آخری وار ۔۔۔۔اسامہ ریاض

ہر طرف دھند پھیلی ہوئی تھی۔  شہر سے باہر والی ٹوٹی سٹرک ویران پڑی تھی۔ سورج طلوع ہونے میں ابھی بہت وقت رہتا تھا۔ وہ گوالے جو صبح جلدی اُٹھتے ہیں وہ بھی ابھی تک نیند کی وادیوں میں گم تھے۔ ٹوٹی ہوئی کچی سڑک پر ایک سایہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھ رہا تھا۔
وہ ننگے پاؤں تھا۔ کپڑے بھی جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ سردی سے بچنے کے لئے پوری جان سے اپنے ننھے ہاتھوں کو اُس نے بغلوں میں دبایا ہوا تھا۔ لیکن پھر بھی سردی کی شدت کی وجہ سے اُس کے دانت آپس میں بج رہے تھے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا ہوا شہر کی طرف بڑھ رہا تھا۔نقاہت کے باعث اُس کا ہر قدم اُس کی رفتار کو آہستہ کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بہت دور سے چلتا آ رہا ہو۔ اُس کی آنکھیں کسی خونخوار شکاری کی سی تھیں۔ وہ شکاری جو بہت دنوں سے اپنے شکار کے لیے دربدر پھر رہا ہو لیکن اُسے کہیں سے شکار نہ ملا ہو اور مرنے سے پہلے وہ شکاری اپنی پوری قوت استعمال کر کے ایک آخری وار کرنا چاہتا ہوں۔
صبح ہونے والی تھی اور سردی بھی اپنے پورے عروج پر تھی۔ اُس سے اب چلا نہیں جا رہا تھا۔ جسم پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے اور اُس کے جسم کے ذرہ ذرہ پر نقاہت کا راج تھا۔ زمین اُس کے سامنے گھوم رہی تھی ۔ وہ چلتا چلتا غش کھا کر ٹوٹی سٹرک پر ہی گر گیا تھا۔
سورج نکل چکا تھا۔ شہر سے باہر جانے کے لیے اپنی نئی اور خوبصورت سڑکیں بن چکی تھیں، اِس لیے اِس پرانی ٹوٹی ہوئی سٹرک کی طرف کم سے لوگ آتے تھے۔ سورج آہستہ آہستہ اپنی بلندی کی طرف رواں دواں تھا۔ اُسے یہاں بےہوش پڑے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ کئی ایک راہی گیر پاس سے گزرے بھی لیکن سبھی نے اُسے کوئی پاگل نشی سمجھ کر اُس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ سورج کی چکا چوند روشنی کی وجہ سے ایک بار پھر وہ غنودگی کی حالت سے باہر آیا۔ اُس نے اپنے اردگرد دیکھا۔ لیکن اُسے کوئی نظر نہ آیا۔ نڈھال جسم کو اُٹھا کر وہ پھر شہر کے مرکزی بازار کی طرف چل پڑا۔ وہ شکاری بس اب مرنے والا تھا اس لیے وہ مرنے سے پہلے ایک آخری وار کرنا چاہتا تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے وہ مرکزی بازار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اب اُس کا جسم اُس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ وہ درندوں کی طرح شکار کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اُس نے آنکھیں بند کیں اور شکار کی طرف لپکا لیکن اِس سے پہلے کہ وہ اپنے شکار تک پہنچتا ایک زناٹے دار تھپڑ اُس کے سرخ گال پر پڑا۔ حلوائی نے اپنے بھاری ہاتھ کے ساتھ اُس کے گربیان کو پکڑ لیا اور روز روز سے شور مچانا شروع کر دیا۔۔۔
’’لو پکڑ لیا حرام زادہ آج میں نے۔ روز میری دکان سے چوری کرتا تھا یہ بےغیرت ‘‘ یہ کہتے ہی اُس نے ایک زوردار لات اُس کے پیٹ پر رسید کی۔ آس پاس کی سبھی دکانوں والے شور سن کر اکٹھے ہو گئے۔ تبھی بیکری والے صاحب بولے میری بیکری سے بھی روز یہی چوری کرتا ہے۔ ایک کے بعد ایک الزام لگتے گئے اور سبھی نے مل کر اُسے مارنا شروع کر دیا۔۔ وہ اپنی آنکھیں بند کر چکا تھا۔ بالکل بند ۔۔۔ اُس کے بعد اُس کی آنکھیں کبھی نہیں کھل سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply