بے نام۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

مدالسا نے میٹھی گرم چائے کی ایک چسکی لی۔ میلے، پرانی چائے جمے برتن میں، جس میں دودھ، چینی، چائے کی پتی سب ایک ساتھ ڈال کر کئی بار اُبالی گئی اور ڈگمگاتے، تکونے گلاسوں میں خوب اوپر سے انڈیلی گئی تاکہ اوپر جھاگ بن جائے اور تار کے ہولڈر میں چھوٹے سے گنجے لڑکے کے ہاتھ بھیجی گئی پنجابی چائے۔ مزے کی کڑواہٹ اس کے منہ  میں پھیلی تو اس نے ہونٹ بچکائے۔ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ اسے چائے کی سخت ضرورت تھی اور یہی سب سے قریبی کینٹین تھی۔ ویسے ہی، جیسے دوسرے معاملوں میں بھی کوئی چارا نہیں تھا۔ اسے کام کی ضرورت تھی اور یہی ایک نوکری اسے ملنے کی امید تھی۔ ویسے وہ جتنی بھی نوکریوں کے اشتہار دیکھتی سب میں عرضی بھیج دیتی، لیکن آج تک ایک نے بھی اسے انٹرویو تک کے لیے بلانے کی زحمت نہیں اٹھائی تھی۔ سینتالیس سال کی عمر میں نوکری کھوجتے ہوئے اس نے یہ تو امید نہیں کی تھی کہ کمپنیاں لال قالین بچھا کر اس کا سواگت کریں، لیکن اس کی خوداعتمادی نے بڑی دھانسو مار کھائی تھی۔ جو ایک نوکری مل رہی تھی، وہ ایک بی پی او میں تھی۔ شاید ابھی تک وہ برٹش تلفظ میں بات کرسکتی تھی جو اس کے پاپا نے اتنی مشکل سے اسے سکھایا تھا۔

سوچنے کے لیے جو ایک گھنٹہ اسے دیا گیا تھا، اس کے ختم ہونے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے۔ اس نے یہاں درخواست اس لیے بھیجی تھی کیونکہ اس کے بچپن کی بہت ساری یادیں اس لائبریری سے جڑی تھیں۔ وہ آدھا گلاس چائے چھوڑکر لائبریری کی طرف چلی۔

بورڈ آف ٹرسٹیز نے ابھی تک کھانا ختم نہیں کیا تھا۔ ٹیبل کے چاروں طرف وہ آٹھوں بیٹھے، کراؤن بون چائنا کی چھوٹی پلیٹوں میں، چاندی کے چمچوں سے، بلیک فاریسٹ کیک اور ونیلا آئس کریم ڈال رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے ذرا تیکھے انداز سے گھڑی دیکھی۔
”ہاں جانتی ہوں کہ جلدی آگئی ہوں، لیکن جب فیصلہ لے ہی لیا ہے تو آپ کو بتانے میں دیر کیوں کروں؟ آپ کی  آفر منظور ہے مجھے، میں کل نو بجے صبح کام پر آجاؤں گی۔“

وہ آٹھ تھے، پانچ مرد، تین عورتیں۔ کم سے کم آدھوں کی آنکھوں میں مدالسہ نے نراشا کی لہر اُترتے دیکھی۔ ان میں سے کچھ تو ضرور اس لائبریری کے ختم ہونے پر، اس پر بلڈوزر چلاکر، کئی منزلہ آفس کمپلیکس بن جانے پر خوش ہوتے۔ لیکن وہ بہت بوڑھے سے باواجی، جن کے دادا نے یہ لائبریری کھولی تھی، اٹھے اور اس سے ہاتھ ملاکر اس کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اس کے شکریہ پر مسکراکر پوچھا کہ اس نے سمجھ لیا ہے نا کہ اسے نوکری کے ساتھ اور کیا کرنا ہے؟ پھر اسے دروازے تک چھوڑنے آئے اور خاص پارسی انداز میں اسے ’بیسٹ آف لک، آؤ جو‘ کہا۔
’لک‘ کی تو اسے بہت ضرورت پڑنے والی تھی، کیونکہ لائبریری کے فرائض کے ساتھ اِسے چلانے کی رقم کا بھی جگاڑ کرنا تھا۔ ’وارڈن‘ پرانے پارسی رئیسوں کا خاندان تھا جن کے پاس کبھی اتنا دھن تھا کہ وہ لائبریری جیسے سماجی کاموں پر خرچ کرسکتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اب الٰہ آباد چھوڑ گئے تھے اور جو بچ گئے تھے ان کی گزر ایک شراب کی دکان اور تین بیکریوں پر منحصر تھی۔ اس وقت لائبریری کو ایک چھوٹی سی گرانٹ ملتی تھی جو کہ خاندان کے کسی ممبر نے، مولانا ابوالکلام آزاد سے قریب ہونے کی وجہ سے، بہت سالوں پہلے حاصل کی تھی۔ لیکن اس سے، بڑی مشکل سے، سٹاف کی تنخواہ ہی نکل پاتی تھی۔ جب پہلے والے لائبریرین ریٹائر ہوئے تو ’وارڈن‘ خاندان نے، جو اب کافی شاخوں میں بٹ چکا تھا، لائبریری کو چھ مہینے کا وقت دیا — بچ سکے تو ٹھیک ورنہ اسے بلڈوزر کے حوالے کردیا جائے۔

