جنید حفیظ کے نام۔۔اُسامہ ریاض

میرے دوست میرے یار !
صدیوں سے بھٹکتی روحوں کی مانند ہم دونوں سوالوں کے دہر ِآشوب میں سولیوں پر اُلٹے لٹکائے ہوئے،اپنے عہد کے بدبخت لوگ ہیں جنہوں نے حاکم ِ وقت کو سلامت ،سلامت،سلامت کہنے سے انکار کر دیا۔
ہم وہ دھتکارے ہوئے لوگ ہیں جو قمار خانے کی مئے میں ڈوبے نقاب پوشوں کی محفل میں اپنے اصلی چہروں کے ساتھ آ گئے اور جن کے سر اِن کے زانوں پر دھر دیے گئے ،مگر خون سے لت پت ہاتھوں نے سوال اٹھانے کی توہین جاری رکھی۔ ان پُرسکون ہاتھوں میں   کپکپی تھی ،نہ آنکھوں میں اضطرابِ شکست۔

ہم وہ تھے جنہوں نے لوحِ محفوظ پر لکھے فرمانِ یزداں کے وحشیانہ اور آمرانہ فیصلوں “جو کہ مذہب کے دلالوں کے زہر آلود قلم سے مزید زہریلے اور وحشیانہ ہوئے” کو سرِ بزمِ سلطان ماننے سے انکار کر دیا۔ جشنِ فرخندہ کے موقع پر صدیوں سے ظلم سہتے غلامی کے مجسموں پر غلاف چڑھانے کے انکار پر ہمارے سروں کو توپ کے مہیب گولوں سے اُڑا دینے کا حکم صادر کر دیا گیا اور ہمارے سَروں کو سرِ بازار لٹکا دیا گیا ہے، مگر حاکمِ  وقت ہمارے چہروں سے پھوٹتی روشنی کو زمانی افق پر پھیلنے سے روک نہیں سکا جسے اپنے کانپتے ہاتھوں سے ایک سنگ تراش نے لافانی مجسمے کی شکل دے دی۔ ہم جاڑوں میں اپنے غرورِ ناتوانی میں ڈگمگاتے وہ مجذوب ہیں جنہوں نے اپنے خوابوں کے جنازے اپنے کندھوں پر خود اُٹھائے۔ ہم ہار کر جیتے ہوئے لوگ ہیں،اور ہم اس پر ذرا  بھی پشیماں نہیں ہیں،بقول فیض
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے

میرے دوست !
شہرِ جہالت کی سیاہ چادر  اُوڑھے صدیوں سے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے۔ مگر اے ہم نشیں!
جس لمحے تیرے ننگے بدن پر قلعے کے پرانے عقوبت خانے میں تازیانے برسائے جا رہے ہیں عین اُسی لمحے عدو کے ہاتھوں ہمارے قبیلے کے گلے دبے ہوئے ہیں۔ نیزے اور خنجر سینوں میں پیوست کر دئیے گئے ہیں۔ مورخ دور درخت کی آڑ میں چھپا بیٹھا لرزتے ہاتھوں سے داستانِ قتل گاہ لکھ رہا ہے۔ عین اُسی لمحے میں کِیلوں سے چنا ہوا قلعے کی پتھریلی دیوار سے پیوست ہوں۔ میرے پیروں کے نیچے ریت گرم ہو رہی ہے۔ سامنے افق میں چراغ کے جیسا سورج طلوع ہو رہا ہے جس کی گہری خموشی اور ٹمٹماتی روشنی میں شہر کا گرہن زدہ چاند مزید اوجھل ہو رہا ہے۔ شہر کا جابر اُدھیڑ عمر پادری جو اس وقت گھر کے پچھواڑے میں ایک بچے سے مباشرت میں مشغول ہے اس کے کمرہ کے عقب میں بنے روشن دان تک روشنی پہنچنے میں ذرا دیر تو لگے گی مگر ہمارے جسموں سے ٹپکتے خون کی مہک شہر بھر میں پھیلتی جا رہی ہے کہ اس مہک سے شہر کی جوان لڑکیوں نے شیشے کے سامنے بیٹھ کر بناوسنگھار کرنا ترک کر دیا ہے۔ اب نرم و مرمریں ہاتھوں میں مہندی کے بجائے علم و منطق کی کتابیں نظر آ رہی ہیں۔ شہر سے پرے ریگستان کے وسط میں بنے کنویں پر پیاس اور خستگی کے عالم میں نیم عریاں چھاتیوں والی جوان لڑکیاں اب خودمختاریت کے خواب پر بحث کر رہی ہیں اور صدیوں سے تہذہب و تمدن کے نام پر پادری اور اس کے ظالم خدا کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے ریگستان میں دفن کرنے پر تیار نظر آ رہی ہیں۔

میرے دوست!
ہمارے پسینوں سے تر زمین اک نئی نسل کو جنم دینے والی ہے۔ میں جانتا ہوں سورج کی تابانی میں آنکھ ڈالنے کے بجائے انہیں موند لینے کا حکم صادر کیا گیا ہے مگر کواڑوں سے چند نظریں باہر جھانک رہی ہیں جنہوں نے بند کمرے میں پادری کومقدس تصویر کے سامنے مباشرت کرتے دیکھ لیا ہے۔ جن کی گستاخ آنکھوں نے کلیسا کے کارندوں کو خدا کے مقدس کلام میں ردّوبدل کرتے دیکھ لیا ہے اور اب ہوا کی ترکھٹ مجھے اُن کی چہ میگوئیاں سنا رہی ہے کہ وہ حاکمِ وقت اور خدا کے کارندوں پر فردِ جرم عائد کرنے والے ہیں۔
ابر  شہر سے بس ذرا فاصلے پر رہ گیا ہے۔ مینہ برسنے والا ہے۔ باغ کی وہ کیاریاں جن کی آبادکاری ہمارے خون سے کی گئی وہاں سرسبز گھاس اُگنے والی ہے۔ بس ہمیں ذرا کچھ اور دیر رُکنا ہے۔ بس ذرا کچھ ہی دیر اور۔

تمہارا دوست!

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply