہاری عبارات پر چونا پھیر دیا جائے۔

10 ۔ سیلاب فنڈز اور زکوٰۃ خیرات جمع کرنے والے اداروں اور افراد کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے کہ جتنے ایریا میں جتنی تعداد اور سائز میں اشتہار لگوائیں ان کی فیس ان سے لی جائے، اگر جمبو سائز پینا فلیکس درجنوں کے حساب سے چھپوا سکتے ہیں تو پھر اشتہاری مہم کی ادائیگی بھی کر سکتے ہیں۔

ان سب اقدامات کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک طرف تو شہری یا صوبائی حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہوگا اور دوسرے شہر کی بصری آلودگی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی ۔ فی الحال حکومت ان تجاویز پر عمل کرے تب تک ہم ریونیو جنریشن کے مزید آئیڈیاز سوچتےہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئی ایم ایف اور ریونیو ڈپارٹمنٹ متوجہ ہوں ، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے ادارے بھی اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply