کوہ نور ہیرا اور ننگے دادا ۔۔۔ علی اختر

میرے بچپن کے زمانے میں ایک فیملی ہمارے علاقے میں ایک اچھی ، بڑی بلڈنگ خرید کر شفٹ ہوئی ۔ ماں ، باپ دو بیٹے اور ایک بوڑھے سے لحیم شحیم چھ فٹ کے دادا جی۔ باپ کوئی کاروبار کرتا تھا ۔ پڑھے لکھے لوگ تھے ۔ بچے بھی اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے ۔ بظاہر اچھے خاصے لوگ تھے بس ایک بات کچھ الگ سی تھی وہ یہ کہ ہر صبح اور شام گھر کے دادا جی گھریلو سودا سلف، پان سیگریٹ و دیگر امور کے لیئے گھر سے نکلتے مگر لباس کے نام پر اپنے صرف ایک عدد باریک سی لنگی زیب تن فرمایا کرتے جو  بمشکل انکے موٹے سے پیٹ کے گرد احاطہ کئے ہوتی تھی ۔ باقی بدن برہنہ ہوتا ۔ گرمیوں میں یہ دادا جی لنگی کو ہاتھوں کی  مدد سے تھام کر مزید اوپر لیجاتے تو وہ بمشکل گٹھنوں تک پہنچتی اور جب وہ پان کے کیبن پر کسی سے بات کرتے ہوئے جوش خطابت میں اپنا تکیہ کلام “ابے اسکی ماں کا۔۔۔۔۔” کہتے ہوئے اچانک لنگی اوپر کرتے تو اکثر “مرد کا ستر عورت” اور کبھی کبھار” ستر مرد ” بھی نمایاں ہوجاتا تھا ۔

اب یہ چیز محلےکے من چلوں کے لیئے اچھوتی سی تھی سو فورا ً انہیں “ننگے دادا” کے  لقب سے سرفراز کر دیا گیا ۔ پہلے پہل تو یہ لقب صرف لڑکوں ، بچوں تک محدود تھا لیکن آہستہ آہستہ پورے علاقے کی زبان اور زبان زد عام ہو گیا۔

مثلاً اگر اب کسی کو ایڈریس سمجھانا ہوتا تو جملے کچھ یوں ہوتے “ابے وہ ننگے دادا کی گلی سے سیدھا آجانا ” یا “میرے بھائی ! تو میٹھے کنویں سے آگے آئے گا پھر ایک کچرا کنڈی آئے گی وہاں پان کے کیبن پر ننگے دادا کھڑے ہوں گے بس انہی کے سامنے پیلا والا گھر ہے” محلے کے بچے کرکٹ کھیلنے کی شرائط کچھ ایسے طے کرتے “ننگے دادا والوں کے گھر ڈائریکٹ بال لگی تو چھ رن ” لیٹ ایٹیز اور ارلی نائنٹیز میں محلے کی لینگویج میں لفظ “ننگے دادا” کااستعمال بہت عام ہو گیا تھا ۔ جیسے “وہ ننگے دادا والوں کی گلی میں شامیانہ لگوالو”، ” ابے وہ ننگے دادا والوں کے سامنے والے گھر میں ڈکیتی پڑ گئی  ہے” اور تو اور گھروں میں مائیں بھی بچوں کو رات کو ڈانٹتے ہوئے پائی  جاتیں “سو جاؤ کمبختو ، ملعونوں۔۔ ورنہ لیجا کے ڈال دونگی ننگے دادا کے آگے” اور بچے بھی فوراً سہم کے سو جاتے ۔

اب دادا کا بیٹا تو گھر پر بہت کم ہوتا تھا ۔ لیکن مسئلہ دادا کے دو پوتوں کا تھا ۔ پہلے پہل تو وہ بچے تھے سو ننگے دادا کو سیریس نہ لیتے لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے دادا پر زور دیا کے گھر سے نہ نکلیں یا پورے کپڑوں میں نکلیں لیکن ناکامی کے بعد دادا کے ننگے رہنے کی عادت کی عجیب عجیب سی تو جیہات پیش کرتے جیسے ۔ دادا کے خون میں حدت ہے، انہیں ڈاکٹر نے کہا ہے ننگا رہنے کا، یار کسی کی بیماری کا ایسے مذاق اڑانا بہت گناہ کی بات ہے وغیرہ وغیرہ ۔ آخری عمر میں دادا جی وہیل چیئر پر ننگے گھومتے پائے جاتے تھے۔ انکے انتقال کے فورا ً بعد پوتوں نے بلڈنگ بیچ کر نئے علاقے میں نئی  شناخت کے ساتھ نئی  زندگی کی شروعات کی اور ننگے دادا کا چیپٹر کلوز ہوا۔

یہ ننگے دادا کا کردار مجھے کیوں یاد آ یا ؟ تو بھائی  لوگ ! ابھی ابھی خبروں میں بتایا گیا ہے کے وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب نے برطانیہ سے کوہ نور ہیرا مانگ لیا ہے۔ کہتے ہیں یہ ہمارا ہے اور ہم اسے لاہور میوزیم میں سجائیں گے ۔

میرے بھائی ! یہ ہیرا صدیوں تک ملوا کے ہندو راجاؤں کے پاس رہا ، وہاں سے “پدما وت” فلم کے ولن علاالدین خلجی سے ہوتا ہوا لودھیوں تک پہنچا اور پھر مغلوں کے ہاتھ آیا ، نادر شاہ درانی دہلی کو لوٹ کر یہ ہیرا ایران ساتھ لے گیا اسی نے اس کو کوہ نور کا نام دیا پھر ا سے اسکی آل اولاد نے اسے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو گفٹ کر دیا اور وہاں سے انگریزوں نے حاصل کر کے ملکہ وکٹوریہ کے تاج میں جڑ دیا ۔ جہاں یہ اب تک موجود ہے۔ اب تک بات راجوں، شہنشاہوں، ملکاوں کی ہو رہی تھی کہ  اچانک ہم نے مانگ لیا کہ  بھائی اب بہت ہوگئی  ، پر اب نہیں ،بس اب یہ ہمیں دے دو یعنی کوہ نور نہ ہوا پڑوس میں بھیجی  گئی  افطاری کی پلیٹ ہو گئی  جو واپس مانگی جا رہی ہے ۔ بھائی نہ ہم ہندو نہ سکھ نہ مغل نہ درانی نہ انگریز تو اس مذاق کی وجہ؟

کبھی انڈوں اور مرغیوں والی بات، کبھی مراد سعید کاعمران خان اگلے ہی دن پھائلیں بلائے گی اور لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گی والا بیان ،ابھی دو ہی دن پہلے فیصل واڈا کی جانب سے نوکریوں کے لیئے لوگ کم پڑ جانے والا بیان۔ لیکن اب حد ہوگئی  ہے یعنی ننگے دادا گھر سے باہر آگئے ہیں ۔ قسم لے لیجیے اس بیان کے بعد پہلے تو برطانوی حکومت کے عہدے داروں نے حیرانی سے ٹی وی پر فواد چودھری صاحب کو دیکھا ہوگا پھر ایک دوسرے کی جانب اور پھر پیٹ پکڑ کر ہنس رہے ہوں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ساری سیچویشن میں سب سے قابل رحم پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی حالت ہے جو کم و بیش ننگے دادا کے پوتوں والی ہے۔ اب وہ بیانات کی توجیہات دینے کے بجائے دادا کے گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ تاکہ   نئی شناخت کے ساتھ نئی زندگی گزار سکیں ۔ دادا تو باز آنے والے ہیں نہیں۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply