گھر کا پتہ۔۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

کامنی ہر تیسرے چوتھے دن، شام کو لگنے والے اس بازار میں آتی تھی۔ کالونی کے گیٹ میں داخل ہونے سے پہلے، ذرا آگے کو بڑھ کر لگنے والا یہ بازار تھا بڑے آرام کا۔ تازی سبزیاں اور موسمی پھل تو مل ہی جاتے تھے، ساتھ میں پلاسٹک کی بالٹیاں، مگّے، صابن دانیاں وغیرہ بھی مل جاتے۔ گرم گرم مُرمُرے، گجک، نمکین، مونگ پھلی، چاشنی ٹپکتی جلیبی اور وہ سموسے، جن کے مصالحوں کا اصلی مزا اگلی صبح کو ہی پتہ چلتا تھا، اپنی طرف للچاتے۔ پریشر کوکر، سلائی مشین، گیس کے چولہے کی مرمت کرنے والے بھی اپنی بساط بچھائے ہوتے، ایک موچی کا ٹھیا بھی تھا۔ کبھی کبھار چوہے مارنے کے زہروالا، چاقو چھری دھارنے والا اور لکڑ ہضم پتھر ہضم چورن والے بھی اپنی سائیکل پر ٹکر جاتے۔ غرض یہ کہ گھر کی روز کی ضرورتیں اور ٹوٹ پھوٹ نمٹ جاتی۔ پھر وہ جہاں چارٹرڈ بس سے اترتی تھی وہاں سے یہ بازار دو قدم پر تھا۔ بھلا اس سے سہولیت اور کیا ہوسکتا تھا؟

ویسے اس کی کالونی کے بالکل برابر میں، اشتہاروں کے مطابق، ایشیا کا سب سے بڑا مال تھا، جسے اس کی انگریزی آنرز کررہی بیٹی بار بار ’مول‘ کہہ کر اس کا تلفظ سہی کروانے کی ناکامیاب کوشش کرتی تھی۔ لیکن بات یہ تھی کہ مال جانے میں بڑا رکھ رکھاؤ درکار ہوتا  تھا ۔ کپڑے بدلو، ساڑی سے بلاؤز میچنگ بھی ہو اور استری کیا ہوا بھی، سینڈل میچنگ ہو، چوڑیاں بوندے، یہاں تک کہ نیل پالش میچنگ ہو اور ذرا سی بھی اُکھڑی نہ ہو۔ اس میچ باکس بننے میں کامنی کو بے حد کوفت ہوتی۔ یہ کوفت مہینے میں ایک بار تو اٹھائی جاسکتی تھی لیکن ہر دوسرے تیسرے دن۔۔۔؟۔ ویسے ایسا کرنا ضروری تھا، یہ وہ بھی مانتی تھی۔ ورنہ تو مال کی تیز چوندھیا دینے والی روشنی میں کھڑی، مینکون سی لگتی سیلز گرل ایک نظر اس کی ’سر جھاڑ منہ  پھاڑ‘ صورت پر ڈالتی اور دوسرے کسٹمر سے، جو درجے میں اضافہ ہوکر اب ’کلائنٹ‘ کہلانے لگے ہیں، مخاطب ہوجاتی۔ ویسے ان سڑکی بازاروں میں بھی آج کل جنریٹر لگاکر، بجلی کی روشنی ہے لیکن صاحب ان ٹمٹماتے بلبوں میں اتنی تاب کہاں جو دن بھر کی ملی دلی ساڑی اور باسی میک اَپ والے چہرے کا سچ بتادیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بچپن سے ماں نے سکھایا تھا — ”عزت رہے گی تو گیا بھی لوٹ آئے گا اور اگر عزت گئی تو مانو سب گیا!“ اب بھلا کامنی کیسے نہ چنتی ایسی جگہ جہاں اس کی عزت کی پٹاری کی چندیاں نہ بکھرتی ہوں۔
آج بھی وہ تیز تیز چلتی ہوئی اس عورت کے سامنے سے گزرتی۔ چار اینٹوں کی پیڑھی پر اپنے بھاری بھرکم کولہوں کو ٹکائے وہ زمین پر طرح طرح کے ساگوں سے گھری بیٹھی تھی۔ کوئی تین ہفتے پہلے تک اس کی دکان پر اچھی خاصی رونق رہا کرتی تھی۔ لیکن تب سے، ایک اور سبزی والا، ساگ کاٹنے کی مشین لے آیا تھا اور ایسا باریک ساگ کتر کر دیتا تھا کہ ساگ پکانے کا کوئی جھنجھٹ ہی نہیں رہ گیا تھا۔ کامنی بھی اُسی کو نشانہ بناکر، اس کی آنکھیں بچاکر نکلنا چاہ رہی تھی کہ اس نے آواز دی —
”کا بی بی جی آج ساگ نہیں لے ہے؟“
”پرسوں ہی تو تمہارے یہاں سے پالک لیا تھا بھئی۔ آج ساگ نہیں چاہیے، دوسری سبزی لیں گے۔“
”تون چنے کا ساگ لے جائیے نا۔ موسم کا پہلا پہل آوا ہے۔“
کیا چنے کے ساگ نے کامنی کی یادداشت کے کچھ تار چھیڑے تھے یا اس کی بولی نے۔ اس نے تو اتنی بار اس سے ساگ خریدا تھا لیکن کبھی نہ تو ٹھیک سے سنا تھا نہ نظر بھر دیکھا تھا۔ وہ رُک گئی اور لوٹتے ہوئے بولی — ”کیا پورب کی ہو؟“
لال لال، پان کھائے ہونٹ سکڑے، پیچھے کو منہ  کرکے اس نے پِچ سے پیک تھوکی اور پرانی چھینٹ کی، بدرنگ مگر صاف ساری کے آنچل سے منہ پونچھ کر بولی —”آپ بھی کا ہمرے جوار کی ہیں؟“
جواب میں کامنی نے سوال کیا — ”کون ضلع؟“
”ضلع تو رائے بریلی اور آپ؟“
”ہم تو بارابنکی کے ہیں۔“
”ارے تو کون دور ہیں، اگلے بگلے ہی تو ہیں۔ بارابنکی کی ہیں اور پوس میں چنے کا ساگ نہیں کھات ہیں، ای بھلا کیسن؟“
اس کی بڑی بڑی، کاجل بھری آنکھوں میں شک کی لہریں ہلچل کرنے لگیں، کامنی کو لگا اسے جلدی سے صفائی دے دینی چاہیے ورنہ تو اس پر دھوکہ دھڑی کا الزام لگ جائے گا کہ وہ غلط ضلع بتاکر، ایک ساگ والی کے نزدیک ہونے کی کوشش کررہی ہے۔
”کیا کریں، گاؤں چھوڑے تو زمانہ ہوگیا۔ اب تو لکھنؤ بھی چھوٹے برسوں ہوگئے۔“
”ارے تو کا بھوا، ساگ تو ہئیے نہ۔“ وہ ترازو سنبھال کر، چنے کے ساگ کے گٹھر سے مٹھی بھرنے لگی۔
”نہیں – نہیں، ہم لیں گے نہیں۔“
”کاہے؟ بڑا نیِک ہے، ایک دم کڑیل۔“
”ہمیں بنانا کہاں آتا ہے ہے بھئی، جو لے لیں۔ جب تک اماں تھیں، وہ بناکر کھلادیتی تھیں، ہر جاڑے میں تین چار بار۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ، کاٹیں کیسے، بگھاریں کیسے؟“
اب اس کی آنکھوں میں شک کی جگہ حیرانی نے لے لی۔
”کا کہت ہو بِٹیا، جون جاڑا چنے کے ساگ اور بیسن کی روٹی کے بِنا گزرجائے اُو کونو جاڑا بھوا؟ موسم میں موسم کا مزا نہ لیجیے گا تو رِیتو بدلنے کا فائدہ کا؟ سنئے، ہم سب سکھائے دیتے ہیں۔ دیکھئے پہلے تو ساگ کے اچھی طرح دھو لیجیے گا۔ کاٹے کے بعد کبہوں نہ دھوئیے، نہیں تو کھٹاس سب ختم ہوئی جات ہے اور بھیٹامن بھی سب ناس ہوئی جئیہیں۔“
”بھیٹامن؟“ کامنی نے ذرا حیرت سے پوچھا۔
”ہاں ۔۔ آں۔۔ وئی جاکے مارے ڈاکٹر سب ساگ کھائے کے کہت ہیں۔“
”اچھا اچھا، وٹامن!“
”ہاں، اُوکے انگریزی یا بھیٹامن کہت ہیں۔ تو دھوئے کے کچھ گھڑی پلاسٹک کی ڈلیہ میں رکھ دیجیے، پانی سب نتھر جائے۔ پانی نتھرے کے بعد باریک باریک کاٹ لیجیے۔“ کامنی کی حسرت بھری نظریں مشین کے ساگ والے کی طرف مڑتے دیکھ وہ جلدی سے بولی — ”ویسن نہیں جیسے گائے بیل کا چارہ کاٹت ہیں۔ ایسن مٹھی میں دھر کے یوں یوں یوں، سمجھی؟ اُو کے بعد کڑھائی میں تنی کڑوا تیل ڈال دیجیے۔ ہمرے اُدھر تو کڑوا تیل کہتے ہیں، ہیاں جانے سروں کا تیل کا، مونگ پھلی کا، پھلانے کا، ڈھماکے کا۔ ارے آدمی اور تیل دو ہی ہوت ہیں۔ کڑوا اور میٹھا۔ مہین مہین کاٹ کے ایک ٹھو پیاز ریڈی رکھیے۔ جب تیل جلنے لگے تو اس میں چھوڑ دیجیے۔ جلائیے گا ناہیں، بس گلابی جیسن۔ پھر تین چار سوکھا مرچہ اوہی میں ڈار دیجیے اور لال ہونے دیجیے۔ کب تلک؟ جب تلک دھواں نہ پھوٹے اور چوکے باہر لوگ چھینکنے نہ لگیں۔ بس تبہئی ایک چٹکی ہینگ گرا دیجیے۔ بس اب ساگ چھونک دیجیے اور خوب بھونجئے۔ اِتّا کہ سب پانی سوکھ جائے اور ساگ کڑھائی چھوڑ دے۔ اب ڈاریے نیمک اور ہلدی اور کوٹی لال مرچ۔ پھر بھونئے، پھر کاہے؟ نیمک پڑ کے پانی نہ چھوڑیئے؟ اِتّا بھونجئے کہ تیل دِکھنے لگے۔ اور گرماگرم ہی کھائیے، نہ تو ٹھنڈا ہوئیکے چنے کا ساگ بھلا کونو کام کا؟ اور ساتھ میں رکھئے بیسن کی موٹی موٹی روٹی، دیسی گھی ما چُپڑی ہوئی۔ بیسن کی روٹی تو بنانا جانت ہیں نہ، نہ تو اوہو سکھئے کے پری؟“
کامنی جلدی سے نہ میں سر ہلا رہی تھی کہ ایک گاہک نے اس سے سوال کیا — ”پالک کیسے لگا رہی ہو — ہیں؟“
شاید وہ دیر سے کھڑا تھا اور دوسری یا تیسری بار پوچھ رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بولی۔ ”جون آگے ساگ کی دُکان ہے نہ ہواں سے لیئی لیؤ۔“
گاہک ذرا اڑیل تھا، بولا — ”کیوں، تمہارے پاس بھی تو ہے تو بیچتی کیوں نہیں ہو؟“
وہ کمر سے ایک ہاتھ ہٹاکر نچاتے ہوئے بولی — ”وہ، دیکھت نہیں ہو، جروری کام کرت ہیں۔ ہمرے پاس ٹیم ہے کا؟“
”کیا ضروری کام کررہی ہو تم؟ گاہک اڑیل کیا پورا اڑیل اٹّو تھا۔
”تمہرے سمجھے کا ناہیں ہے نا۔ کاہے ہجت کرت ہو؟ ہاں ہم کا کہت رہے؟ سب بات ہِرائیے دیہن …… ہاں، گرم ہی کٹوری ماں پروسئیے اور اوپر سے ایک پور دیسی گھی ڈار کے بھتار کو کھلائیے، انگلی نہ چاٹے تب کہیے۔ اور ہاں، تازہ گڑ ساتھ میں ضرورے رکھئے، بال گوپالن کے لیے ۔۔“
وہ سمجھا سمجھاکر ساگ تول رہی تھی اور کامنی سوچ رہی تھی، ٹھیک ہی تو کہا تھا اس نے۔ وہ ایک اپنی ہی جیسی کو، جو مہانگر میں آکر بھٹک گئی تھی، گھر کا پتہ بتا رہی تھی۔ بھلا اس سے ضروری اور کام کیا ہوسکتا تھا؟

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply