اکیچ بات ہے۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

ممبئی کی جن گنی چنی چیزوں کو نوینہ کو عادت ہوگئی تھی ان میں سے ایک لورا تھی۔ نکلتا ہوا قد، چکنی، گیہواں رنگ، سڈول جسم اور سوالیہ آنکھوں والی گووا کی لورا۔ اصل میں اس کی آنکھوں میں ہمیشہ تیرتے ہوئے سوال نے ہی نوینہ کو اپنی طرف آکرشت کیا تھا۔ وہ سوال، جو جتنا دوسروں سے تھا اتنا ہی اپنے آپ سے۔ پہلی ملاقات میں ہی نوینہ کا دل اس سوال کو جاننے کے لیے بے چین ہوگیا تھا۔
پہلی ملاقات — باندرا میں رہنے والی ایک امیر رشتے دار کے بیڈ روم میں، جہاں نوینہ اجنبی سی داخل ہوئی تھی۔ بہن کہہ کر ملوائے جانے پر لورا نے نظر بھرکر اسے دیکھا اور مسکرائی۔ گود میں بچھے تولئے پر رکھے پاؤں کے ناخنوں پر گھستی ریتی ذرا سا آہستہ ہوئی، پھر زیادہ تیزی سے رگڑنے لگی۔ لیکن اسی ایک پل میں نوینہ نے اس کی آنکھوں کی گہرائیوں میں منڈراتے سوالیہ نشان کو دیکھ لیا تھا اور اس سوالیہ نشان کا سوال کیا ہے یہ جاننے کے لیے اس کا دل بے چین ہوگیا تھا۔
”میم بھی کچھ کروائے گی کیا؟“ اس نے پوچھا۔
”میم پروفیسر ہیں۔ انھیں سجنا سنورنا اچھا نہیں لگتا۔“ امیر رشتے دار نے نوینہ کے انکار کرپانے سے پہلے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے جواب دیا۔
”ایسا نہیں ہے۔ گلوبلائزیشن کے چلتے ہر مال کی پیکیجنگ کرنی پڑتی ہے۔ آج کل تو پروفیسر نہ بنے سنورے تو اسٹوڈنٹس ناک بھنوں چڑھاتے ہیں۔“
”تو پھر کچھ کرا لو، آئی بروز ہی کروا لو۔“ بہن نے صلاح دی۔ لورا نے اس کی طرف دیکھا۔ سطحی سوال ان میں یہی تھا لیکن اس کے نیچے ایک اور سوال تھا۔ نوینہ کی بے چینی بڑھ گئی اور اس نے جلدی سے فیصلہ لیا — ”اپنا موبائل نمبر دے دو۔ ابھی تو میں ذرا جلدی میں ہوں اگر گھر آسکو تو مہندی اور فیشیل تو میں مہینے میں ایک بار کرواتی ہوں۔“
اس نے تولئے سے ہاتھ پونچھ کر اپنا پرس کھولا اور کارڈ نکال کر نوینہ کی طرف بڑھایا۔ کارڈ کے ایک طرف، سفید گاؤن اور ویل میں کم عمر لورا کی تصویر تھی — ”میرا ویڈنگ کا فوٹو ہے۔“
نوینہ نے بھی بیگ کھول کر، اپنا کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔ آنکھوں میں پھر ذرا سا سوال تھا لیکن یہ بھی وہ سوال نہیں تھا جس کا عکس اس کی آنکھوں کے آئینے میں مستقل بنا ہوا تھا۔ زینت باجی کی آنکھوں میں طنز دیکھ کر نوینہ دل ہی دل مسکرائی۔ ان نک چڑھے رشتے داروں کو اسے ایسی حرکتوں سے ستانے میں مزہ آتا تھا۔ بیگ سے دوسرا، لفافے میں رکھا کارڈ نکال کر اس نے ان کی طرف بڑھایا — ”میری نئی کتاب کا لانچ ہے۔ اس کے لیے خوبصورت تو لگنا ہی ہوگا۔“
لورا کی آنکھوں میں پھر سوال کوندھا۔ اس بار نوینہ نے جلدی سے اسے ہٹانے کے ارادے سے جواب دیا — ”میں کتابیں لکھتی ہوں۔ ہر کتاب جب بازار میں آتی ہے تو ایک …… پارٹی ہوتی ہے۔“
سوال مٹ گیا اور پھر وہی سوالیہ نشان صاف جھلکنے لگا۔
”میں تو شاید آ نہ سکوں، پھر بھی کوشش کروں گی۔“ زینت باجی کسی اجرا میں نہیں آتی تھیں۔ کتابوں کے وموچن کم ہی پیج تھری کی رونق بنتے ہیں۔ ہاں، پچیس تیس کتابیں ضرور خرید لیتی تھی جو وہ اپنے دانشور دوستوں میں بانٹ دیا کرتی تھی اور اپنا اور اپنوں کا پڑھا لکھا ہونا جتاتی تھی۔ پرکاشک اس سے خوش ہوجاتے تھے اور نوینہ کی دوسری کتابوں کی ساکھ بڑھ جاتی تھی۔ نوینہ ذرا پریشان سی اٹھی اور حالانکہ اس کا ’پھر بھی آنے کی کوشش کیجیے گا‘ زینت باجی کو مخاطب تھا، اس کی آنکھیں لورا پر تھیں۔ دوسرے دن ہی اس نے لورا کا نمبر ملایا۔ اس کی آواز میں ایک اجنبی اوپچارِکتا تھی۔ پتہ نوٹ کرتے ہوئے اس نے پچاس روپے بھاڑے کے الگ سے مانگے۔ پھر جو کچھ نوینہ کو کروانا تھا، اس کی باریکیاں اور ٹائپ پوچھ کر لکھتی رہی۔ نوینہ کو اس کی صاف گوئی اور پروفیشنلزم اچھا لگا۔ اس کا ٹھیک وقت پر پہنچنا، باتھ روم میں پانی، شیمپو وغیرہ جانچ لینا، خود ایک چھوٹی سی میز صاف کرکے اپنا سامان کھول کر، ضرورت کی چیزیں چھانٹ کر سجانا اور یہ سب کچھ بے حد خاموشی سے کرنا نوینہ کو بے حد پسند آیا۔ چہرے کی تھریڈنگ بھی اس نے بالکل چپ چاپ کی۔ عجیب بات یہ تھی کہ گھر یا کسی اور بات کی جانکاری لیتے ہوئے اس کے چہرے پر کوئی سوال نہیں اُبھرا، مگر وہی ایک سوالیہ نشان اس کی آنکھوں سے جھانکتا رہا۔ آخر وہ کیا جاننا چاہ رہی ہے؟ نوینہ کی بے اطمینانی بڑھی تو اس نے خود ہی بات شروع کی۔
”کہاں رہتی ہو لورا؟“
”سائن کولی واڑا میں …… اپنے ممی پاپا کے ساتھ……“ اس کی صفائی دینے کی ضرورت پر نوینہ کو خود عجیب سی شرمندگی محسوس ہوئی۔ کیوں بدنام علاقے میں رہنے والی ہر عورت کو اپنے چرتر کے بارے میں صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ کیا لورا کی آنکھوں میں بھی یہی سوال تھا؟ نوینہ نے ہاتھ میں تھامے ہوئے آئینے کو ذرا اوپر کھسکاکر اس کے چہرے کو کریدا۔ آئینے میں دونوں کی آنکھیں ملیں۔ نہیں، کچھ اور تھا جو سوال بنا اس کی آنکھوں میں جھانکتا تھا۔
”اور کون کون ہے گھر میں؟“ نوینہ کو اپنی نکتہ چینی پر شرم بھی آرہی تھی مگر وہ خود کو روک بھی نہیں پارہی تھی۔
لورا ذرا سا ہچکچائی — ”آپ کو زینت میم نے تو بتائیائچ ہوگا کہ میں وِڈو ہوں۔ میں اکیس سال کی تھی جب شادی بنایا۔ شادی کے پانچ سال بعد ہی جوزف آف ہوگیا۔“
”آف! مطلب کسی اور کے ساتھ؟“
”ارے نئی! آف بولے تو کھلاس، ختم۔“
”اوہ، اتنی جلدی ڈیتھ ہوگئی۔“
”اپُن ڈیڈ بولے تو اچھا نہیں مانتے۔ ادھر سبھچ آف بولتے ہیں۔“ سات سال ممبئی میں رہتے ہوئے ہوگئے، لیکن ابھی بھی اسے ممبیا زبان میں انگریزی شبدوں کے بدلے ہوئے مطلب سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ نوینہ کو خود پر جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی۔ مہندی لگاکر، اس کے پیر اور ہاتھ گرم پانی میں ڈبوکر، لورا اس کے دو کمروں کے فلیٹ کی دیواروں سے سٹے کتابوں کے شیلف کو دیکھ رہی تھی۔ نوینہ اس کے سوال کا انتظار کررہی تھی جو اسے معلوم تھا ضرور آئے گا۔ اسے اپنے گھر میں ہر نئے آنے والے کے سارے سوال معلوم تھے۔
”اکّھی بُکس آپ پڑھتی ہیں؟“
”نہیں! میں پڑھ چکی ہوں۔“
لورا کی آنکھوں میں سوال پر سوال کوندھ رہا تھا — اتنی کتابیں پڑھ کر آپ کا کیا بھلا ہوا؟ رہتی تو آپ ممبئی سے دور تھانے کے اتنے چھوٹے سے فلیٹ میں ہیں۔ اور تو اور اتنی کتابیں پڑھ کر بھی آپ ایک مرد کو پھنسا نہیں پائی؟ یا پھنسایا تھا اور وہ آپ کے اسی پڑھاکوپنے کی وجہ سے کھونٹا چھڑاکے بھاگ چھوٹا؟ اتنی تیزی سے آتے ہوئے سوال بھی اس سوال کو ڈھک نہیں پارہے تھے جو مسلسل اس کی آنکھوں میں بنا ہوا تھا۔ نوینہ نے پہلو بدلا — ”اور بچے؟“
”دو ہیں نا، ایک بابا ایک بے بی۔ انیچ کے لیے تو یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ دونوں کانونٹ میں پڑھتے ہیں۔ اکّھا بات انگلش میں کرتا ہے۔“ اس نے فخر سے کہا۔ ”میں بھی سینٹ جیویرس کالج میں پڑھاتی ہوں۔“ فخر کی جگہ عزت نے لے لی اور نوینہ نے اس کی آنکھوں میں — ’کیا کبھی میرے بچے بھی اس کالج میں ……‘ کی حسرت پڑھی۔
لورا مہینے میں ایک دو بار آنے لگی۔ اگر نوینہ بہت دن تک فون نہیں کرتی تو وہ خود فون کرکے اسے یاد دلا دیتی کہ اسے فیشیل کروائے یا ہیئر کلر کروائے بہت دن ہوگئے ہیں۔ نوینہ کو معلوم تھا کہ وہ دیر سویر اس سوال کو جان لے گی جو اسے بے چین کیے ہوا تھا۔ آخر وہ یوں ہی سوشیولوجسٹ تھوڑے تھی۔
دھیرے دھیرے اس نے لورا کی زندگی کی کہانی جان لی۔ اس کی جوزف سے لو میریج ہوئی تھی۔ دو سال تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلا پھر جوزف کے ناکارہ پن نے اس پر شکنجہ کسنا شروع کیا۔ وہ ڈاکس کے پاس ایک گودام میں مکادم تھا۔ تنخواہ ٹھیک تھی اور اوپر کی کمائی اچھی۔ لیکن جب وہ چھٹی پر چھٹی کرنے لگا تو مالک نے ڈانٹنا پھٹکارنا بھی شروع کیا اور پیسے بھی کاٹنے لگا۔ ایک دن ’سالا کائے کو بوم مارتا ہے۔ تیری چاکری تیرے فیس پر مارتا میں‘ کہہ کر نوکری چھوڑ آیا۔ شراب کی عادت اسے پہلے بھی تھی، اب لت بن گئی۔ لورا نے بیوٹیشین کا کام شروع کیا۔ جوزف بڑے آرام سے اس کے پیسے تو لے کر شراب میں اڑا دیتا مگر اس کے ادھر اُدھر جاکر کام کرنے پر اس کو گالیاں بھی بکتا، اکثر ہاتھ بھی چھوڑ دیتا۔ حد تب ہوگئی جب اسی کے کمائے پیسوں سے اس نے لڑکی بازی شروع کردی۔ جب اس کی خبر لورا کو چلی تو اس نے جوزف کو آڑے ہاتھوں لیا اور مار کھاتے کھاتے بھی اسے خوب کھڑی کھوٹی سنائی۔ جب لورا نے اس کو یہ کہا کہ ’وہ اگر مین ہوتا تو اپنی کمائی اڑاتا، وائف کی جیب کائے کو کاٹتا؟‘ تو وہ بھنبھناتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا۔ اگلے دن تڑکے سویرے لوٹا اور لورا کے سامنے دس ہزار روپے پھینک کر بولا — ”گھر میں کھٹ کھٹ نہیں مانگتا۔“
”اس کو تو بس منی اور دارو اور چھوکری مانگتا تھا۔ ہم لائف میں ریسپیکٹ، لو مانگتا۔ وہ کدھر تھا اس کے پاس۔ دُکھ میں ہم ڈیلی چرچ جاتا اور خدا باپ سے اکیچ پریئر کرتا — خدا باپ کیسے بھی ہم کو اس سے چھٹکارا مانگتا۔ وہ سِن کے راستے میں جاتا ہے، ہم کو اس کے ساتھ نہیں جانے کا۔ ہمارے بچہ لوگ کو تم دیکھو۔ انھیں سیو کرو۔ روز پرے کرتا مگر خدا باپ نہیں سنتا۔ آخر ہم نے چرچ جانا بند کردیا۔ پھر ایک دن ڈاکس میں کچھ جھگڑا ہوا۔ مال کے پیچھو، کہ پیسے کے پیچھو گاڈ نوز، گولی چلا، تین آدمی مرا۔ جوزف بھی ایک تھا۔ تب میرے کو بڑا دُکھ ہوا۔ میں تو گاڈ کو اسے ٹھیک کرنے کو بولتا تھا، اچھے راستے پر لانے کو مانگتا تھا۔ گاڈ تو اس کو آف ……کردیا!“ لورا کی کہانی کے سارے ٹکڑے جڑکر تصویر پوری ہوچکی تھی۔ اپنے گاڈ کے کیے انیائے پر اس کی آنکھوں پر سوال تھے۔ کیوں گاڈ نے اس کے ساتھ ایسا دھوکہ کیا؟ لیکن یہ بھی وہ سوال نہیں تھا جس کی تلاش نوینہ کو تھی۔
”موت کے آگے کس کا بس چلتا ہے لورا۔ یہ تو اچھا ہے کہ تم خودمختار ہو اور پاپ کی دنیا سے دور، محنت کرکے اپنے بچوں کو پال رہی ہو۔“
”وہ تو سہی، پر میں نے ایک اسٹوپیڈیٹی کردیا نا!“ وہ ڈبوں شیشوں کے ڈھکن بند کرتے ہوئے بولی — ”اتنا سیڈ تھی نہ، اس لیے میں نے جوزف کو کفن پر قسم کھالیا کہ میں ہمیشہ اچ اسی کی رہوں گی۔ میں اور کسی کو کبھی لو نہیں کروں گی۔“
نوینہ کے ہوش نے ہچکولا کھایا۔ منزل قریب تھی، سوال پر سے پردہ اٹھنے والا تھا۔
”تو کیا اب تمہیں کسی سے ……“
لورا ذرا سا لجائی پھر بولی — ”بہت ہی نائس مین ہے میم، ایڈورڈ۔ کبھی دارو نہیں پیتا، سنڈے کو چرچ جاتا ہے، لینٹ میں ایک مہینے کی پگار غریبوں کے لیے ڈونیٹ کرتا ہے۔“
”یہ تو بہت اچھا ہے لورا۔ کیا وہ تجھ سے……“
”وہ تو میرے سے شادی بنانے کو مانگتا۔ پر اپُن نہیں سکنے کو سکتا۔“
”کیوں، کیا تیرے ممی پاپا ……“
”وہ تو آج، ابھی میری شادی کرنے کو راضی ہیں، ریڈی، ایک دم! اصل میں چھوٹی کھولی ہے نہ۔ میں اور دو بچہ چلے جائیں گے تبھی تو چھوٹے بھائی کا میریج ہوسکیں گا۔“
”تب تو سب ٹھیک ہی ہے۔“
”پن وہ مشکل ہے نہ۔“
”وہ کون؟“
”وہیچ جوزف۔“
”جوزف تو کھلاس …… مطلب آف ہوگیا۔ اب وہ کیا مشکل کرے گا؟“
اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری — ”اکھّا مشکل تو میری اسٹوپڈیٹی سے ہے، اب کیا کسی کو بولنا۔ میں نے اِچ جوزف کے کفن پر قسم کھائی کسی کو لَو نہیں کرے گی۔ اسی سے وفادار رہے گی۔“
”جب گہرا صدمہ پہنچتا ہے تو انسان تکلیف میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔ تُو کچھ خیال نہ کر۔ گاڈ تھوڑی یہ سب یاد رکھتا ہے۔“
”گاڈ نہیں یاد رکھے گا پن جوزف تو رکھے گا۔ وہ بھوت بن کر میرے کو ڈرائیں گے، پھر؟ ہمارے میں ایسائچ مانتے ہیں۔“
اس کے معصوم یقین اور بچکانے ڈر پر نوینہ کو ہنسی بھی آرہی تھی، ترس بھی آرہا تھا۔ لورا کی آنکھوں میں وہ سوال بھی برقرار تھا۔ نوینہ نے منزل نہ ملنے کا افسوس جھاڑا اور چلتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہر ہفتے لورا کو بلانے لگی، اس کے ساتھ لمبی لمبی بات کرتی، چائے شربت کے بہانے اسے روکے رکھتی اور ہر بار اسے یہی سمجھاتی کہ وہ بیکار کا ڈر چھوڑکر، اتنے اچھے موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ کام کاجی آدمی، جو عورت سے پیار بھی کرتا ہو اور دوسرے مرد سے ہوئے بچوں کو بھی اپنانے کو تیار ہو، آج کی دنیا میں کہاں ملتے ہیں۔ آخر لمبی کوشش کے بعد لورا نے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایڈورڈ خود نوینہ کے کالج میں آیا اسے نیوتا دیا۔ معمولی کپڑوں میں، مگر صاف ستھرا، شریف اور چالیس پار کرلینے کے بعد شادی رچانے پر ذرا جھینپتا سا ایڈورڈ نوینہ کو اچھا لگا۔ سوال چاہے سامنے نہ آیا ہو مگر ختم ضرور ہوگیا ہوگا۔ اسی یقین کے ساتھ نوینہ شادی میں گئی۔ لورا بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔ دس سال بڑی مگر کافی کچھ اپنی پہلی شادی کی تصویر جیسی۔ خوش بھی لگ رہی تھی اور کافی حد تک مطمئن بھی۔ نوینہ نے اسے گلے لگایا اور پھر الگ ہوکر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کی ہنسی اکایک بجھی۔ بجھی تو لورا نے پوچھا — ”کیا ہوا میم؟“
”کچھ نہیں۔“ اس نے پھر ہنسنے کی کوشش کی اور گروپ فوٹو کروا کر جلدی سے باہر آگئی۔ کیا کہتی وہ لورا سے؟ کہ اس کی آنکھوں میں ایک سوال ہے جو آج بھی برقرار ہے۔ جسے جانے بغیر وہ بے چین ہے۔ شاید لورا کو اس سوال کی موجودگی کا خود بھی پتہ نہیں جو اس کی آنکھوں میں بسیرا کیے ہوئے ہے۔
وقت کے ساتھ نوینہ نے اپنی ملاقات اور بے چینی کو اپنا وہم سمجھ کر پیچھے دھکیل دیا۔ لورا بھی اپنے نئے جیون میں خوش تھی اور کچھ دوسرے سوال نوینہ کے جیون میں ذرا اہم ہوکر سامنے آئے تھے۔ ان میں سب سے ضروری تھا اس کی پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ جس کے لیے اسے اسکاٹ لینڈ کی ایک یونیورسٹی دو سال کی فیلوشپ دے رہی تھی۔
دو کے چار سال ہوگئے اور پتہ ہی نہیں چلا۔ ممبئی لوٹ کر لورا کی یاد نوینہ کو اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے احساس کے ساتھ آئی۔ ممبئی جو مولتہ بالی ووڈ ہے۔ جو شاریرک خوبصورتی، اوڑھنے پہننے کو بہت ترجیح دیتا ہے۔ پرانے نمبر پر کوئی جواب نہیں ملا۔ ان گھروں میں جہاں وہ جاتی تھی اور جن کے نوینہ کے پاس نمبر تھے، وہاں سب جگہ کوشش کرکے دیکھ لیا۔ زینت باجی کے ’کون لورا‘ سے نوینہ کو پکا یقین ہوگیا کہ لورا نے جان بوجھ کر اپنے پرانے گراہکوں سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس نے گھر گھر گھوم کر کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ یا ہوسکتا ہے اس نے کسی بڑے سیلون میں کام شروع کردیا ہو، یا اپنا سیلون کھول لیا ہو۔ ممبئی میں بھلا کسی کو کیسے تلاش کیا جائے۔ یہ نگر تو لوگوں کو نگل کر ڈکار بھی نہیں لیتا۔
کچھ اسی طرح کی بھاؤناؤں پر وِچار کرتے نویانہ اپنا مذاق اڑاتے ہوئے اس سوالیہ نشان کو یاد کرنے لگی جس نے کتنے ہی دن اسے پریشان کیا تھا۔ نہ جانے زندگی کی بھیڑ میں کتنے سوال اپنا جواب مانگتے سامنے آتے ہیں اور پھر کہیں گم ہوجاتے ہیں۔
ایک رات وہ آخر لوکل ٹرین سے تھانے لوٹ رہی تھی۔ بڑے دنوں بعد اس نے ناٹک دیکھا تھا جو امید سے زیادہ لمبا ثابت ہوا اور کافی دیر میں ختم ہوا۔ تقریباً خالی پلیٹ فارم پر رُکتی ہوئی گاڑی کی کھڑکی سے باہر وہ ویران ممبئی کا مزہ لے رہی تھی جو کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بھیندر پر گاڑی رُک رہی تھی کہ اس نے دیکھا — اپنا پرانا سا سوٹ کیس لیے لورا سیکنڈ کلاس کے نشان والے کھمبے کے پاس کھڑی ہے۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے نوینہ گاڑی رُکتے ہی اُتری اور اس ڈبے کے دونوں طرف نظر دوڑائی۔ سیٹوں پر پیر رکھے، دن بھر کے کام سے تھکی عورتیں، گھر پہنچ کر رسوئی سے جوجھنے سے پہلے ایک جھپکی لے رہی تھی۔ وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی ایک ٹک باہر دیکھ رہی تھی۔ نوینہ نے اس کا کندھا چھوا۔ وہ چونک کر پلٹی، پھر اسے پہچانتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے گلے لگ گئی۔ اس نے نائے گاؤں میں ایک چھوٹا سا فلیٹ خرید لیا تھا۔ اب وہ زیادہ کام ادھر ہی کرتی تھی۔ ایک اسٹیشن بعد اترتے ہوئے اس نے اگلے دن آنے کا وعدہ کیا۔
نوینہ بہت دن سے کھوئی ہوئی چیز کے اچانک مل جانے کی خوشی محسوس کررہی تھی۔ لورا ٹھیک ٹھاک تھی، ذرا موٹا بھی گئی تھی، اپنے گھر میں رہ رہی تھی اور سنتشٹھ لگ رہی تھی۔ یہ سب کچھ جہاں ایک طرف نوینہ کو تسلّی دے رہا تھا، وہیں دوسری طرف کچھ کھٹکا سا دل میں چبھ رہا تھا۔ لورا کی پوری شخصیت میں کچھ بدلاؤ آگیا تھا۔ وہ کیا تھا، یہ سمجھنے کی کوشش میں نوینہ ساری رات کروٹیں بدلتی رہی۔ معلوم نہیں کیوں اسے بار بار یہ لگ رہا تھا کہ جو بدل گیا ہے وہ سمجھنا اس کے لیے بہت ضروری ہے۔
لورا سے طے کیے وقت پر دروازے کی گھنٹی بجی۔ نوینہ کو اطمینان سا آیا۔ چلو، ابھی بھی وہ وقت کی پابند تھی۔ پھر جب اس نے پہلے جیسی باقاعدگی سے سب سامان کھولا اور ایک ایک کرکے تیاری شروع کی تو نوینہ کے دماغ نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا — ’جو ہے نہیں اسے ڈھونڈنے کی کوشش مت کرو‘ لیکن دل تھا کہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ پیر پیڈیکیور کرواتے ہوئے اس نے بات چھیڑی — ”لورا، تو ٹھیک ہے نا؟“
وہ مسکرائی پھر بولی — ”ٹھیک بولے تو، میں تو سہی سے ہوں لیکن آپ کی بات غلط ہوگئی میم۔“
”کون سی بات؟“
”وہیچ، جوزف والی۔ آپ نے بولا تھا نہ کوئی بھوت ووت نہیں ہوتا۔ پن ہوتا ہے میم۔ جوزف میرے کو ہانٹ کرتا ہے، اکھّا دن، اکھّی رات!“
ایک پل کو تو نوینہ سکتے میں آگئی؛ پھر سنبھلتے ہوئے بولی — ”ایسا نہیں ہوسکتا لورا، تیرا وہم ہے اور کچھ نہیں۔“
اس نے ایک پل نوینہ کو دیکھا پھربولی، ”نہیں!“
اس کے ایک شبد میں ایسی دڑھتا تھی جس کے بعد بحث ممکن نہیں تھی۔ نوینہ نے بات بدلتے ہوئے کہا — ”ایڈورڈ کیسا ہے؟“
اس کے تیزی سے ریتی گھستے ہاتھ رُک گئے — ”ایڈورڈ ایک دم بدل گیا ہے میم۔ بیوڑا ہوگیا ہے، کام بھی چھوڑ دیا ہے، آج کل تو ایک چھوکری کے پیچھے پیچھے گھومتا ہے۔ کچھ بولے تو مارنے کو آتا ہے۔ پرسوں رات بھی میرے کو بہوت مارا۔ دونوں بچوں کو بھی اکّھا دن ڈانٹتا مارتا ہے۔ بچہ لوگ بھی میرے کو ہی بولتا ہے، کائے کو تم ایسا آدمی کو لَو کریلا، شادی بنایا؟ کچھ پیسہ گھر پر نہیں دیتا۔ اسی لیے میں اکھّا پرانہ کلائنٹ چھوڑ دی۔ کیا جاکے سبیچ کے پاس وہیچ پرانا دُکھڑا، نئے آدمی کو لے کر رونے کا؟ کائے کو دنیا کے سامنے اپنا ہنسی بنانا۔ اِتّا ہانٹ کرتا جوزف، اصل آدمی کی مافق اس کا بھوت میرے کو آکے ڈراتا۔ میرے کو پیٹتا، مار ڈالنے کو دھمکاتا، باہر سے پی کر آتا، گھر میں بھی دارو پیتا، کچھ بولے تو بات پورا کرنے سے پہلے مارنا چالو کردیتا۔“
نوینہ کے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کون مارتا ہے، کون پی کر آتا اور کس کا بھوت ہے؟ سب گڑبڑ ہوا جارہا تھا۔ کیا لورا پاگل پن کی طرف بڑھ رہی تھی؟ کیا اس کا ذہن بھٹک رہا تھا؟ اس نے بات سنبھالنے کی کوشش میں دلاسہ دی — ”تو اسی لیے تو نے سائن کولی واڑا چھوڑ دیا اور اِدھر آگئی۔“ اس نے حامی میں سر ہلایا — ”کیا کرتی میم؟ جوزف کے بھوت سے بھاگنا چاہتی ہوں پن کِتّا بھاگو، بھوت تو بھوت ہے۔ میرے کو اپنا قسم نہیں توڑنے کا تھا۔ دیکھو، کل بھی میرے کو مارا۔“ اس نے اسکرٹ کھسکاکر گھٹنے کے اوپر نیل دکھائے — ”کل جتنا کمایا تھا وہ بھی لے لیا۔ میرا موبائل بھی چھین لیا۔ ٹرین کا پاس نہیں ہوتا تو آج نہیں آسکتی تھی۔“
نوینہ کے برداشت کی حد آچکی تھی۔ ذرا ڈپٹتے ہوئے اس نے لورا کو ٹوکا — ”کیا کہہ رہی ہے لورا؟ بھلا بھوت بھی کہیں مار سکتا ہے اور تیرے پیسے اور موبائل کا بھوت کیا کرے گا؟ وہ تو ضرور ایڈورڈ نے ہی لیا ہوگا۔“
”وہیچ تو میں بولی میم۔“
”کہاں؟ تجھے مارا پیٹا ایڈورڈ نے، شراب پی کر بیوڑا ہوتا ہے ایڈورڈ، تیرے گاڑھے محنت کی کمائی چھین لیتا ہے ایڈورڈ۔ نٹھلّا آوارہ ہوگیا ہے ایڈورڈ۔ تجھے دھوکہ دے کر لڑکی بازی کررہا ہے ایڈورڈ! بول، ٹھیک ہے کہ نہیں؟“
”ٹھیک ہے میم۔“ وہ سادگی سے بولی۔
”تب! جوزف کا بھوت کبھی تجھے دِکھا؟ کبھی تجھ سے بات کی؟ کبھی تیرا وعدہ یاد کراکے تجھے دھمکایا ڈرایا؟“
”نہیں۔“ اس نے بات مانتے ہوئے انکار کیا۔
”تو پھر دونوں کو ملا کیوں رہی ہے؟“
وہ ایک پل چپ رہی پھر سونی آنکھوں سے نوینہ کو دیکھتے ہوئے بولی — ”جیسا وہ تھا، ویسا یہ بھی ہوگیا ہے۔ جیسا دُکھ وہ دیتا تھا یہ بھی دیتا ہے، جتنی ذلیل میں اس کے کارن ہوتی تھی اس سے بھی ہوتی ہوں، برابر ہے نہ میم؟ تب یہ مجھے دھمکائے یا وہ مجھے بھوت بن کر ڈرائے بات تو اکیچ ہوئی نا؟ میرے لیے تو دونوں اکیچ ہوئے نا؟“
نوینہ جیسے چونک کر جاگ پڑی تھی۔ یہی تو بدلا تھا لورا کی شخصیت میں۔ اب اس کی آنکھوں کی گہرائی سے کوئی سوال نہیں جھانک رہا تھا۔ ایک معمولی، محنتی، پیار کرنے والی اور بدلے میں تھوڑا سا پیار چاہنے والی عورت کی زندگی میں کیا کبھی کچھ بدلے گا؟ شاید ان آنکھوں کا سوال یہی تھا۔ جواب پاکر سوال غائب ہوگیا تھا۔
m

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply