بلوچستان میں تعلیم کے خلاف سازش۔۔۔اختر بلوچ

ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عناصر بلوچ قوم کے تعلیمی نظام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور ہر روز نئے نئے سازش سامنے آرہے ہیں.

کچھ دن پہلے بولان میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں آدھی رات کو ہماری بہںنوں کو ہاسٹل سے نکالا گیا اور وہ روڈ پہ بیٹھ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگٸے جب کہ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے. یہ خاموشی ایک نسل کے مستقبل کو تباہ کرنے کی سازش ہے.
پہلے سے بلوچستان کے اندر تعلیمی نظام برباد ہو چکا ہے کالجز اور سکول پہلے سے بند پڑے ہوئے ہیں.

بلوچستان کے اندر بلوچ قوم در پہ در ہوکر 100% میں سے 25% بچے اور بچیاں تعلیمی میدان میں سرگرم تھے لیکن کچھ اسٹوڈنٹس کو غریبی نے تعلیم سے دور کیا اور کچھ طلبا کے فوٹو ماما قدیر کے پاس آگئے۔۔

25 میں سے 9 فیصد نا جانے کتنی ٹھوکریں کھاکر یونیورسٹی کے لیول تک پنچے لیکن ادھر تعلیمی نظام کچھ اور تھا بندوق کا خوف وغیرہ وغیرہ۔۔

میں اس کو یونیورسٹی نہیں سمجھتا ہوں یہ ایک چھاٶنی تھی ابھی تک ہے لیکن طلبإ نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ بلکہ اپنے تعلیمی تسلسل کو جاری رکھا لیکن ان لوگوں کو برداشت نہیں ہوا کہ یہ لوگ بندوق کے خوف سے اپنا تعلیم نہیں چھوڑ رہے ہیں۔۔

ان لوگوں نے ایک نیا طریقہ کار ایجاد کیا، اسکینڈل لایا اسٹوڈنٹس کو بلیک میلنگ کرنے کیلئے، پھر بھی بڑے شلوار والے بلوچ ڈر کے مارے خاموش ہیں. ہم نے تو اپنی عزت کو پاٸمال کردیا ہے ہم لوگ تو اس ڈر کی وجہ سے اپنی بہنوں کی عزت کے تماشاٸی بن گئے ہیں۔۔

دنیا کے اندر لوگ اپنے نگ و ناموس کیلئے جان دیتے ہیں لیکن ہم ایک معمولی سی نوکری کیلئے اپنے نگ و ناموس کا سودا کرتے ہیں اور تماشائی بنے ہوئے ہیں یا ہم لوگ چپڑاسی کی نوکری کیلئے اپنے شہیدوں کے خون کا سودا کررہے ہیں جو بہت افسوس کی بات ہے اور وہ چپڑاسی کی نوکری بھی ہمیں نہیں مل رہی۔

آج کے دور میں دنیا کے اندر امریکہ سپرپاور ملکوں میں سے ایک ہے لیکن امریکہ کے لوگوں نے اپنی عزت سامراج کے سامنے لیلام نہیں کیا ان لوگوں نے اپنے شہیدوں کے خون کا سودا نہیں کیا ہم لوگ تو چپڑاسی کے نوکری کے خاطر اپنے شہیدوں کے خون کے سودا کررہے بہت افسوس کی بات ہے۔ ہم لوگ تو اپنے وطن کے شہیدوں کے خون لیلام کررہے ہیں۔ریاست کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں پارلیمنٹ کے اندر سیاست کررہے ہیں۔۔

وہ لوگ کیا جانتے ہیں تعلیم ، قوم اور عزت کیا بلا ہیں، ان لوگوں نے اپنی عزت کچھ پیسوں کی خاطر بیچ ڈالا ہے، وہ کیسے ہماری عزت کے آواز بن سکتے ہیں؟ لیکن وہ لوگ ریاست کے اندر سیاست کرریے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم ایک تعلیم یافتہ (educated) قوم بن جائے۔ یہ ہاسٹل بند کرنے اور یہ اسکینڈل کے زریعہ بلیک میلنگ کرنے میں ان لوگوں کے ہاتھ ہیں جو ریاست کے اندر سیاست کررہے ہیں۔۔

میں یہ مسئلہ vc اور انتظامی کی نااہلی نہیں سمجھتا ہوں اس کے پیچھے کچھ اور راز ہیں ۔۔ہم لوگ اسلئے خاموش ہیں کہ کچھ دن اور زندہ رہ سکیں، میں یہ سمجھتا ہوں ہم لوگ پہلے سے مر چکے ہیں ۔۔بڑی شلوار سے اور لمبی قمیض (جامگ) سے ہمارا عزت محفوظ نہیں ہوتا۔ ہم لوگ تو بلوچ ہونے سے خارج ہیں کیونکہ وہ شہیدوں کے ماؤں کی آنسوؤں کی وجہ سے بلوچ قوم کا نام دنیا کے اندر لے جا رہے ہیں کیونکہ ان لوگوں نے اپنے جان کے پروا نہیں کی۔۔

کچھ اسٹوڈنٹس ابھی تک (جیل) زندان میں اپنے ننگ و ناموس کیلئے اذیتیں سہہ کررہے ہیں لیکن ہم تماشاٸی بنے ہوئے ہیں۔جب تک ہم قربانی نہ دیں گے۔۔۔ہمارے آنے والے دن ہمارے لئے بہت مشکل اور اس سے بھی بد تر ہوتے جائیں گے۔۔ ہم تو چپڑاسی کے نوکری کے خاطر اپنے بہنوں کے عزت کی پروا نہیں کی تو کیا یہ تاریخ ہم لوگوں معاف کریگا؟

بلوچستان کے اندر تو تعلیمی نظام کو پہلے سے ایک خوف کے ماحول میں تبدیل کیا گیا ہے۔ کچھ والدین اپنے بچوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں تو ایسے ماحول میں لڑکیوں کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں۔۔۔؟

آپ کے خیال میں یہ تعلیمی نظام کو ختم کرنے کا سازش نہیں تو کیا ہے۔۔؟ اگر میں اپنے زات کی بات کروں تو میری فیملی اغواء برائے تاوان کے خوف سے مجھے پڑھنے نہیں بھیج رہی۔ کیونکہ میں کوئٹہ میں پڑھ رہا تھا لیکن میرے فیملی نے خوف کے مارے مجھے یونیورسٹی کوخیرباد کرنے کو کہا، آج میں یورسٹی نہیں جا رہا ہوں.

Advertisements
julia rana solicitors london

بلوچستان کے اندر ایسے بہت سارے مسئلے آتے رہتے ہیں اور ہمیں ان مسئلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ہمیں یہ انتظار نہیں کرنا ہے کہ کوئی اور ہمارے ننگ و ناموس کے کےلٸے آٸے گا۔ ہم لوگ تو اپنے وطن کے شہیدوں کے خون کو لیلام کررہے ہیں۔ریاست کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں پارلیمنٹ کے اندر سیاست کررہے ہیں۔۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply