خود کی پہچان۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

لوہے کی جالی کے بیچ میں بنے موکھے سے ہاتھ نکال کر اس نے روپے گنے۔ پورے دوہزار تین سو پینتالیس۔ شکریہ میں وہ کیشئر کی طرف مسکراکر لائن میں پیچھے والوں کو جگہ دے کر ایک طرف ہوگئی۔ اس کی روم میٹ روزمیری ذرا پیچھے تھی۔ وہ رُک کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ سنبھل کر روپے ہینڈ بیگ میں رکھتے ہوئے اس نے سوچا کہ اس کہانی نے اتنا تو کرہی دیا کہ آج وہ اپنے پیروں پر کھڑی تھی۔ کم سے کم اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی تو ضرورت نہیں تھی۔ وہ کہانی جس پر پانچ سال پہلے، ایک پرانے میگزین میں اس کی نظر پڑی تھی اور جس کو پڑھنا اس نے صرف اس لیے شروع کیا تھا کیونکہ اس کے  سکول ماسٹر والد اس ادیب کی بہت باتیں کیا کرتے تھے۔

وہ مہینے بھر کی ردّی بیچنے بیٹھی تھی۔ ٹین، ڈبّے، بوتلیں اور بہت تھوڑے سے اخبار اور میگزین۔ ایک کمرے کے گھر میں بہت کباڑ کیسے جمع رکھا جاسکتا ہے۔ کباڑی منہ  بناکر، ردّی تول ہی رہا تھا کہ اس نے ڈھیر میں سے یوں ہی وہ میگزین اٹھاکر اس کے پنّے الٹنے شروع کردیے تھے۔ ہندی کہانی پر خاص نمبر تھا اور اس میں ایک کہانی تھی اس افسانہ نگار کی جس کے بارے میں اس کے والد کہا کرتے تھے کہ انھیں زندگی کی بڑی اچھی پکڑ ہے، وہ صرف سچ ہی لکھتے رہے اور سچ چاہے جتنا بھی کڑوا کیوں نہ ہو اسے اتنی ہی بیباکی اور نڈرتا سے سامنے رکھتے تھے کہ پڑھنے والا چونک پڑے۔ ایسا سچ جو پڑھنے والے کو جھنجھوڑ دے کیونکہ وہ اس کا اپنا سچ ہو۔

کہانی پڑھتے پڑھتے اسے لگنے لگا جیسے کہ وہ اس کی اپنی کہانی تھی۔ لیکن ایسا کیسے ہوسکتا تھا؟ پچاس سال پہلے لکھی گئی کہانی بھلا اس کے بارے میں کیسے ہوسکتی تھی۔ اس وقت تو اس کا جنم بھی نہیں ہوا تھا۔ مگر تھی جیسے اُسی کی داستان۔ وہی دو تنگ کمروں والا سرکاری گھر، جس کے ایک کمرے میں وہ اور اس کا شوہر کرائے دار، پرائیویٹ کمپنی میں کلرک کی نوکری کرنے والا شوہر، گاؤں میں مائیکہ۔ وہ خود بھی تو علی گڑھ ضلع کے دیہات کی تھی۔ لاجونتی آٹھویں پاس تھی اور وہ میٹرک۔ لیکن بس یہیں پر آکر فرق ختم۔ عجیب سی بات تھی کہ کہانی کی ہیروئن اور اس کا نام بھی ایک تھا۔ یعنی لفظ ایک نہیں تھا مطلب تو ایک ہی تھا۔ لاجونتی کا ایک مطلب شرمیلا بھی تو ہوسکتا تھا۔

اس کا شوہر بھاسکر بھی صبح سویرے ہی چلا جاتا اور لوٹتا شام ڈھلے۔ ویسے اس پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا، ایسا تو سبھی کام کاجی مرد کرتے ہیں۔ دن بھر کا کام کرکے وہ شام سے ہی اس کے لیے آنکھیں بچھائے انتظار کرتی۔ وہ لوٹتا اور اس کے ہر کام میں مین میکھ نکالتا …… نمک پارے پھیکے، چائے ہلکی، سبزی جلی، دال پتلی، دہی کھٹّا، میز پر دھول، بستر پر سلوٹیں وغیرہ۔ وہ چپ رہتی تو ڈانٹتا پھٹکارتا رہتا۔ اگر کہیں اپنے بچاؤ میں پلٹ کر کچھ کہہ دیتی تو مارنے پیٹنے پر اتر آتا۔ بچپن ہی سے اسے سکھایا گیا تھا کہ شوہر اگر بداخلاقی کرے تو بھی یہ اس کا حق ہے۔ عورت کا فرض ہے کہ وہ چپ چاپ سہے اور ہر دُکھ پانے کے باوجود شوہر کو خوش رکھے، ہنستی رہے۔ لیکن بھاسکر اگر کوئی غلطی نہیں پکڑ پاتا تو اس کے چہرے کے بھاؤ پر ہی اس سے جھگڑ پڑتا — ’ہنس کیوں نہیں رہی ہے؟‘ ’بیوقوف کی طرح منہ  کیوں کھولے ہے؟‘، ’گھر اس لیے نہیں آتا کہ تیرا سوجا تھوبڑا دیکھوں‘۔ شرمیلا نے کئی بار سنا تھا کہ اگر جواب نہ دے تو سامنے والے کا غصہ، کوئی سہارا نہ پاکر خود بخود ہی لڑکھڑاکر گر جائے گا۔ لیکن بھاسکر ایک ایسا آدمی تھا جو گھنٹوں اکیلے چیختا چلاتا رہ سکتا تھا، یہاں تک کہ شرمیلا کا ماتھا بھنّانے لگتا جسے روکنے کے لیے اس کا جی چاہتا کہ خود اپنا سر دیوار سے مار دے۔
لیکن شادی کے بعد، کچھ مہینوں تک بھاسکر ایسا نہیں تھا، ٹھیک لاجونتی کے شوہر جیسا۔ اسے گھمانے لے جاتا، سنیما دکھاتا، دلّی کے بڑے بڑے بازاروں میں ٹہلاتا، اس کی حیرانی پر اسے چھیڑتا، چڑھاتا اور وہ بچوں کی طرح روٹھتی تو اسے مناتا۔ پھر ایک اتوار کی شام بھاسکر کے دفتر میں کام کرنے والے بخشی جی آئے۔ وہ بھاسکر کے سینئر تھے۔ شرمیلا نے کتنے جتن سے سوکھی اروی اور دہی بڑے بنائے۔ وہ پینی نظر سے ان دونوں کو دیکھتے رہے تھے اور ان کی بیوی ایک کونے میں سکڑی، دُبکی بیٹھی تھی۔ جب بھاسکر نے کھیرے ٹماٹر کی پلیٹ اپنی طرف کھسکائی اور سلاد کاٹنا شروع کیا تو وہ طنز سے مسکرائے اور بولے — ”جب مرد گھر کا کام شروع کردیتے ہیں تبھی عورتیں سر پہ اٹھ جاتی ہیں۔ عورت کو اس کی جگہ پر رکھنے میں ہی مرد کا رتبہ ہے۔“

اس وقت تو شرمیلا نے چاقو بھاسکر کے ہاتھ سے لے لیا تھا۔ مگر اگلے دن جب اس نے گئی شام کی چرچا شروع کی اور بخشی جی کے پرانے وچاروں پر ہنسی تو بھاسکر نے اسے یہ کہہ کر چپ کرادیا — ”کیا غلط کہہ رہے تھے بخشی جی۔ آج تک میں بیوقوف تھا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ساری زندگی بیوقوف بنا رہوں۔“ شرمیلا سمجھ گئی تھی کہ اس کے گھر میں بخشی جی کا سبق کام کررہا ہے۔
وہ جیوں جیوں کہانی پڑھتی گئی، لاجونتی پر پڑتی آفت اور اس کے شوہر کے ظلم اور لاپرواہی میں اپنی زندگی کا عکس دیکھ کر حیران ہوتی گئی۔ بیچ میں دو بار تو اسے میگزین بند کردینی پڑی۔ رُلائی جو اتنی آرہی تھی۔ پھر یہ سوچ کر کہ لاجونتی کا جو انت ہوا ہوگا، وہ کہیں نہ کہیں اس کا مستقبل ہوگا، وہ کہانی پھر آگے پڑھنے لگی۔ آخر میں پہنچی تو اسے ایک ایسی خوشی کا احساس ہوا جیسے کوئی بہت قیمتی چیز کھوجانے پر اسے ڈھونڈنے میں سارا دن برباد ہوجائے اور جب تھک ہارکر بیٹھ جاؤ تو وہی چیز بالکل سامنے پڑی دِکھے۔ کتنا آسان تھا اُپائے، کتنا سہج تھا راستہ۔ وہ بھی وہی کرے گی جو لاجونتی نے کیا تھا۔ کرواچوتھ ایسا کوئی دور بھی نہیں تھا۔ مہینہ بھر ہی تو بچا ہے۔ یہ مہینہ وہ کسی طرح مار پیٹ، ڈانٹ پھٹکار سہہ کر کاٹ لے گی کیونکہ اس کے بعد تو سب ٹھیک ہوہی جائے گا۔ جیسے لاجونتی کا ہوگیا تھا۔

اپنی سب خواہشات کا گلا گھونٹ کر، یہاں تک کہ اپنی رونے کی خواہش کو بھی دباکر اس نے وہ ایک مہینہ گزارا۔ بھاسکر کبھی کبھی اسے ذرا حیرانی سے دیکھتا بھی، اسے رُلانے کی خواہش میں بے بات جھڑکتا، گالیاں دیتا، اور زیادہ مارتا۔ جب کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اس نے دوسرے طریقے اپنانے شروع کردیے۔ بستر میں اسے ستاتا، اسے زور زور سے نوچتا کھسوٹتا، کاٹتا، اس کی دبی دبی کراہیں سن کر یا اگلے دن اسے اپنی چھاتیوں کو دھوتے مرحم لگاتے پکڑ لیتا تو اتراتا، اکڑتا ہوا چائے گرم کرنے یا جلدی ناشتہ دینے کا حکم دیتا جیسے اسے پرواہ ہی نہ ہو کہ اس پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ سب کچھ سہہ کر اپنے من کے کیلنڈر میں ایک اور دن پر کراس لگا دیتی۔

آخرکار کرواچوتھ سے پہلے والا دن آیا۔ مائیکے سے بابوجی کا منی آرڈر آچکا تھا، لیکن اس کا بازار جاکر کچھ خریدنے کا دل نہیں چاہا۔ ویسے بھی، اکیلے جاکر خریدنے میں کیا مزا تھا۔ بات تو تب ہوتی جب بھاسکر کے ساتھ جاتی، مہندی لگواتی، نئی چوڑیاں پہنتی۔ اس نے خود کو تسلی دی۔ اگلے سال تو ایسا ہی ہوگا۔ بھاسکر آیا، ناشتہ کیا اور پڑوس میں تاش کھیلنے چلا گیا۔ نہ یہ خبر لی کہ مائیکے سے کوئی آیا یا نہیں، نہ پوچھا کہ کرواچوتھ کے لیے کچھ چاہیے یا نہیں۔ شرمیلا کی آنکھیں بھر آئیں، مگر اس نے خود کو سمجھایا کہ گھبرانا کیا؟ اب تو مشکلوں کا اَنت ہے، بس ایک ہی دن باقی رہ گیا ہے۔ اب تو بیڑا پار سمجھو۔

اگلے دن سویرا ہونے سے پہلے اٹھی۔ نہائی، گھر میں سگری کا تو سامان تھا نہیں۔ پانی پی کر ہی ورت رکھا، ٹھیک لاجونتی کی طرح۔ بھاسکر کھا پی کر اس کے گمبھیر منہ  پر اسے ہڑکاکر دفتر چلا گیا۔ گھر کے کام سے نمٹنے میں گیارہ بج گئے۔ بھوک زوروں کی لگ رہی تھی لیکن اس نے بھی طے کرلیا تھا کہ وہ سب کچھ لاجونتی کی ہی طرح کرے گی۔ خالی زمین پر لیٹ گئی۔ کچھ دیر میں اسے نیند آگئی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ اگر اب بھی بھاسکر کو یاد آجاتا کہ وہ اس کی لمبی عمر کی کامنا کرے، اگلے جنم میں بھی اسے شوہر کے روپ میں پانے کی منوتی مانے بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ لیکن ایسا تھوڑے ہی ہوسکتا تھا۔ کیونکہ ایسا لاجونتی کے ساتھ نہیں ہوا تھا، اور اس کی اور لاجونتی کی قسمت تو ایک تھی۔ اسی کے سہارے تو اس نے ایک مہینہ پار کیا تھا اور اب تو منزل بس سامنے تھی۔ چار بجتے بجتے اسے بھوک کے مارے چکّر آنے لگے۔ رونا الگ آرہا تھا۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ بھوکے مرو اس کے لیے جسے تمہاری پرواہ ہی نہ ہو۔ بھاڑ میں جائے ایسا ورت! وہ اٹھی۔ ایک لوٹا پانی بھر کر سیدھا منہ  میں انڈیلا کیونکہ لاجونتی نے ایسا ہی کیا تھا۔ پھر چائے بناکر، رات کی بچی ہوئی دو روٹیاں اس میں ڈبو ڈبوکر گلے سے نیچے اتاریں۔ اتنے میں پڑوس کی عورتیں بلانے آگئیں۔ سب کا پارک میں بیٹھ کر پہلے گپ بازی، پھر کتھا سننا اور پھر بن سنور کر مندر جانے کا پلان تھا۔ شرمیلا کو بھی بلانے آئی تھی۔ شرمیلا نے نہائے نہ ہونے کا بہانہ کرکے، کچھ دیر بعد پہنچنے کا وعدہ کرکے انھیں ٹالا۔ آج شام تو وہ بھاسکر کے ساتھ اکیلی رہنا چاہتی تھی۔ آج سے تو اس کی نئی زندگی شروع ہونے والی تھی۔

چائے کا کپ اور صبح کے برتن دھوکر ہاتھ پونچھ رہی تھی کہ بھاسکر نے دروازے پر زور سے ہانک لگائی۔ وہ ’لاجونتی اسٹائل‘ میں دروازہ کھول کر ایک طرف ہوگئی۔ بھاسکر نے اسے گھور کر دیکھا، پھر بولا — ”دماغ ٹھیک نہیں ہوا تیرا۔“ شرمیلا نے دل ہی دل میں کہا — ”دماغ تو تھوڑی دیر میں تمہارا ٹھیک ہونے والا ہے۔ اس کے بعد ہم دونوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خوش رہیں گے۔“ جب شرمیلا نے کوئی جواب نہیں دیا تو رعب سے بولا — ”دیکھو یہ تیور کہیں اور جاکر دکھانا۔ مجھ پر ان کا کوئی اثر نہیں ہونے والا۔ ناشتہ لا جلدی!“
شرمیلا چائے اور ناشتہ رکھ کر جانے لگی تو اس نے پھر للکارا — ”میرا دیا کھا رہی ہے اور مجھے ایسے دے رہی ہے جیسے کوئی گلی کے کتے کو دیتا ہے۔ ٹھیک سے نہیں رکھ سکتی یا میں ٹھیک سے رکھوں۔ میں کیا نوکر ہوں اس گھر کا؟“

شرمیلا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ رندھے گلے سے بولی — ”کیسی باتیں کرتے ہو جی، میں نے تو کبھی ایسا نہیں سوچا۔“
”زبان چلاتی ہے؟ ایک تو صبح شام اپنا سڑا منہ  دکھاتی ہے، اوپر سے زبان چلاتی ہے۔“ بھاسکر نے اسے دو تھپڑ مارکر زمین پر دھکیل دیا، پھر پیر اٹھاکر ایک لات مارنے ہی والا تھا کہ شرمیلا بھی زور سے چلاّئی — ”ہاں، مار لو جتنا چاہو۔ میں نے کون سا اگلے جنم میں تجھے پانے کا ورت رکھا ہے۔ جو بھی بھوگنا ہے بس اسی جنم میں بھوگنا ہے۔“
بھاسکر کا پیر رُک گیا۔ وہ سکتے میں اسے دیکھ رہا تھا۔ شرمیلا کو اندر اندر ہنسی آرہی تھی۔ اب ان کو سمجھ میں آیا ناں ۔ اب یہ لاجونتی کے شوہر کی طرح مجھ سے معافی مانگیں گے، مجھے منائیں گے، مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیں گے۔ میرے پہلے والے دن لوٹیں گے۔ اگلے سال ہم دونوں مل کر کرواچوتھ کا ورت رکھیں گے۔ کیونکہ ہم دونوں ہی تو چاہیں گے کہ اگلے سات جنموں تک ہمارا ساتھ ہو، پیار ہو۔ ٹھیک جیسے لاجونتی اور اس کے شوہر نے چاہا تھا۔

جب بھاسکر نے چیخنا شروع کیا تو کچھ دیر تک تو اسے لاجونتی کے شوہر کے ہی شبد سنائی دیتے رہے۔ کچھ پل بعد اس کی گالیاں سمجھ میں آئیں — ”بدمعاش، کولکچھن۔ کمینی، رنڈی۔ چاہتی ہے کہ میں جلدی مروں تاکہ تو موج کرسکے، گل چھرے اڑا سکے اپنے یار کے ساتھ۔ تبھی تونے کرواچوتھ کا ورتھ نہیں رکھا نا؟ اگلے جنم میں شروع سے ہی اس کا ساتھ چاہتی ہے۔ ڈائن کہیں کی، شوہر کا کھاکر دوسرا کھسم کرے گی ویشیا کہیں کی!“

تابڑتوڑ گھونسوں، مکّوں، لاتوں کی بارش ہونے لگی۔ کمرے کے باہر لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ایک بڑی عمر کی عورت نے بیچ بچاؤ کرانے کے لیے بھاسکر کو سمجھایا کہ کم سے کم آج کے دن تو بیوی کو نہیں مارنا چاہیے۔ لیکن جب سب نے پوری بات سنی تو سب ہی چپکے چپکے کھسکنے لگے۔ بھلا ایسی عورت کا کون ساتھ دے گا جو کرواچوتھ کا ورت ہی نہ رکھتے، شوہر کے جلدی مرنے کی کامنا کرتی ہے۔ سب نے کانوں کو ہاتھ لگاکر تھوکا اور چاند دیکھ کر شوہر کی لمبی عمر کے ساتھ ساتھ یہ منوتی بھی مانگی کہ بھگوان ایسی عورت تو کسی دشمن کے گھر میں بھی نہ جنمے۔

بابوجی پہنچے۔ چپ رہ کر سب سنا۔ کہتے کیا؟ ان کے دو اور لڑکیاں ابھی کنواری بیٹھی تھی۔ ایک تو بیاہی بیٹی مائیکے لوٹ آئے اوپر سے ایسا کلنک لگائے؟ اکیلے ہی لوٹ گئے۔ بھاسکر نے معاف کرنے سے انکار کردیا۔ مجسٹریٹ نے ’کروا‘ کہانی کو بھی من گڑھت مانا۔ پورا محلہ ہنسا۔ واہ رے عورت کی الٹی کھوپڑی، گواہ بنایا بھی تو ایک کہانی کو! طلاق ہوگیا۔ ٹرین کی کھڑکی سے شرمیلا نے وہ میگزین زور سے اچھال دی۔
”جب یہ مرد خود کو پہچانتے نہیں تو کہانی کیوں لکھتے ہیں؟“
”کون خود کو نہیں پہچانتا شرمیلا۔“ روزمیری نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا۔
”کوئی نہیں۔ چلو جلدی ابھی کمرے کی صفائی کرنی ہے، پھر سنیچر کے بازار بھی تو جانا ہے۔“ اس نے روزمیری کا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھا اور اس کی راستہ ٹٹولنے والی چھڑی سیدھی کرکے دوسرے ہاتھ میں دی، پھر دھیرے دھیرے ہاسٹل کی طرف بڑھنے لگی۔ اسے اپنی راہ چاہے نہ ملی ہو، وہ دوسروں کو راہ ڈھونڈنے میں مدد تو کرہی سکتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply