سارا دن وہ گلیوں میں آوارہ پھرتے گزارتا اور رات باقی بہن بھائیوں کے ساتھ پھٹی ہوئی ایک رضائی میں۔ اُسے آج تک زیادہ بہن بھائی ہونے کا ایک ہی فائدہ سمجھ میں آیا تھا کہ سردیوں میں اُن کی← مزید پڑھیے
شہر کی ہواؤں میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ وہ شہرکے ہنگاموں سے دور ، ایک الگ تھلگ پرسکون علاقے میں بھاگنا چاہ رہا تھا، مگر سڑک پر موجود سبھی لوگ اور روبوٹ اُسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہے← مزید پڑھیے
رشیدہ سے سارا گاؤں ڈرتا تھا۔ وہ جب بھی اپنا آدھا پھٹا ڈوپٹہ لے کر گھر سے نکلتی سب جلدی جلدی گھروں کی کھڑکیاں بند کر لیتے۔ گلی میں کھیلتے بچے اپنے کھلونے چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ کبھی کبھار کچھ← مزید پڑھیے
اُس ماں کے نام جس نے اپنے جوان بیٹے کا ہاتھ چومنے کے لیے اُس کا ہاتھ پکڑا تو اس کی ہاتھ کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اُن ماؤں کے نام جنہیں بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم میں زندہ درگور← مزید پڑھیے
شہر کا بوڑھا دیوانہ گورکن سر میں خاک ڈالے بال نوچتا ہوا، تعفن زدہ گلیوں میں مارا مارا پھر رہا ہے کہ اس کے علاوہ سارا شہر وبا کے ہاتھوں میٹھی نیند سو چکا ہے۔ چیلیں اور کوّے اپنے منہ← مزید پڑھیے
’’خواب لے لو، مسکراہٹ لے لو، خوشیاں لے لو ‘‘ سورج کو گرہن لگ چکا تھا اور وہ اندھیرے میں سدا لگاتے چلا جا رہا تھا۔ تبھی اُسے ایک گاہک اپنی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو اُس کے دل← مزید پڑھیے
اے رحیم مولا ! تارکول کی سڑکوں پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے وحشی اپنی اکڑی ہوئی گردنوں کو لیے مجھ پر جھپٹنے کو تیار کھڑے ہیں اور میں ان کے بیچ زندگی کی تہمت اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھائے تیرے← مزید پڑھیے
میرے دوست میرے یار ! صدیوں سے بھٹکتی روحوں کی مانند ہم دونوں سوالوں کے دہر ِآشوب میں سولیوں پر اُلٹے لٹکائے ہوئے،اپنے عہد کے بدبخت لوگ ہیں جنہوں نے حاکم ِ وقت کو سلامت ،سلامت،سلامت کہنے سے انکار کر← مزید پڑھیے
اماں کی گود میں سر رکھے اُن سے بچپن کی کہانیاں سن رہا تھا کہ تبھی خمدار بوڑھے سنتری نے سلاخوں سے میرے منہ پر تمہارا خط مارا اور مجھے یاد آیا ،میں تو یہاں قیدِ زنداں میں پڑا ہوں۔← مزید پڑھیے
اُس کا وجود اب اُن دونوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا تھا۔ اُس کی شادی پر وراثت کا حصہ ہاتھ سے جانے والا تھا۔ دونوں غیرت مندوں نے اُسے رنگ رلیاں مناتے دیکھا لیا تھا۔ انہوں نے کلہاڑی کے وار← مزید پڑھیے
ہر طرف دھند پھیلی ہوئی تھی۔ شہر سے باہر والی ٹوٹی سٹرک ویران پڑی تھی۔ سورج طلوع ہونے میں ابھی بہت وقت رہتا تھا۔ وہ گوالے جو صبح جلدی اُٹھتے ہیں وہ بھی ابھی تک نیند کی وادیوں میں گم← مزید پڑھیے
پانچوں میں تھا جب پہلی بار جنسی طور پر ہراساں ہوا تھا، وہ انسان مجھے اور اپنی سگی بیٹی کو ایک ساتھ جنسی ہراساں کیا کرتا تھا ۔ ( وہ کون تھا یہ نہیں لکھوں گا کیونکہ سکول کے کچھ← مزید پڑھیے
’’میں نے کوئی قتل نہیں کیا جج صاحب۔ میں بے قصور ہوں‘‘ تیسری دفعہ یہی بڑبڑاتے ہوئے میری آنکھ کھل گئی تھی۔چاروں طرف اندھیرا تھا۔ چھت پر بنے روشن دان سے ہلکی سی چاند کی روشنی اندر آ رہی تھی۔← مزید پڑھیے
بولنے اور آواز اُٹھانے کے جرم میں لاپتہ کر دیے گئے سبھی سرفروشوں کے نام۔۔ کھونٹی پر لٹکی ہوئی تمہاری وہ زنگ آلودہ تصویر سے آج بھی محبت کی مہک آتی ہے۔ برسوں بعد بھی جب اُسے میں چومتی ہوں← مزید پڑھیے
جب میں نے اُسے پہلی بار دیکھا تو مجھے اُس سے پیار ہو گیا۔ ہاں وہی پیار جس کا ذکر فلموں میں ہوتا ہے، پہلی نظر والا پیار۔ اُس کی دلکش ادائیں اور چاند کی روشنی کو ماند کر دینے← مزید پڑھیے
اُس کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ نظریں اِدھر سے اُدھر گھما رہی تھی۔ پھر اپنے پرانے ٹوٹے ہوئے چشمے کو ٹھیک کرتی گھڑی کی طرف دیکھنے لگ جاتی۔ اُسے وقت گھڑی کی سوئیوں کا کچھ علم نہیں تھا← مزید پڑھیے
بھیڑیا چلایا ’’یہ گستاخ ہے۔ یہ ہمارے مذہب پر سوال کرتا ہے‘‘ دوسرا چلایا ’’ اِس نے جنگل سے غداری کی ہے۔ اِسے یہاں سے نکال دیا جائے ‘‘ تیسرا چلایا ’’ یہ اب سوال کرنے لگ گیا ہے۔ سوچنے← مزید پڑھیے
بارش کی بوندیں اب زیادہ شور برپا کر رہی تھیں۔مجھے بچپن سے ہی بارش سے محبت رہی تھی اور اب تو آسمان دیکھے بھی مہینوں ہو گئے تھے۔ آج شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ اِن دیواروں کو توڑ← مزید پڑھیے
رات کی تاریکی سے کہیں زیادہ اُس کے اندر کی تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ سوالوں کا ایک طوفان اُس کی روح کو تارتار کر رہا تھا۔ آج پھر ایک تقریب میں اُس کی عزت کے پرخچے اُڑا دئیے گئے← مزید پڑھیے
آج بڑے خوش لگ رہے ہو حمید خیریت تو ہے نا ۔ ہاں ہاں۔۔ یہ لو پہلے میٹھائی کھاؤ پھر بتاتا ہوں۔ بڑے بھائی اور بھابی کا تو تمہیں پتا ہی ہے، کمبخت کہیں کے۔ ساری جائیدار اپنے نام کروانا← مزید پڑھیے