بوڑھے وارڈن شاید ایسا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے بورڈ کو راضی کیا کہ کچھ پیسے خرچ کرکے ایک ایسے شخص کو رکھا جائے جو سرکاری اور نجی اداروں میں عرضیاں بھیجے، ان کے سوالوں کے جواب دے اور اس پونجی کا جگاڑ کرے جس سے اس لائبریری کی دیکھ ریکھ، مرمت وغیرہ بھی ہوجائے اور نئی کتابیں بھی خریدی جاسکیں۔ اس کا چناؤ اس لیے ہوا تھا کیونکہ اس کے علاوہ انٹرویو کے لیے اور کوئی نہیں آیا۔ لائبریری بچانے کے لیے اور اپنی نوکری کو پکّا کرنے کے لیے اس کے پاس کُل چھ مہینے تھے۔ مدالسہ نے اوپن یونیورسٹی سے لائبریری سائنس کا ایک کورس تو کیا تھا لیکن اس کورس نے اسے لائبریری چلانے کی پونجی جٹانے کے بارے میں کچھ نہیں سکھایا تھا۔ خیر، کل ایک نئی صبح ہوگی اور وہ اپنا پہلا قدم اس سمت میں بڑھائے گی۔

مشکل تب کھڑی ہوئی جب اس کے بڑھے ہوئے پاؤں کو پہلے ہی دن بڑی زور سے ٹھوکر لگی۔ اسے یقین دیا گیا تھا کہ اس کے ساتھ ایک اسسٹنٹ لائبریرین، ایک ہیلپر اور ایک صفائی کرمچاری رہیں گے۔ اسسٹنٹ لائبریری تو آئے ہی نہیں اور باقی دونوں بھی ان منے سے جھاڑن مارتے، کتابیں جھٹکتے بیٹھے رہے۔ جو تین چار پڑھنے والے آئے، ان سے بھی رُکھائی کا برتاؤ کرکے انھیں ایسے نمٹایا جیسے وہ لائبریری کا ضروری انگ نہ ہوکر بیکار بھنبھنانے والی مکھیاں ہوں۔ مدالسہ کو حیرانی ہوئی۔ بھلا  سٹاف کیوں چاہے گا کہ ان کی کام کی سنستھا بند ہوجائے۔ ہاں، ایک بات اس نے غور کی تھی۔ وہ جو ایک تیس پینتیس سال کی عورت آتی تھی، سب سے دور   ایک کونے میں بیٹھ گئی تھی۔ ان سے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ نہ ان کے دیر تک بیٹھنے پر اعتراض کرتا تھا، نہ کتابیں کھلی چھوڑکر چلے جانے پر بڑبڑاتا تھا۔ چوتھے دن جب وہ کھیجی ہوئی، بوڑھے وارڈن صاحب کو فون کرنے کا ارادہ کررہی تھی، وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آئی اور لینڈنگ کاؤنٹر کے سامنے کھڑی ہوکر بولی — ”آپ پر بہت کام آپڑا ہے نا۔ لائبریری کی دیکھ ریکھ بھی اور کتابیں ایشو کرنا، واپس لینا بھی۔“
”نہیں، یہ کام تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ جو کتابیں لوگ ایشو کراتے ہیں، انھیں کس حال میں لوٹاتے ہیں، کیسے کتابوں کو اٹھاتے رکھتے ہیں، انھیں سب سے تو ان کا تعارف ملتا ہے۔“

وہ مدالسہ کی بات بڑے دھیان سے سن رہی تھیں۔ ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی اور آنکھوں میں ایسی قربت جھلک رہی تھی جو مدالسہ کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ ویسے اس نے پہلے دن سے ہی اصول بنالیا تھا کہ وہ کسی سے بھی زیادہ اور بے مطلب بات نہیں کرے گی۔ پھر بھی، نہ جانے کیوں، ان سے بتیانے کا جی چاہنے لگا — ”کام سے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، بس مشکل یہ ہے کہ اس سب مصروفیت میں ……“ مدالسہ ہچکچاکر رُک گئی۔
” اس سب مصروفیت میں تمہیں ان گرانٹس کے لیے درخواستیں بھیجنے کا وقت نہیں مل پارہا، جو تمہاری نوکری بچانے کے لیے ضروری ہے۔“ انھوں نے بات پوری کردی۔
”ہاں، صحیح کہا آپ نے۔“
”مجھے ’تم‘ کہو اور ان سے مل کر بات کرو۔“
”کن سے؟“
”وہی، اسسٹنٹ لائبریرین، اور کون؟“ انھوں نے اپنی کتابیں اٹھائی اور چلی گئیں۔

چھوٹے سے، اندر کو دھنسے ہوئے بنگلے کی گھنٹی بجاتے ہوئے مدالسہ سوچ رہی تھی کہ اسے خود اسسٹنٹ لائبریرین کا خیال کیوں نہیں آیا۔ بزرگ سی، بے حد دُبلی، ایڑی تک کا سوتی چھینٹ کا گاؤن پہنے ہوئے ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ ان کے پیچھے پیچھے، ’بخ بخ‘ کرتا ہوا ایک سفید پامیرین بھی آیا۔ انھیں دیکھ کر مدالسہ کو ’اولڈ مدر ہبرڈ‘ یاد آگئی۔ اپنی بہکتی سوچ کو سمیٹ کر، ہنسی دباکر مدالسہ نے ان کے ”کیم چھے؟“ کا جواب دیا — ”میں ہوں مدالسہ۔“
ان کی آنکھوں میں غصہ اتر آیا — ”اب تم کو ادھر کیا مانگتا؟“
”پیلو بھائی۔ مطلب، میں انھیں مانگ نہیں رہی ہوں، بس ذرا بات کرنا چاہتی ہوں۔“
”کون چھے کومی؟“ اندر سے ایک مردانہ آواز آئی۔
”کوئی چھوکری چھے، تم کو نئی مانگتا۔“ سینتالیس سال میں چھوکری کہاجانا مدالسہ کو اچھا لگا۔ پھاٹک سے اندر آکر وہ دروازے میں داخل ہونے ہی والی تھی کہ بوڑھی کومی نے راستہ روک لیا — ”ارے کاں، ممبئی کے دریا کی مافق گھسا آتا ہے؟ جاؤ، پیلو کو کوئی بات نہیں کرنے کا ہے۔“
”لیکن مجھے کرنی ہے۔ پیلو بھائی، بس پانچ منٹ دیجیے مجھے، پھر جو جی میں آئے فیصلہ کرلیجیے گا۔“ مدالسہ نے کومی کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے بوڑھے آدمی سے درخواست کی۔
”فیصلہ تو لیا ناں  بورڈ نے۔ جب جات والا ہی ہمارے ساتھ دغا کیا، تو کس کے سامنے روئے گا۔ تم کو دیکھنے کو نہیں سکتا، کتنا دُکھی ہے پیلو۔“
”ہاں، دیکھ رہی ہوں پیلو بھائی دُکھی ہیں، لیکن کیا صرف اس لیے کہ انھیں لائبریرین نہیں بنایا گیا۔ پیلو بھائی، کیا آپ کو ان کتابوں کی یاد نہیں آتی جن سے آپ کی اتنی پرانی دوستی رہی ہے؟ کتابیں دینا، لینا، نئی کتابوں کے بارے میں لوگوں کو بتانا، پھٹی کتابیں لوٹا رہے لوگوں کو جھڑکنا، پھر انھیں جلد باندھنے بھیجنا، فائن کی رقم باکس میں ڈالنا، بھٹک گئے پڑھنے والوں کو صحیح شیلف دکھانا، کتابیں جھاڑنا، ٹھیک سے لگانا۔ پیلو بھائی، یہ وقت لائبریری کا ہیڈ کون ہوگا یہ سوچنے کا نہیں ہے، یہ وقت لائبریری کی ڈھال بن کر اسے بچانے کا ہے۔ بلڈوزر تیار کھڑا ہے اور ۔۔“ اس کا گلا رَندھ گیا۔ شاید وہ رو پڑتی اگر پیلو بھائی اس کو زور سے نہ ڈانٹتے۔
”ٹھیک چھے ٹھیک چھے، اکھا پارسی تھیٹر کرنے کا نئی! ابھی چلو!“
”کہاں؟“ مدالسہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
”کیسی لائبریرین ہے رے تو؟ دس بجے لائبریری اوپن ہوتا ہے، یہیچ کواٹر پاسٹ بجا دیا! چلا چلا!“

اس کے بعد تو جیسے سب لائن پر آگیا۔ چھ گرانٹ کی عرضیوں میں سے دو منظور ہوگئیں۔ مدالسہ نے جو دو سرکاری لفافے ایک ہی دن پائے اور چار اور ساڑھے پانچ لاکھ کے سینکشن دیکھے تو فوراً وارڈن صاحب کے دفتر پہنچی۔ انھوں نے دونوں خط پڑھے، بانڈ پر سائن کرکے اپنی مہر لگائی اور اسے شاباشی دیتے ہوئے بولے — ”اب تم چین کی سانس لے سکتی ہو۔“

”ابھی کہاں سر، ابھی تو مجھے کلچر ڈپارٹمنٹ میں سیمینار کے لیے عرضی بھیجنی ہے، پھر مینٹی نینس کی گرانٹ بھی چاہیے اور سر، ایک نہیں، کسی بھی لائبریری میں کم سے کم تین کمپیوٹر ہونے چاہیے۔ ہماری لائبریری سوچ وِچار کا مرکز ہوگی سر، ہماری لائبریری ۔۔“ وہ اسے ایک ٹک گھور رہے تھے۔ وہ کھسیاکر چپ ہوگئی اور دھیرے سے بولی — ”آپ کی لائبریری سر“

”نہیں – نہیں، وہ تو ٹھیک ہے۔ ورکر کو کام کرنے والی جگہ کو اپنا سمجھنا چاہیے۔ تمہاری باتوں سے مجھے کسی اور کا اُتساہ یاد آگیا۔ کرو، کرو، یہ سب کرو، اور بھی بہت کچھ کرو۔ جہاں میری مدد چاہیے ہو، بتانا۔“

جب نئے شیلف، میز، کرسیاں اور کمپیوٹر آئے تو مدالسہ نے کنٹریکٹر کو پٹایا اور اندر ریڈنگ روم میں، باہر فوئر میں، تیز روشنیاں آدھے داموں پر لگوائیں۔ شیلف کی قطاروں کے بیچ بیچ میں  قد آدم  آئینے لگوائے، تاکہ لائبریری کی کتابوں کے صفحات پھاڑتے ہوئے اور چھوٹی کتابیں چوری کرتے ہوئے خود کو دیکھ کر ذرا شرمندہ ہی ہوں۔ جب سارا فرنیچر آگیا تو کانٹریکٹر کے بار بار ’میڈم مر جاؤں گا، کچھ نہیں بچ رہا ہے‘ کے باوجود اس نے کتابوں کے ریک خالی کیے اور سب کو سرخ لال پینٹ کروایا۔ ریڈنگ روم میں نئی ٹائلوں کا فرش لگوایا۔

جب کتابیں نئی رنگی ہوئی الماریوں میں رکھی گئیں، نیا فرنیچر سجا دیا گیا اور اندر باہر سب روشنیاں جگمگانے لگیں تو لائبریری کی شان چوبالا ہوگئی۔ وارڈن خاندان کے ہر فرد نے آکر اس کی تعریف کی۔ مدالسہ کو یقین تھا کہ اب آنے والے لوگوں کی گنتی بھی بڑھے گی اور ممبرشپ بھی۔ پرجوشی کے مارے اس نے تین ہزار ممبرشپ فارم چھپوا ڈالے۔

دھیرے دھیرے اسے احساس ہونے لگا کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہوگئی۔ آنے والوں کی گنتی بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی۔ مٹھی بھر لوگ ممبرشپ فارم لے گئے۔زیادہ تر نے تو فارم لوٹائے ہی نہیں، جنھوں نے دیے بھی وہ کارڈ لینے نہیں لوٹے اور جو اِکّا دُکّا کارڈ لے گئے تھے وہ اس کے بعد نظر نہیں آئے۔ پرانے ممبروں میں سے جو بھولے بھٹکے نظر آتے تھے عجیب طرح سے کھولے ہوئے سے لگتے اور خود کو تلاشنے باہر چلے جاتے۔

مدالسہ عجب الجھن میں تھی۔ ایک دن وارڈن خاندان کی دو عورتیں آئیں۔ خالی لائبریری دیکھ کر طنز سے مسکرائیں — ”جن کے لیے اس طرح کی پبلک لائبریریاں ہوتی ہیں اگر وہ ہی نہیں آئیں گے تو پیسے کی بربادی ہی ہے، چاہے ہمارا ہو یا سرکار کا ہو۔“ دو بار وارڈن صاحب بھی بنا بتائے چلے آئے اور خالی لائبریری دیکھ کر بولے تو کچھ نہیں، مگر اسے ذرا فکرمند نظروں سے دیکھتے ہوئے چلے گئے۔ مدالسہ کھسیاکر رہ گئی۔ کہاں، آخر کہاں اس سے بھول ہوگئی؟ اس کی مارکیٹنگ میں کہیں تو چوک ہوئی ہوگی جو اتنی بڑی تھی کہ اس کا ایسا بھینکر نتیجہ نکل رہا تھا۔
”شاید تم نے ان چیزوں کی مارکیٹنگ کر ڈالی جنھیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔“

ممبروں میں سے جو اب تک آرہے تھے، ان میں سے ایک وہ بھی تھیں۔ ہفتے میں تین چار دن تو ضرور آتیں اور سب سے دور، اپنے اس اندھیرے سے کونے میں جا بیٹھتیں۔ یا تو لکھتیں رہتیں یا تین چار کتابیں ’ناٹ فار ایشو‘ والی لے کر پڑھتی رہتیں۔ مدالسہ نے جب پیلو بھائی والی ان کی ہدایت پر ملی کامیابی کا شکریہ ادا کرنا چاہا تھا تو انھوں نے بات بدل دی تھی۔ جب نیا فرنیچر، لائٹیں، شیلف وغیرہ آرہے تھے تو وہ ہر ایک کے بارے میں بڑی دلچسپی سے پوچھتیں اور مدالسہ ان کی احسان مند ہونے کی وجہ سے انھیں سب تفصیل سے بتاتی۔ وہ خاموشی سے سنتیں اور سنجیدہ ہوکر اپنے کونے میں لوٹ جاتیں۔ شیلف لال رنگ کے ہوں گے — اس پر چونکی ضرور تھی مگر بولیں کچھ نہیں۔ جب ٹائلس لگنے کے لیے ریڈنگ روم بند کیا گیا تو بس اتنا ہی بولیں — ”اتنا چکنا فرش، کہیں کوئی پھسل نہ پڑے۔“ مدالسہ نے ان کی بات کو مذاق سمجھا تھا۔

وہ سامنے کھڑی تھیں، بہت گمبھیر۔ ان کی نظروں میں انتظار تھا کہ وہ ان کی بات سمجھتی ہے یا نہیں۔
”میں کچھ سمجھی نہیں، آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔“ مدالسہ نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
ان کے چہرے پر ایک پل کو مایوسی کی جھلک آئی جسے انھوں نے ایسے پیچھے ڈھکیلا جیسے خود سے کہا ہو — ”اب جو کچھ کرنا ہے، اسے کرنا ہے۔ سمجھنا تو پڑے گا ہی۔“
”دیکھو، یہ سوچ اور وچاروں کا مرکز ہے۔ یہی کہا تھا نا تم نے، یہی چاہا بھی تھا۔ کبھی رُک کر تم نے یہ نہیں سوچا کہ سوچ اور وچاروں کو ٹھہراؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں بدلاؤ آتا ہے، مگر آہستہ سے۔ نئی سوچ کا جنم ہمیشہ ’ایوولیوشن‘ سے ہوتا ہے، ’ریوولیوشن‘ سے نہیں۔ نئی سوچ ’ریوولیوشن‘ لاتی ہے مگر خود اس کی جڑیں ہمیشہ بہت گہرے تجربے میں ہوتی ہیں۔ سوچ کو پنپنے کے لیے، پختہ ہونے کے لیے گریما چاہیے ہوتی ہے۔ سوچنے والوں کو اس بات سے ڈراؤ مت کہ یہاں وہ تیرتے ہوئے، اڑتے ہوئے   گزر جائیں گے۔ جو پرانی سوچ ان کتابوں میں درج ہے، اس چکاچوند میں، اسے ہاتھ لگانے سے ڈر لگتا ہے۔ کہیں وہ بھی کتابوں کے پنّوں کو چھوڑ بھاگ نہ جائے یا کہیں اتنی چمک دمک میں وہ بھی اپنا وزن اپنی گریما کھو نہ دے۔ لوگ اس طرح کی لائبریری میں اپنا دماغی وزن بڑھانے آتے ہیں، جی بہلانے نہیں، ان کی ضرورت کو سمجھو۔“

”لیکن وارڈن صاحب نے تو پہلے پہل کہا تھا کہ ہماری لائبریری ایک خوبصورت مآل کی طرح لگ رہی ہے۔“ مدالسہ کو اپنی اتنی کڑی محنت کی بُرائی بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
”وہ بزنس مین ہیں اور اب سالوں سے تو صرف بزنس ہی کرتے ہیں۔“ ان کی آنکھوں میں سے ایک دُکھ کی پرچھائیں اور غائب ہوگئی۔ ”ہر چیز کی مارکیٹنگ کا الگ طریقہ ہوتا ہے۔ یہ جو ہے ناں  امریکی، ’فورسڈ مارکیٹنگ‘، یہ کتابوں کے معاملے میں نہیں چل سکتی۔ کچھ عجب نہیں جو یہ پڑھنے والے، زبردستی خریدوائی گئی کتابوں کا پلندا تمہارے ہی سر پر دے ماریں۔“
”لیکن اب تو مینٹی ننس کے پیسے بھی نہیں بچے۔ سب کچھ کیسے بدلا جائے؟“
”ہاں، مشکل تو ہے۔ پھر بھی جو کچھ ٹھیک کیا جاسکے وہی کرو۔ سب سے پہلے تو یہ چکاچوندھ والی روشنیاں نکلواکر، ٹھیک شیلف اور میزوں کے اوپر لگواؤ، تاکہ باہر سے آتے ہی ایک جھٹکا نہ لگے۔ اس سے بنتا ہوا موڈ بگڑ جاتا ہے، دھیان بھنگ ہوجاتا ہے۔“
”میں نے تو سوچا تھا پڑھنے میں آسانی ہوگی۔“
”وہی نا! جسے چاہیے وہ جلا لے اپنی ٹیبل پر۔ اور یہ روز کا ایئر فریشنر بند کرو۔ کتابوں کی اپنی مہک ہوتی ہے۔ لائبریری کو اس سے رچنے بسنے دو۔ اگر کبھی کیٹ ناشک چھڑکا جائے تو اگربتی یا لوبان جلواؤ اور ہاں، فرش پر فی الحال ٹاٹ بچھوادو۔“
”ٹاٹ!“ مدالسہ نے حیران ہوکر انھیں دیکھا۔
”ہاں۔ اور باہر ایک بورڈ پر پانچ نئی کتابوں کے نام لکھو جو تازہ ترین آئی ہوں۔ پڑھنے والوں نے نئی کتابوں کے نام دیکھے نہیں کہ ان کی نظریں بس ان کتابوں کو ہی ڈھونڈیں گی۔ ٹاٹ سامنے ہوتے ہوئے بھی انھیں دکھے گا نہیں۔ اور ہاں، ان کمپیوٹروں کا منہ  اپنی طرف کرو تاکہ یہ چمک چمک کر، پڑھنے والوں کو بلاوجہ اپنی طرف متوجہ نہ کریں۔“
”مگر پیچھے سے تو یہ کمپیوٹر بڑے بدصورت لگتے ہیں۔“
”تو ان کے پیچھے پینٹنگس ٹانگ دو۔ اتنا کرو۔ دیکھیں، کیا نتیجہ نکلتا ہے۔“
مدالسہ نے بہت ڈرتے ڈرتے یہ تبدیلیاں کیں۔ لیکن اسے تعجب ہوا کہ پیلو بھائی نے سارے سجھاؤ مان بھی لیے اور انھیں عمل میں لانے میں اس کی مدد بھی کی۔ پھر اس نے چھوٹی چھوٹی گوشٹھیاں کرکے نئے پرانے ممبروں کو بلانا شروع کیا۔ شروع شروع میں تو لوگ کم آئے پھر ان کی گنتی بڑھنے لگی اور کوئی سال بھر کے اندر تویہ حالت ہوگئی کہ لوگوں کو بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں ملتی۔ دن بھر لائبریری میں چہل پہل رہتی۔ کامیابی کا سارا سہرہ اسی کے سر باندھا جاتا مگر مدالسہ جانتی تھی کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ آج تک شاید لائبریری بند ہوگئی ہوتی۔

آج کافی بن سنور کر مدالسہ لائبری کے مین گیٹ پر کھڑی مہمانوں کا استقبال کررہی تھی۔ آج لائبریری کی ایک سو پچاس ویں سالگرہ تھی۔ ملک بھر سے  سکالر، مصنف، سائنس داں، مدرس آرہے تھے۔ اونچی سی ایک کرسی پر وارڈن صاحب بیٹھے تھے۔ پانچ سالوں میں کافی بوڑھے ہوگئے تھے۔ وہ خود بھی تو بڑھاپے کی طرف چل نکلی تھی۔ کم سے کم بالوں کی بڑھتی چاندی تو یہی کہتی تھی۔ وہ ایک ایک سے ملتی، لوگوں کا آپس میں تعارف کراتی، چائے بڑھاتی، لیکن اس کی نظریں بار بار دروازے پر لوٹ جاتی تھیں۔ آخر وہ کیوں نہیں آرہی تھیں؟ اسں نے کتنا اصرار کرکے بلایا تھا، خود ان کے ہاتھوں میں کارڈ تھمایا تھا، یہاں تک کہا تھا کہ اگر وہ نہیں آئیں تو آج کی شام اس کے لیے بیکار ہوجائے گی۔ اور ہو تو جائے گی کیونکہ آج تو سچ بولنے کی شام تھی۔ آج وہ سب کو بتا دے گی کہ اس لائبریری کو پھر سے زندہ کرنے والی، ساہتیہ، کلا، آلوچنا، بحث کا مرکز بنانے والی وہ تھیں، مدالسہ نہیں۔ وہی تو اسے قدم قدم پر اپنی صلاح دے کر سہارا دیتی رہتی تھیں۔ ساری تعریف ان کی ہونی چاہیے۔ نہ جانے انھیں اتنی دیر کیوں ہورہی تھی؟

ایک ایک، دو دو کرکے لوگ جانے لگے۔ دھیرے دھیرے ہال خالی ہوگیا۔ تھکان کے ساتھ اسے فکر بھی ہورہی تھی۔ ایک کونے میں اپنے لیے تازی چائے بنواتے پیلو بھائی کو دیکھ کر وہ ان کی طرف بڑھی۔ پیلو بھائی تپاک سے بولے — ”ارے مدالسہ، اکھا دن کھڑے رہے گا تو کیسے چلیں گے۔ تھوڑا بیٹھنے کا، ایک کپ چائے لے نا!“
چائے لیتے ہوئے وہ بولی — ”پیلو بھائی، وہ آئی تھیں کیا؟“
”کون؟“
”ارے وہی، جن کی میز پر میں اکثر جاکر باتیں کرتی ہوں، وہ کونے کی میز والی۔“
”تیرے کو تو میں نے کبھی کونے کی میز کے پاس کسی سے بات کرنے نہیں دیکھا!“
”کیا کہتے ہیں پیلو بھائی؟ ارے وہی جو میرے ساتھ پوری لائبریری میں ٹہلا کرتی ہیں، تقریباً روز آتی ہیں، کتابیں ایشو نہیں کراتیں بس بیٹھ کر پڑھتی ہیں۔“
اب پیلو بھائی کے چہرے پر پریشانی کی لکیریں اُبھر آئیں — ”مدالسہ، کیا تیرے کو کچھ بیمار جیسا لگ رہا ہے؟“
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ ہی بھلکّڑ ہوتے جارہے ہیں۔ وہ جو ہمیشہ ساڑی پہنے رہتی ہیں، گھنے بالوں کا جوڑا بناتی ہیں ۔۔“ وہ بولے جارہی تھی اور پیلو بھائی ’ہاں ہاں‘ کرتے اسے ہال کے کنارے چلاتے ہوئے، ایک طرف کو پڑے کچھ صوفوں پر لے جارہے تھے، شاید بٹھانے کے لیے۔ انھوں نے ایک ویٹر کو اشارہ کیا اور وہ پانی کا گلاس لے کر اس کے سامنے آیا۔ وہ ہنس کر اپنا دُکھ اور غصہ چھپانے کی کوشش کررہی تھی۔ یہ پیلو بھائی بھی نا — خود سٹھیا گئے ہیں اور دکھا رہے ہیں جیسے اس کا ذہن بھٹک رہا ہے۔ پانی لے کر وہ دیوار کے برابر چلنے لگی۔ دیوار پر بہت ساری تصویروں کی پردرشنی لگائی گئی تھی، لائبریری کی پوری زندگی بیان کرتی، سمیناروں، گوشٹھیوں، مشاعروں، کوی سمیلنوں، لوکارپنوں کی تصویریں۔ مدالسہ ان پر سرسری سی نظر دوڑاتی آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ٹھٹھک گئی۔ ایک گروپ فوٹوگراف میں وہ کھڑی تھیں۔ شریر تو نہیں، پورا چہرہ نظر آرہا تھا۔
”یہ دیکھیے، میں ان کی بات کررہی تھی۔ یہی تو اکثر آتی ہیں اور جب آتی ہیں تو مجھ سے ضرور بات کرتی  ہیں۔ آپ پتہ نہیں کیا سمجھ رہے تھے۔“
پیلو بھائی نے پاس جاکر تصویر دیکھی جب جیب سے چشمہ نکال کر لگایا اور کچھ پل تصویر کو دیکھتے رہے۔

”اب بتائیے۔ یہ آئی تھیں۔ میں نے اتنا کہا تھا، اتنا کہا تھا، آئی تو ضرور ہوں گی……۔“ وہ ہڑبڑاکر چپ ہوگئی۔ پیلو بھائی نے دونوں ہاتھوں سے اس کا کندھا پکڑ لیا تھا — ”مدالسہ، پانچ سالوں میں تم نے کبھی چھٹیاں نہیں لی۔ میرے خیال سے تمہیں لمبی چھٹی پر ہوآنا چاہیے۔“

”کس کی چھٹی کی بات ہورہی ہے؟ مدالسہ کی تو نہیں نا۔“ وارڈن صاحب چھڑی ٹیکتے ہوئے آئے۔ پیلو بھائی نے ایک نظر بھر کر انھیں دیکھا پھر بغیر کچھ بولے پلٹے اور جتنی تیزی سے ان کی بوڑھی ٹانگیں انھیں لے جاسکتی تھیں، باہر نکل گئے۔

”ہاں تو مدالسہ، چھٹی لینے کا پلان بالکل مت کرنا۔ ابھی تو بہت کچھ اور کرنا ہے۔“ وارڈن صاحب بڑی محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہوئے بولے — ”تمہارے ڈیڈی کیشن سے مجھے کسی بہت اپنے کی یاد آتی ہے۔ وہ بھی تمہاری طرح تھی، لیکن جب میں اس سے ملا تب وہ بہت چھوٹی تھی۔ ہوگی کوئی تیئس  چوبیس کی۔ میں بھی چھبیس ستائیں کا تھا، نیا نیا لندن سے پڑھ کر لوٹا تھا۔ وہ یہاں لائبریرین تھی، پہلی نوکری کررہی تھی۔ تب کتابیں کم تھیں، انتظام زیادہ۔ میں اکادھ ہفتے ہی الٰہ آباد رُکنے والا تھا۔ اس کے بعد ممبئی یا کلکتہ کی کسی پارسی کمپنی میں نوکری کرکے وہیں بسنے کا ارادہ تھا۔ ایک دن یوں ہی ادھر چلا آیا، سرسری سی ملاقات ہوئی جو جلد ہی دوستی میں بدل گئی۔ اس کی اُمنگ اور اُتساہ کسی کو بھی اچھوتا نہیں چھوڑتا تھا۔ ہم ساتھ مل کر گوشٹھیاں کرتے، ممبئی کلکتہ سے اچھی فلمیں منگاکر دکھاتے۔ یہ لائبریری آرٹ اور کلچر کے سنٹر میں تبدیل ہوگئی اور ہماری دوسری محبت میں۔“
وہ چپ ہوگئے۔ مدالسہ نے اُتسکتا سے پوچھا — ”پھر تو آپ کی شادی ہوگئی ہوگی؟“

وہ چپ چاپ سر جھکائے اپنی چھڑی کی نوک سے قالین کے ڈیزائن پر لکیریں کھینچتے رہے۔ پھر بولے — ”یہ پریاگ نگری ہے۔ یہاں اس وقت انٹر کمیونٹی میریج نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ کٹّر برہمن خاندان کی تھی، میں اتنے ہی روڑھی وادی پارسی خاندان کا۔ ہم دونوں بھی جانتے تھے کہ ہمارے پیار کی کوئی منزل نہیں ہے۔ ممبئی کے ایک دھنی پارسی خاندان کی اکلوتی لڑکی سے میری شادی کردی گئی۔ ہمارا ملنا کم ہوگیا۔ میں نے الٰہ آباد میں ہی اپنا بزنس سنبھال لیا اور دھیرے دھیرے محبت کی جگہ ایک گہری دوستی نے لے لی۔ اب ہم صرف کتابوں کی، لائبریری کی باتیں کرتے۔ اسی طرح بارہ سال بیت گئے۔

شاید میری بیوی جرو کو کچھ شک تھا کہ میرا دل، پورا اس کے قبضے میں نہیں ہے۔ اس کے ساتھ کبھی رشتے میں ایسا کھلاپن، اتنا اپناپن نہیں آیا۔ ایک بار کسی سے دماغی طور پر محبت ہوجائے، پھر ویسا رشتہ کسی اور کے ساتھ نہیں بنتا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ جرو سے بھی اسی طرح کی تال میل ہو، مگر ناکام رہا۔

پھر ایک دن جرو کو وہ پریم پتر مل گئے اور جیسے سارا قہر ٹوٹ پڑا۔ کیوں رکھ چھوڑے تھے میں نے اس کے لکھے ہوئے خط؟ وہ کم عمر کی نادانی کے دستاویز؟ انھیں جلا دینا چاہیے تھا۔ جو میرے پاس تھا وہ تو ان کاغذوں کے پُرزوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھا۔ میں نے جرو کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ بارہ سال پرانے قصے کو ہوا نہ دے؛۔۔لیکن اس نے جو وبال مچایا — خاندان کے سامنے بکھان، پریس کانفرنس، لائبریری میں آکر اس کے ساتھ گالی گلوج! اُف!

”تو کیا وہ نوکری چھوڑ کر چلی گئی؟“
”یہاں سنگم ہے مدالسہ، جہاں ڈبکی لگاکر پاپ دھوئے بھی جاتے ہیں اور اسی تریوینی میں کوئی کوئی اپنی شرم چھپاتا بھی ہے۔“ وہ دور دیکھ رہے تھے، جیسے ان دنوں کی اپنی تکلیف اور دُکھ کو، کسی تیسرے کی طرح محسوس کرکے آنکنے کی کوشش کررہے ہوں۔ مدالسہ نے ان کی کوہنی چھوئی اور اپنے ساتھ چلنے کے لیے ہلکا سا کھینچا۔ وہ یوں ساتھ چلنے لگے جیسے انھیں ان بیچ کے سالوں کا فاصلہ لانگھنا اچھا نہیں لگ رہا ہو۔

تصویروں کے پاس کھڑی ہوکر مدالسہ نے اسی تصویر کو چھووا اور بولی — ”کیا یہ وہ ہے؟“
وارڈن صاحب نے غور سے تصویر دیکھی اور حیرانی کے لہجے میں بولے — ”تمہیں کیسے پتہ؟ جب یہ حادثہ ہوا اس وقت تم تو بہت چھوٹی رہی ہوگی۔ اسے کیسے پہچانتی ہو؟“
”پتہ نہیں …… بس آپ کی باتوں سے لگا …… شاید یہی ہوں؟“ وہ ہچکچا کر رُک گئی۔ آگے کیا کہے، کیا کرے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وارڈن صاحب کے جھرّیوں بھرے ہاتھ، تصویر میں اس چہرے کے نقوش ٹٹول رہے تھے۔

”میرے پاس ایک بھی تصویر اس کی نہیں ہے۔“ انھوں نے تصویر اتارنے کے لیے دونوں ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ مدالسہ اچانک تصویر اور ان کے بیچ میں آگئی۔
”نہیں! اسے مت لے جائیے۔ یہ غلط ہوگا۔ جب انھیں اس جگہ سے اتنی محبت تھی کہ اسے چھوڑنے کے بجائے انھوں نے مرجانا بہتر سمجھا، تو ان کی تصویر کی  صحیح  جگہ یہ لائبریری ہی ہے۔“
”ٹھیک کہتی ہو۔ اس کی یاد کو تو کم سے کم بے گھر نہیں کرنا چاہیے۔ جانتی ہو، اس میں اور تم میں ایک اور چیز ملتی ہے۔ تم دونوں کے نام بڑے دلچسپ ہیں۔ تمہارا نام مدالسہ اور اس کا ……“ مدالسہ نے ان کے منہ  پر اتنی زور سے ہاتھ رکھ دیا کہ ان کا بوڑھا اور کمزور شریر پیچھے کو ڈگمگا گیا۔
”نام مت بتائیے۔ یہ ان کی یاد کی توہین ہوگی!“
وارڈن صاحب نے اس کا ہاتھ اپنے منہ  پر سے ہٹایا اور دھیرے، بہت دھیرے سے، جیسے خود سے کہہ رہے ہوں، بولے — ”ہاں، اس کا بے نام رہنا ہی ٹھیک ہے۔“

وہ مڑے اور دروازے کی طرف چل پڑے۔ مدالسہ ان سے دو قدم پیچھے پیچھے چل رہی تھی کہ کان میں کسی کی آواز آئی — ”تھینک یو۔“ بغیر مڑے مدالسہ مسکرائی اور بولی — ”صرف تھینک یو سے کام نہیں بنے گا۔ کئی پبلشروں کی سوچی آئی ہے، کتابیں چننی ہیں، پورے سال کے سمیناروں، گوشٹھیوں، بیٹھکوں کا پلان بنانا ہے۔ بہت کام ہے۔ بے وجہ چھٹی مت لیجیے گا۔ کل ملتے ہیں!“

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply