پردہ فاش۔۔ڈاکٹرنور ظہیر

دونوں کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔ بس ایک عمر تک کی پوری ہوچکی تھیں ،دونوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ کچھ تو بائیس سال کے بعد ملنے کی خوشی، تیز رفتار اور آج کی ریل پیل میں ایک دوسرے کو کھوجنے  کی خوشی، چاروں طرف سے طلاق، علیحدگی، دوسری شادی کی خبروں کی برابر بمباری میں ایک دوسرے کو بسا بسایا پانے کی خوشی اور اس سب سے زیادہ، بائیس سال پھلانگ کر، اپنے لڑکپن کو پھر سے جی پانے کی خوشی۔ دونوں ایسی پھٹی پڑرہی تھیں جیسے کوئی ٹائم مشین ہاتھ لگ گئی ہو جس کے سہارے دونوں کے بیچ کے سال دور دھکیل دیے ہوں اور ان سالوں کے ساتھ ہی وہ دو تین بچے، ایک عدد بور، روکھا پتی، ساس سسر میں سے ایک یا پھر دونوں، ضرورت سے زیادہ نکتہ چینی کرتا ہوا اور پکتی عمر میں بھی یہ یاد دلاتا ہوا کہ ابھی تم پوری طرح سے آزاد نہیں ہو، ابھی تمہارے اوپر ہم ہیں۔ گھر کا لونی، نوکری میں پروموشن، بچوں سے گھٹتا اپناپن مگر بڑھی ذمہ داری، سب کو اس ٹائم مشین نے جیسے ایک جھٹکے میں غائب کردیا ہو اور زندگی کو دوبارہ اسی  سکول اور کالج کے الہڑ بے فکر زمانے میں لاکھڑا کیا ہو۔
چپّی توڑتے ہوئے سگندھی بولی — ”ایک کافی اور ہوجائے۔“
”ہو جائے۔ ایسیڈیٹی ہوا کرے میری بلا سے۔“ جیا نے احتیاط کا دامن ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا۔
”تجھے کب سے ایسیڈیٹی ہونے لگی۔ کالج کے دنوں میں تو نہیں تھی۔ تب تو تُو سب کو بنا چینی کی بلیک کافی پلاکر رعب جھاڑا کرتی تھی۔“
”کالج میں تو اور بھی بہت کچھ نہیں تھا۔“
”اس کی، ہی مین جیسی باڈی اور کیا آواز تھی، سرکنڈے کی سیٹی جیسی، پی۔۔پی۔۔“
”ہم دونوں اس کے پیٹھ کرتے ہی، اس کی آواز کی نقل کیا کرتے تھے۔“
دونوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شرارت سے مسکرائیں۔ سکول کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا، اب کالج کی باری تھی۔ دونوں   کالج کے دنوں کو یاد کررہی تھیں۔ یونیورسٹی کے الیکشن، ریلیاں، دھرنے، ڈرامہ، کمپٹیشن، ڈیبیٹ، چھوٹی بڑی دل لگیاں، دل بچھوئیاں اور دل ٹوٹیاں۔

سگندھا باتیں کرے جارہی تھی لیکن کوئی ایک چیز اس کے دل میں بار بار جھنکار کررہی تھی۔ کیوں وہ دونوں، سکول کی اتنی اہم ہونی کی، کبھی بات نہیں کرپائی تھیں۔ آج بھی نہیں۔ دونوں ہی اس بھید کو جانتی تھیں، دونوں ایک دوسرے کے دل کا حال بھی جانتی تھیں،لیکن پھر بھی دونوں نے کبھی کھل کر ایک دوسرے کے سامنے اس کا اقرار نہیں کیا۔ پندرہ سولہ سال کی کم سن عمر میں پہلے عشق کو ظاہر نہ کرنا تو خیر سمجھ میں آتا ہے، لیکن  سکول کے بعد کالج کے تین سالوں میں بھی کبھی اس کی چرچا نہیں کرنا حیرانی کی بات تھی۔ دونوں ہی، جیسے ایک اَن کہے وعدے سے بندھی رہیں۔ ایک دوسرے کے دل کا حال جانتے ہوئے بھی کبھی، ہلکے سے بھی اس کا خلاصہ نہیں کیا، ایک دوسرے کے سامنے بھی نہیں۔ آج، کالج کے بعد کی انتم ملاقات کے بائیس سال بعد بھی، دونوں اس سے ایسے کتراکر نکل گئی جیسے وہ کوئی شرمناک بات ہو۔

تازی کافی میں چینی ڈالتے ہوئے سگندھا نے ویٹر کی طرف مسکراکر دیکھا اور جیا کی طرف پلٹی۔ اتنے دن صحافت میں اس نے جھک نہیں ماری تھی۔ دوسرے کے انتر کو کھنگال کر، سچ اگلوانے کا پیشہ اب عادت بن گیا تھا۔ جب صحافت چھوڑی اور ادب کی ڈگر پکڑی تب یہ سمجھتے دیر نہیں لگی کہ صرف دوسرے کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنے سے کام نہیں بنتا ہے۔ اپنے سچ کا سامنا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اور یہ ماضی تو اس کا جیا دونوں کا سچ تھا جس کا سامنا دونوں کو ہی کرنا چاہیے۔ ایک سینڈوِچ اٹھاتے ہوئے اس نے پوچھا — ”اچھا جیا، تجھے جیو یاد ہے؟“
”کون جیو؟“ جیا کا جواب فوراً آیا تھا مگر سگندھا نے اس کی آنکھوں میں آئی گھبراہٹ اور ان پر گرتے ہوئے پردے کو دیکھ لیا تھا۔
”کیا بات کررہی ہے یار! جیو، وہ  سکول کا سب سے بانکا لڑکا جو بارھویں میں تھا جب ہم گیارھویں میں تھے۔ جو سترہ سال کی عمر میں بھی تقریباً چھ فٹ کا تھا۔“ سگندھا وہ ساری باتیں کہے جارہی تھی جو وہ جانتی تھی جیا کو بھی یاد ہے۔

”ہاں، کچھ یاد تو پڑتا ہے کہ اس نام کا ایک لڑکا تھا۔ میرے خیال سے کٹ لیٹ منگوا لیتے تو سینڈوِچ سے اچھے رہتا۔ یہ تو باسی بریڈ کے ہیں۔“
”بات نہ بدل۔ آج اتنے سالوں کے بعد، جب اس کا وجود کہیں بھی ہمارے آس پاس نہیں ہے، تو ہم کبھی اس کے وجود کے ہونے کا اقرار تو کر سکتے ہیں۔ ہماری زندگی اتنی تو خودغرض ہوچکی ہے کہ ہم اپنے لڑکپن کے عشق پر ہنس سکیں۔“

”عشق! کیسا عشق! مجھے اس سے یا کسی سے بھی کبھی عشق وِشق نہیں تھا۔ تجھے رہا ہو تو اپنی بات کر۔“

”ہاں بھئی، ہمیں تو تھا۔ میرے لیے تو جیو وہ تھا جس کے لیے میرے دل نے، پہلی بار دھڑکنا سیکھا۔ کیا کرکٹ کھیلتا تھا، ہر ڈبیٹ جیت کر آتا تھا۔ اس کی وجہ سے تو اس کا ہاؤس شیلڈ لے جاتا تھا۔ کس ہاؤس میں تھا وہ؟“

”نالندہ میں۔“ جیا کے جواب پر سگندھا نے بھنویں اونچی کرکے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھا۔ جیا نے کندھے اُچکا کر صفائی دیتے ہوئے کہا — ”اب تو اتنی بات کررہی ہے اس کی، تو کچھ تو یاد آہی جائے گا۔“

ظاہر ہے! پہلے عشق کی کچھ باتیں تو ساری عمر کسک مارتی ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہم کیسے اسے چھپ چھپ کر دیکھا کرتے تھے، بارھویں کی لڑکیوں سے کیسے گھما پھرا کر اس کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ہائے،  سکول یونیفارم میں بھی کیسا ہینڈسم لگتا تھا!“

”دیکھ، عشق کی کسک تو دور، مجھے تو اس کی شکل بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ ہاں، تو ضرور اس کے لیے آہیں بھرتی تھی۔“

”صرف آہیں! میں تو دعائیں مانگا کرتی تھی کہ کسی طرح بورڈس میں فیل ہوجائے۔ لیکن کم بخت پڑھنے میں بھی تو برا نہیں تھا۔“

”ہاں آل راؤنڈر تھا۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تو اس کی ایسی دیوانی تھی سگندھا۔“

”بیکار باتیں نہ بنا۔ سارا  سکول جانتا ہوگا ہم اس پر مرتے تھے۔ ہر چیز میں ہی ہماری پسند ایک جیسی تھی۔ پہلا عشق بھی ایک ہی لڑکے سے ہونا لازمی ہی تھا۔“

”تو چالیس پار کرکے بھی کیسی بیوقوفی کی باتیں کرتی ہے سگندھا!“ جیا نے اسے ذرا جھڑکتے ہوئے کہا۔

”اور چالیس پار کرکے بھی تو کیسی سلجھی سیدھی باتیں کرتی ہے۔ ایسی بور تو جوانی میں تو نہیں تھی۔“

”جس پر تو کہے اس پر عاشق نہ ہونا، بور ہونا ہے۔“

”نہیں لڑکپن کے انفیکچویشن سے، بڑھاپے کی کگار پر آکر منہ  پھیر لینا اور مدھیہ ورگیہ شرافت کی چادر اوڑھ لینا بور ہونا ہے۔ ہائے رے! وہ اس کے نام چٹھیاں لکھنا اور خود ہی ان کا جواب دینا اور چھپ چھپ کر انھیں پڑھنا۔ وہ کسی لڑکی سے ہنس کر بات کرتا ہوا دِکھ جائے تو اس لڑکی کی بھونڈی سی تصویر بناکر، اس کی ناک، آنکھ میں پین کی نِب یا الپن چبھانا۔ اس کے نام کے پہلے لفظ کو الگ الگ طرح سے کتابوں، کاپیوں کے حاشیے پر لکھنا۔ سب سمجھتے تھے تجھ سے کتنا پیار کرتی ہوں۔ ہر کتاب میں بیسیوں جگہ ’جے‘ لکھا ہوتا۔ اب تو بس اس وقت کی یاد بھر رہ گئی ہے اور رہ گئی ہے غلام علی کی گائی غزلیں۔۔۔ چپکے چپکے۔۔ کیا کررہی ہے جیا؟“

”اب چلنا چاہیے ۔۔ مجھے۔ انھیں آج جلدی گھر آنا ہے۔“ جیا کھڑے ہوکر بیگ اٹھاتے ہوئے بولی۔

”وہ تو آنا ہوگا ہی۔ مجھ سے جو ملنا ہے۔ کمال ہے نہ کہ اپنی سب سے پرانی اور پکّی سہیلی کے ’ان سے‘ میں آج تک نہیں ملی۔“ سگندھا بھی اٹھنے لگی۔

”نہیں – نہیں تو ابھی بیٹھ، کافی ختم کرلے۔ مجھے اچانک ایک ضروری کام یاد آگیا ہے، انھیں کہیں لے کر جانا ہے۔“ جیا کا پورا ہاؤ بھاؤ کچھ سکپکایا ہوا سا تھا۔

”جیا میں تجھے اتنی اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ تیرے سب بہانے سمجھ سکتی ہوں۔ تو مجھے ٹالنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن یہ تو خاص اچھی طرح چھپا بھی نہیں پارہی ہے۔ ویسے تو مجھے ٹرخا کیوں رہی ہے؟“

”نہیں، ٹرخا نہیں رہی، مجھے انھیں واقعی کہیں لے کر جانا ہے ……“

”تیری کوشش بیکار ہے۔ میں ٹرخنے والی نہیں ہوں۔ پندرہ سال کی پترکاریتا نے مجھے اچھا خاصا جونک بنادیا ہے۔ اور تو اپنے پتی کو ’انھیں‘ کیوں کہتی ہے؟ ہم نے تو طے کیا تھا کہ اپنے پتیوں کو نام لے کر بلائیں گے …… ہمارا ’لبریشن‘  سٹیٹمنٹ! خیر میں تو اپنے والے کو نول ہی بلاتی ہوں۔ تیرے والے کو میں تو مکتیش بلا سکتی ہوں نہ یا مسٹر سمپت کہنا پڑے گا۔“ وہ ہنستی ہوئی بِل ادا کررہی تھی۔ جیا بھی مسکرائی اور بولی — ”انہی  سے پوچھ لینا، ابھی تھوڑی دیر میں۔“ اس نے ٹرکانا چھوڑکر اب مان لیا تھا کہ سگندھا ساتھ ضرور جائے گی۔

جیا گاڑی لائی تھی۔ سگندھا نے اس میں بیٹھتے ہوئے کہا — ”نہ جانے آج کل جیو گاؤں ہوگا؟ شاید کانپور میں ہی کسی سرکاری دفتر میں کلرکی کررہا ہوگا۔“

جیا اپنی گاڑی پارکنگ سے نکال رہی تھی۔ زور کا بریک لگاکر سگندھا کی طرف پلٹی — ”اب بس کر یہ جیو جیو کا جاپ سگندھا! اپنے آج میں لوٹ آ اور دوسروں کو بھی ان کے آج میں جینے دے۔“

عجیب سا سور تھا جس کو سننے کے بعد بحث یا مذاق کا کوئی راستہ کھلا نہیں رہ جاتا تھا۔ سگندھا چپ ہوگئی اور باہر دیکھنے لگی۔ جیا کی گاڑی جب اس کے گھر کے پھاٹک کے باہر جاکر کھڑی ہوئی تو اندر سے ایک صاحب لپک کر پھاٹک کھولتے ہوئے باہر آئے — ”آئیے، آئیے۔ موبائل کا سوچ آف کرکے پرانی سہیلی سے باتیں ہوتی ہیں کہ ہم کہیں ڈسٹرب نہ کریں، سگندھا میں مکتیش ہوں۔“ سگندھا نے غور سے انھیں دیکھا۔ گدبدا شریف، اوسط قد، گوری رنگت نہیں، مگر سانولی بھی نہیں، معمولی ناک نقشہ، ہنس مکھ چہرہ، بہت ذہین یا تیز دماغ تو نہیں مگر شاطر اور بے ایمان بھی نہیں لگے۔ سگندھا نے ہاتھ جوڑے اور بولی — ”آپ نے تو بڑے تپاک سے سگندھا کہہ ڈالا، مگر میں سمجھ نہیں پارہی ہوں کہ آپ کو کیا بلاؤں۔“

”کیوں؟ آپ کو میرا نام ابھی تک معلوم نہیں ہوا؟“ وہ اپنے ہی مذاق پر خود ہی زور سے ہنسے۔

”دراصل ساری مشکل جیا کی پیدا کی ہوئی ہے۔“ سگندھا کمرے میں آکر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی — ”یہ جو آپ کو ’انھیں، اُنھیں‘ بلاتی ہے، اسی کے کارن میں پس و پیش میں پڑگئی ہوں۔“

”ارے کہاں؟ جیا تم نے اپنی سب سے اچھی سہیلی کو بتایا نہیں تم مجھے کیا بلاتی ہو؟ ہوا کیا سگندھا کہ میں نے بھی ضد پکڑ لی کہ میرا نام لو۔ ان سے نہ تو میرا نام لیتے بنا نہ میری بات کو ان سنا ہی کرپائی۔ تو انھوں نے میرا دوبارہ نام کرن کرڈالا۔ ان کا پتنی دھرم بھی بچ گیا اور میری بات بھی رہ گئی۔ جیا، بتا دوں تم نے کیا نام دیا مجھے؟“ وہ چھیڑتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔

جیا کے چہرے پر ایک رنگ آتا ایک جاتا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر سگندھا بولی — ”جانے دیجیے، شاید جیا کو بُرا لگے۔“

”کیوں، برا کیوں لگے گا۔ بھئی الگ نام تو انسان اپنے سب سے قریبی کو دیتا ہے۔ اتنے پیار کا کبھی کبھار اظہار ہونا بھی تو ضروری ہے۔ کم سے کم اپنی سب سے پیاری سہیلی کے سامنے۔“ وہ اپنے ہی انداز میں جیا کو چڑھا رہے تھے۔

”میں ذرا اندر کپڑے بدل کر آتی ہوں۔“ جیا اندر جانے لگی تو انھوں نے ہنستے ہوئے سگندھا سے کہا — ”اب شرما رہی ہے۔ بھلا آپ نے اس عمر میں بھی کسی کو پتی سے لجاتے سنا ہے۔ نہیں، جاؤ مت۔ پگلی کہیں کی۔“ انھوں نے اٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روکا اور پھر اپنے قریب سمٹاتے ہوئے بولے — ”یہ مجھے جیو بلاتی ہے۔“

ایک گھنٹہ کیسے گزرا، کیا بات چیت ہوئی، آگے کا کیا طے ہوا، سگندھا کو کچھ یاد نہیں۔ اپنے گھر پر آٹو سے اترتے ہوئے اس نے پیسے دینے کو بیگ کھولا تو نوٹوں کے ساتھ مکتیش اور جیا کا وزیٹنگ کارڈ بھی اس کے ہاتھ میں آگیا۔ پیسے دے کر، آٹو کے چلے جانے کے بعد بھی وہ کافی دیر تک ہاتھ میں کارڈ لیے کھڑی رہی۔ پھر ایک گہری سانس بھرکر اس نے کارڈ پھاڑ ڈالا اور اندر چلی گئی۔ کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جن پر پردہ پڑا رہے تو رشتہ بنا رہتا ہے۔ پردہ کھل جائے تو جو عریانیت سامنے آتی  ہے اس کو سہہ پانا رشتے کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ نظریں اپنے آپ ہی جھک جاتی ہیں، دوسری طرف مڑ جاتی ہیں۔ سگندھا جانتی تھی کہ اب وہ کبھی جیا سے جانی پہچانی سہیلی کی طرح نہیں مل پائے گی۔ اس نے اس راز کا پتہ پالیا تھا جس کا اقرار شاید جیا نے خود اپنے آپ سے بھی نہیں کیا تھا۔ ایسے چھپے ہوئے راز کو فاش کرنے کا دام تو سگندھا کو چکانا ہی پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply