نور ظہیر کی تحاریر
نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

زخم۔۔نور ظہیر

کہہ نہیں سکتی یہ گھاؤ کب سے میرے سینے میں ہے۔ تکلیف کے ساتھ شروع ہوا ہو ،یہ بھی یاد نہیں۔ نہ کوئی پھوڑا یا چھالا تھا جو پھوٹ کر ناسور بن گیا ہو، نہ ہی کوئی چوٹ تھی جو←  مزید پڑھیے

کڑوی مسری۔۔نور ظہیر

کڑوی مسری۔۔۔اسے سب اسی نام سے بلاتے تھے۔ سچ مچ وہ تھی بھی بالکل ویسی۔ گوری تو اس کے اتنے خاندان بھر میں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ بھورے بھورے، ہلکے گھونگرالے بال، اس کے پان جیسے چہرے کو گھیرے رہتے۔←  مزید پڑھیے

ٹرانجٹ کی زندگی۔۔ڈاکٹر ظہیر

اتنا غصہ اسے اپنے اوپر کبھی نہیں آیا تھا۔ زندگی میں کئی بار اس نے غلط فیصلے لیے تھے اور ان کا نتیجہ بھگتنے کے ساتھ ساتھ اپنی بیوقوفی اور ناسمجھی پر غصہ بھی آیا تھا۔ لیکن اتنا کہ اپنا←  مزید پڑھیے

ڈھکا چہرہ۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ ان بڑے میاں کی دُھنائی ہوئی تھی۔ پِٹ جانا ان کی اکثر کی عادت تھی۔ ہاں، اس بار جیسی دُھنائی ان کی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے دور کے رشتے کے بھتیجے←  مزید پڑھیے

ان کا کیا مقابلہ۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

پہلی نظر میں ہی وہ دیپیکا کو جانی پہچانی سی لگی۔ جب غور سے دیکھا تو اپنے پن کا آبھاس ہوا۔ کچھ پل اُسے نہارنے کے بعد دیپیکا کی سمجھ میں آیا کہ وہ دیکھی ہوئی سی کیوں لگ رہی←  مزید پڑھیے

پرگتی۔۔ڈاکٹرنور ظہیر

آنندی نے ماسٹر رول بالکل اوپر سے پڑھنا شروع کیا۔ یہ تیسری بار تھا۔ گاؤں کا نام بانگئی بیڑا، بلاک انگڑا۔ عورت کا نام بھی وہی تھا — جاموئی دیوی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے چھریرے بدن، سانولے رنگ اور←  مزید پڑھیے

اکیچ بات ہے۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

ممبئی کی جن گنی چنی چیزوں کو نوینہ کو عادت ہوگئی تھی ان میں سے ایک لورا تھی۔ نکلتا ہوا قد، چکنی، گیہواں رنگ، سڈول جسم اور سوالیہ آنکھوں والی گووا کی لورا۔ اصل میں اس کی آنکھوں میں ہمیشہ←  مزید پڑھیے

پردہ فاش۔۔ڈاکٹرنور ظہیر

دونوں کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔ بس ایک عمر تک کی پوری ہوچکی تھیں ،دونوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ کچھ تو بائیس سال کے بعد ملنے کی خوشی، تیز رفتار اور آج کی ریل پیل میں←  مزید پڑھیے

دفن۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

ہوری کو دفن میں جانے سے سخت نفرت تھی۔ اس لیے وہ کسی کی موت کی خبر ملنے کے دو تین دن بعد اس کے گھر والوں کے یہاں افسوس کرنے جاتی تھی۔ لیکن آج شام وہ ایک دفن میں←  مزید پڑھیے

بے نام۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

مدالسا نے میٹھی گرم چائے کی ایک چسکی لی۔ میلے، پرانی چائے جمے برتن میں، جس میں دودھ، چینی، چائے کی پتی سب ایک ساتھ ڈال کر کئی بار اُبالی گئی اور ڈگمگاتے، تکونے گلاسوں میں خوب اوپر سے انڈیلی←  مزید پڑھیے

سوبھاوِک تھا۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

پرتبھا اپنے سر کو بار بار جھٹکا دے رہی تھی۔ اس کے خالی کھوکھلے دماغ میں، جو یاد کے چند قطرے چپکے رہ گئے تھے، اب دھیرے دھیرے پھسل کر، دھند جمے شیشے پر شفاف نقش بنارہے تھے۔ وہ انھیں←  مزید پڑھیے

اُڑان۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

کالندی بڑے فخر سے کہا کرتی تھی کہ تتلی اس کی سب سے اچھی دوست ہے اور جب تتلی بھی یہی دوہراتی تو اس کی آنکھیں فخر سے نم ہوجاتیں۔ صحیح! اس نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا جو نوکری←  مزید پڑھیے

پریم چند مرتے کیوں نہیں؟۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

نارائنی کی جھنجھلاہٹ جائز تھی۔ بیس سال کی پترکاریتا اور آٹھ الگ الگ اخباروں اور رسالوں کی نوکری میں لگ بھگ ہر چیز بدل چکی تھی۔ تنخواہ، عہدہ، کمرہ، بلڈنگ، یہاں تک کہ بھاشا بھی۔ بس ایک تو وہ نہیں←  مزید پڑھیے

خود کی پہچان۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

لوہے کی جالی کے بیچ میں بنے موکھے سے ہاتھ نکال کر اس نے روپے گنے۔ پورے دوہزار تین سو پینتالیس۔ شکریہ میں وہ کیشئر کی طرف مسکراکر لائن میں پیچھے والوں کو جگہ دے کر ایک طرف ہوگئی۔ اس←  مزید پڑھیے

شروعات۔۔ڈاکٹر نورظہیر

ساحرا ندی کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ اس کے سامنے سے، ندی کا کنارا کاٹ کر ایک تیز سوتا، پاس ہی کی پن چکّی میں جارہا تھا۔ پن چکّی کی ’کھرر ہُن، کھرر ہُن‘ اسے صاف صاف سنائی←  مزید پڑھیے

ریت پر خون۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

رابعہ کے بغیر مانگے، ویٹر نے کافی کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا اور اس کے ’تھینک یو‘ پر مسکراکر ’یوں آر ویلکم‘ کہہ کر پیچھے کھسکنے لگا۔ سانولے چکنے چہرے پر چمکتے سفید دانت، درمیانہ قد، گٹھیلا بدن←  مزید پڑھیے

ایک بیوقوف عورت۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

رئیسہ کو پارٹیوں میں جانا بالکل پسند نہیں اور گھریلو پارٹیوں سے اسے نفرت ہے۔ انجان جگہ، انجان لوگوں کے جمگھٹ میں تو ملتے ملاتے، موسم کی برائی یا تعریف کرتے، پلاسٹک پر ایک آدھ ایپالیٹیکل فقرے بازی کرنے میں←  مزید پڑھیے

سب سے بڑا گناہ۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

فرزانہ نے ان سولہ عورتوں پر نظر دوڑائی جو زنانہ جیل سے اس کمرے میں لائی گئی تھیں۔ پھر اس نے نظر بھرکر اس نوجوان ڈاکٹر اور ڈاکٹرنی کو دیکھا جو بیچ والی کرسی اور سٹول پر بیٹھے تھے۔ وہ←  مزید پڑھیے

گھر کا پتہ۔۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

کامنی ہر تیسرے چوتھے دن، شام کو لگنے والے اس بازار میں آتی تھی۔ کالونی کے گیٹ میں داخل ہونے سے پہلے، ذرا آگے کو بڑھ کر لگنے والا یہ بازار تھا بڑے آرام کا۔ تازی سبزیاں اور موسمی پھل←  مزید پڑھیے

ایک قبر کی فریاد۔۔۔(دوسرا،آخری حصّہ )ڈاکٹر نور ظہیر

ایک قبر کی فریاد۔۔۔(پہلا حصّہ )ڈاکٹر نور ظہیر ”نہ سہی، لیکن اتنی خوداعتمادی تو یقیناً کفر ہے۔ کیا پتہ، بڑا  مزار واقعی سلطان کے سوالوں کا منہ  توڑ جواب دے۔“ ”ہوسکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ تم سمجھتے کیوں نہیں،←  مزید پڑھیے