شروعات۔۔ڈاکٹر نورظہیر

ساحرا ندی کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ اس کے سامنے سے، ندی کا کنارا کاٹ کر ایک تیز سوتا، پاس ہی کی پن چکّی میں جارہا تھا۔ پن چکّی کی ’کھرر ہُن، کھرر ہُن‘ اسے صاف صاف سنائی دے رہی تھی۔ شاید ابھی ابھی کسی نے گیہوں ڈالا تھا۔ اس نے ندی کے دونوں طرف نظر دوڑائی۔ ایک عورت ندی کے کنارے کلٹا رکھے، اس میں سے کپڑے نکال کر، صابن گھِس رہی تھی۔ گیہوں بھی شاید اُسی نے پن چکّی میں ڈالا ہوگا۔ ساحرا نے اپنے دُکھتے ہوئے گھٹنوں پر ہاتھ رکھا اور کھڑی ہوگئی۔ ابھی تو سروری ندی کی ڈِپّی پار کرکے دوبارہ چڑھائی چڑھنی تھی، تب کہیں جاکر پکّی سڑک آئے گی، جہاں سے بھوٹی سے آنے والی سوا چار بجے کی آخری بس ملے گی۔

یہ ’لگ‘ ویلی تھی۔ الگ پڑنے والی ویلی کو پہاڑی تلفظ میں کردیا گیا ’لگ‘۔ کلّو شہر سے بہت دور نہیں تھی یہ ویلی، مگر اس کو تحصیل سے جوڑنے والی سڑک ابھی کوئی دو سال پہلے ہی بنی تھی۔ اسی سروری ندی پر تین جگہ پل باندھ کر یہ سڑک بنائی گئی تھی۔ ساحرا کو ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے، کلّو کے  سکولوں میں تہذیبی قدروں کو بڑھانے کی  سکیم کے تحت بھیجا گیا تھا۔ دور، بکھرے پڑے گاؤں کے  سکولوں میں، ڈرامے کے ذریعہ بچوں میں ہندوستانی قدروں کی تعلیم اور تعظیم کرانا۔ کام مشکل ہوگا، یہ اسے معلوم تھا۔ میدانی علاقوں کی رہنے والی، اسے پہاڑوں پر چڑھنے اُترنے کی عادت پڑنے میں تھوڑا وقت تو لگے گا۔ ڈگی لگ گاؤں کا انتخاب بھی اس نے اپنی مرضی سے ہی کیا تھا۔ نو کلومیٹر بس کا سفر اور پھر ڈھائی کلومیٹر کی چڑھائی کے بعد، ایک چوٹی کی سپاٹ زمین پر بنا مڈل  سکول۔ پہلی بار تو اس کے ہر جوڑ اور گوشت پوست کو مزا آگیا۔ سارا بدن ایسے چرمرانے لگا جیسے اس کی نانی کہا کرتی تھی — ”بِٹیا ہاڑ ہاڑ پرات ہے۔“ لیکن ڈگی لگ گاؤں اور اس کے چاروں طرف کے قدرتی مناظر نے اس کا دل موہ لیا۔ اس لیے وہ ان مشکلوں کے بعد بھی، ڈی ای او کے سجھاؤ پر سکول بدلنے کو راضی نہیں ہوئی۔

مگر جانے آنے کی تکلیف، چڑھائی اُترائی، سرکاری  سکول کی ٹیچروں کی بے رخی، ایک آدھ کی فقرے بازی، سب جھیلنے کے بعد، یہ ایک ایسی مشکل تھی جسے وہ پار نہیں کرپا رہی تھی۔
اسکول کے پاس جگہ بہت تھی، مگر کمرے کم تھے۔ کچی عمارت میں کل ملاکر پانچ کمرے تھے جن میں سے چار میں آٹھ کلاسیں چلتی تھیں اور ایک اسٹاف روم تھا۔ ہیڈماسٹر نے ہر کلاس کے دس منٹ کم کرکے، ڈرامہ کیمپ کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ تو الگ کردیا تھا لیکن کمرے وہ کہاں سے لاتی۔ ساحرا نے سب سے پہلے تو  سکول کے بیچ میں چھوڑی گئی جگہ، جو بچوں کے کھیلنے کے کام میں آتی تھی وہیں کیمپ لگایا۔ لیکن ناٹک کا شور کلاسوں میں جاتا اور پڑھ رہے بچوں کا دھیان بانٹتا۔  سکول کے پیچھے کی جگہ تھی تو بہت سندر، دیودار اور چیڑ کے جنگلوں سے گھری ہوئی، مگر اس میں گاؤں کے لوگ اپنی گائے بکریاں بھی چراتے تھے۔ جیسے ہی ناٹک کی خبر پھیلی وہاں بھیڑ جمع ہونے لگی۔ پہلی بار ناٹک کررہے بچے ویسے ہی ڈرے ہوئے  سے تھے۔ جان پہچان والوں کی بھیڑ دیکھ کر ایسا گھبرائے کہ آدھے سے زیادہ نے تو کیمپ سے اپنا نام واپس لے لیا ۔ جو بچ گئے ان کے منہ  پر تالے لگ گئے۔ گاؤں کے بے روزگار لڑکے، جن کے سر گائے بکری چرانے کا کام مڑھ دیا جاتا تھا، گروہ بناکر ان بچوں پر  طعنہ کشی کرتے، پھبتیاں کستے۔ تین دن سے لگاتار یہ ہورہا تھا کہ وہ سب بچوں کو جمع کرکے، ریہرسل کرنے کی کوشش کرتی اور دو گھنٹے ان لونڈے لپاڑوں کو ڈانٹ پھٹکارنے، بھگانے میں گنواکر، بنا کچھ کام کیے، پریشان لوٹ آتی۔

انہی  سب مشکلوں کے بیچ، ایک چھٹی کلاس کا لڑکا چیتی رام اس کا ساتھی بن گیا۔ گاتا بہت اچھا تھا۔ دو تین دن کے بعد، نیچے بس سٹاپ کے پاس ہی مل جاتا اور پھر چڑھائی پر، کہے بغیر ساحرا کا بیگ لے لیتا۔ ورک شاپ ختم ہونے کے بعد، ساتھ ہی ندی تک لاتا اور اکثر کپڑوں کا کلٹا یا سوکھی لکڑیوں یا گھاس کا گٹھر لیے لوٹتی ہوئی اپنی ماں کے ساتھ واپس چلا جاتا۔ ان کا گھر گاؤں سے ذرا الگ، بائیں کو چل کر، دس بارہ گھروں کے جھنڈ میں تھا۔ بھارت کے گاؤں میں طبقہ در طبقہ کی موجودگی کو جانتے ہوئے ساحرا سمجھ تو گئی تھی کہ یہ شیڈول کاسٹ کی بستی ہے لیکن اسے اہمیت نہ دینا یا نکارنا، اس نے اپنے حساب سے تہذیبی قدروں کا ضروری انگ سمجھا تھا۔

وہ ماں کے ساتھ اکیلا رہتا تھا۔ اس کا باپو گرمیاں شروع ہوتے ہی، آس پاس کی بھیڑیں لے کر لاحول  سپیتی کی طرف چلا جاتا اور جاڑوں کے شروع میں ہی لوٹتا۔ آمدنی کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ جب پھل بِکنے لگتے تو مہینہ دو مہینہ توڑن کے وقت، پلم، خوبانی، ناشپاتی اور سیب، کلٹا بھر بھر کر نیچے سڑک تک پہنچانے کا کام مل جاتا۔ تھوڑی سی زمین تھی جس پر سبزی اُگتی تھی۔ چیتی رام پڑھنے میں تیز تھا۔ پورا ناٹک بھی چار دن کے اندر یاد کرلیا۔ سب کے ساتھ ہنستا بولتا، ساری ٹیچرز اسے کام دے کر دوڑاتیں رہتی اور اس کی تعریفیں کرتی رہتیں۔

چیتی رام بھی ان وجوہات میں سے ایک تھا جن کے چلتے وہ ڈگی لگ اسکول چھوڑنا نہیں چاہتی تھی، مگر اب ایسا لگنے لگا تھا جیسے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
یہی سوچتی ہوئی وہ سڑک کے کنارے پر آکر کھڑی ہوگئی۔ ابھی بس آنے میں پندرہ منٹ تھے۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کیا جائے کہ اسے سنائی دیا ”میڈم! میڈم!!“ وہ پلٹی اور چائے کے گلاس سے ٹکرا گئی جو اسے تھامے ہوئے ہاتھ پر چھلک گیا۔ ”سوری“ کہتے ہوئے اس نے جلدی سے گلاس لے لیا، پھر ذرا کھسیاکر بولی — ”چائے میرے لیے ہے؟“
لڑکا  اپنی  گھسے ہوئے پتلون پر ہاتھ پونچھتے ہوئے بولا — ”ہاں جی، ہاں جی، ٹھاکر صاحب نے بھیجی ہے جی۔“
پینتیس سال کی ساحرا کو معلوم تھا کہ وہ دیکھنے میں اچھی نہیں تو بُری بھی نہیں ہے۔ اکیلی انجان علاقوں میں گھومتی ہے، یہ بات بھی پھیلتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اب یہ ٹھاکر صاحب کیا چیز ہیں؟ اس نے پلٹ کر سڑک کے کنارے بنی ہوئی چائے کی دکان پر نظر ڈالی۔ ایک لمبے سے خوبصورت، چالیس کے قریب عمر، ہماچلی ٹوپی، کرتا پاجامہ پہنے ہوئے شخص نے دونوں ہاتھ جوڑکر نمسکار کیا۔ وہ بڑھی اور ان کے سامنے والی بینچ پر بیٹھ گئی۔ اس کی بے باکی پر وہ پل بھر کو حیران ہوئے، پھر مسکراکر بولے — ”چائے لیجیے میڈم جی!“
”ہاں چائے کی بہت ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ میں ……“
”آپ ساحرا زیدی ہیں۔ میں جانتا ہوں۔“
”تو اپنے بارے میں بتا دیجیے۔“ ساحرا نے پوچھا۔
”میں رگھوویر سنگھ ٹھاکر ہوں۔ ڈگی لگ گاؤں کا پردھان۔ آپ کو پچھلے آٹھ نو دن سے ادھر سے جاتے دیکھ رہا ہوں۔ اچھی پریڈ ہورہی ہے آپ کی بھی۔“
اس کی چڑھائی اُترائی کو پریڈ کہا جانا ساحرا کو اچھا لگا۔ زور سے ہنسی۔ وہ ذرا سا جھینپ گئے اور گورے گالوں پر دو گلابی چکتّے نظر آنے لگے۔
”دیکھیے، کتنے دن یہ پریڈ کرپاتی ہوں۔“
”کیوں جی، کیا آپ کا کام ختم ہوگیا؟“ انھوں نے ذرا اُتکستا سے پوچھا۔
”شروع ہی کہاں ہوا۔ شروع ہونے کی امید بھی نہیں ہے۔“
”ایسا کیوں میڈم جی؟ کیا  سکول کے ٹیچر کوآپریٹ نہیں کررہے ہیں؟“
”نہیں – نہیں ایسا نہیں ہے۔“ پھر اس نے ٹھاکر صاحب کوپوری بات سمجھانی شروع کی۔ آدھی بات ہوئی تھی کہ بس آگئی۔ وہ جلدی سے دوڑکر چڑھ ہی رہی تھی کہ پیچھے سے اس کا بھاری،  سکرپٹوں بھرا بیگ کندھے سے کسی نے لے لیا۔ عام طور سے اسے کھڑے کھڑے باشنگ تک جانا پڑتا تھا، جہاں آدھے سے زیادہ سواریاں اترتی تھیں۔ آج چونکہ پردھان جی ساتھ تھے، خود بخود دو سیٹیں خالی ہوگئیں۔ بیٹھتے ہی انھوں نے پھر بات کی ڈور پکڑی اور پورے راستے سوال پوچھتے رہے۔ کلّو اترکر ساحرا کو خیال آیا کہ یہ تو ’لگ‘ ویلی کی آخری بس ہے۔ اب پردھان جی واپس کیسے جائیں گے؟
”او جی یہ پہاڑیا پیدل ہی نکل لے گا۔ دو سال پہلے تک تو ہم کلّو پیدل ہی آتے جاتے تھے۔“ وہ جلدی سے پلٹے اور ڈھال پور کی ڈھلان پر رینگ رہی خریداروں کی بھیڑ میں غائب ہوگئے۔

اگلے دن صبح، جب وہ بس سے اتری تو وہ چائے کی دکان کے باہر کھڑے تھے۔ ساحرا ذرا چوکنّا ہوئی۔ یہ ضرورت سے زیادہ ہورہا تھا۔ تیزی سے، دکان کو اَن دیکھا کرتی ہوئی اوپر کی طرف جانے والی پگڈنڈی کی طرف بڑھ رہی تھی کہ وہ لپکتے ہوئے آئے اور ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بولے — ”ایسا ہے میڈم جی، میں نے آپ کی پرابلم کا حل نکال لیا ہے۔“
”کون سا پرابلم، کیسا حل؟“ ساحرا نے ذرا رُکھائی سے پوچھا۔
”وہ جی کمرے والی ۔۔ایک کمرے کا انتظام ہوگیا ہے، سکول کے پاس ہی۔“
”کیا! کہاں؟ کیسے؟ کون؟“
اس کی خوشی بھری حیرانی پر وہ ویسے ہی ذرا سا جھینپ کر ہنسے۔  سکول کے پاس پہنچ کر انھوں نے الگ جارہی پگڈنڈی کی طرف اشارہ کیا۔ کچھ دور چل کر پگڈنڈی مڑگئی اور سامنے ایک نئے مکان پر آکر ختم ہوگئی۔ اسی مکان کی پہلی منزل پر ایک بڑا سا کمرا تھا۔ صاف ستھرا اور ہوادار۔
”میڈم جی، یہ کمرہ  آپ کے کام کے لیے چلے گا؟“
”چلے گا؟ یہ تو ایسا دوڑے گا کہ کہیں اسے اولمپکس میں بھیجا جاسکتا ہوتا تو میڈل جیت لاتا۔ کون مجھ پر یہ اُپکار کررہا ہے؟“
وہ ذرا بگڑ گئے — ”اُپکار آپ پر کیوں؟ اُپکار تو آپ کررہی ہیں اس گاؤں پر۔ کیا میں اتنا بھی نہیں کرسکتا؟“
”تو یہ گھر آپ کا ہے۔ نیا بنا لگتا ہے، یہیں رہتے ہیں آپ؟“
”نہیں جی، ابھی تو بنوایا ہی ہے۔ میں تو نیچے گاؤں میں رہتا ہوں۔ ابھی تو یہاں کوئی نہیں رہتا۔ بعد میں شاید چھوٹا بھائی اور اس کے بال بچے یہاں آجائیں۔“
”آپ کا کیسے دھنے  واد کروں پردھان جی؟“
”نہ کیجیے۔ آپ کو ٹھیک دو بجے کمرہ کھلا مل جائے گا۔ جاتے ہوئے آپ بند کرکے کسی بھی لڑکے کو چابی دے دیجیے گا۔ کوئی اور ضرورت ہو تو بتائیے گا۔“
کام تیزی سے چل پڑا۔ کچھ ٹیچروں نے بچوں کے  سکول سے باہر جانے پر ذرا پریشانی جتائی تھی، لیکن گاؤں پردھان کے خلاف بولنے کی ان کی ہمت نہیں پڑی۔ ساحرا تو ان کی اتنی احسان مند تھی کہ اس نے پردھان رگھوویر سنگھ ٹھاکر کو ہیرو بناکر ایک نیا ناٹک سوچنا شروع کردیا۔ شاید اسی وجہ سے وہ تقریباً روز ہی ان کے ساتھ بیٹھ کر دوپہر کی چائے پیتی۔ جب اس نے ان کے ایک پچھڑے ہوئے گاؤں میں پڑے رہنے پر ذرا حیرانی جتائی تو وہ مسکرائے اور بولے — ”میرے باپو تو جی مجھے آٹھویں کے بعد پڑھانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ لڑجھگڑ کر میں نے دسویں اور بارھویں کی۔ اس نے سمجھا کہ چلو، چھٹی ہوئی۔ بارھویں کے آگے تو اس کے لیے پڑھنا ممکن ہے ہی نہیں۔“
”وہ کیوں ٹھاکر صاحب؟“ ساحرا نے ذرا حیرانی سے پوچھا۔
”جی، کلّو میں تو ڈگری کالج اس وقت تھا ہی نہیں نا۔ شملہ جانا پڑتا تھا، اس لیے اس نے سوچا اتنی لمبی اڑان کہاں بھرے گا یہ کلّو کا اُلّو۔“ اپنی بات پر ہنستے ہنستے ان کی آنکھوں میں پانی آگیا۔ ”پھر جی، میں نے اپنے ہی گھر میں چوری کی۔ ماں کے سونے کے کنگن لے کر شملہ بھاگ گیا۔ جب وہ چُک گئے تو ڈھابوں پر نوکری کی، ٹورسٹ گائیڈ رہا، بڑے پاپڑ بیل کر، بی اے کرکے گھر لوٹا تو باپ پھر مجھے گھر میں رکھنے کو راضی نہیں۔“
”کیوں؟ کیا وہ اب تک ناراض تھے؟“
”تھے تو، لیکن اب ناراضگی دوسری تھی۔ اب وہ چاہتے تھے کہ بی اے ہوگیا ہے تو سرکاری نوکری کرلے۔ لیکن میری بھی ضد۔ نوکری نہیں کرنی کسی کی، سیوا جتنی مرضی کروا لو۔“
ساحرا کے دل میں ان کے لیے عزت بڑھ گئی۔ اگر پڑھے لکھے لوگ گاؤں کی ترقی کا بھار سنبھال لیں تو اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے۔ دیش ترقی ضرور کرے گا، دیہات ضرور جاگے گا اور اپنا مستقبل خود گھڑے گا۔

دو تین دن کے اندر، جب گاؤں پردھان کے ساتھ اس کی دوستی کی خبر پھیلی تو گاؤں کے دوسرے لوگ بھی اس سے کھل گئے۔ آتے جاتے لوگ نمستے کرتے، ساتھ چلنے لگتے، اسے گاؤں اور چاروں طرف کی دلچسپ چیزیں دکھاتے، لوک کتھائیں سناتے۔ کوئی چلتے چلتے ہاتھ میں چار خوبانیاں یا پلم رکھ دیتا، کوئی زبردستی گھر بلاکر چھاچھ پلا دیتا۔ اسے پردھان کے بارے میں اور جانکاری بھی ملتی گئی۔ ڈگی لگ میں صرف پرائمری  سکول تھا۔ پانچویں کے بعد آگے پڑھنے کے لیے دس گیارہ سال کے بچوں کو چار کلومیٹر دور بھوٹی جانا پڑتا تھا۔ زیادہ تر بچوں کی پڑھائی چھوٹ جاتی۔ پردھان جی نے ہی ڈی ای او اور ڈی سی کے دفتر کے چکر لگاکر اسے مڈل  سکول کروایا اب یہ کلّو کے پارلیمنٹ ممبر کے پیچھے پڑے تھے کہ وہ کچھ پیسہ دے دیں تاکہ ایم پی فنڈ سے  سکول کے تین چار اور کمرے بن سکیں۔ مہیلا منڈل کو بھی اپنے ملنے ملانے کے لیے ایک کمرہ پنچایت گھر کے اوپر بنواکر دیا، چھوٹی بچت یوجنا چلانا سمجھانے کے لیے کلّو سے سماج سیویکا بلوائی، گائے خریدنے کے لیے گاؤں کی نو عورتوں کو بینک سے لون دلوایا۔ آج کل پرائمری ہیلتھ سنٹر کھلوانے کی چنتا میں بار بار کلّو جاتے ہیں، اسی لیے چائے کی دکان پر بیٹھے ملتے ہیں۔

ساحرا کے دل میں ان کے لیے عزت برابر بڑھ رہی تھی اور دماغ میں ان کے بارے میں ناٹک ایک پختہ شکل لے رہا تھا۔ بس، اب کہیں سے اگر ایسے واقعے کا پتہ چل جاتا جس میں انھوں نے کوئی ترقی پسند قدم اٹھانے کی کوشش کی تھی اور اس کی مخالفت ہوئی اور اس مخالفت کا سامنا کرکے، اپنی دڑھتا اور سچائی کے سہارے، انھوں نے لوگوں کو اپنے فیصلے کی طرف جھکایا تو ڈرامیٹک ایلیمنٹ مل جاتا اور ناٹک پورا ہوجاتا۔

”ورودھ! ٹھاکر صاحب کا؟ وہ تو ہمیشہ ہمارے بھلے کی ہی سوچتے ہیں، ان کا کوئی کیسے ورودھ کرے گا۔“ اس طرح کے جواب پاکر ساحرا اپنے ناٹک کے بھوشیہ کے لیے تو مایوس ہوجاتی مگر گاؤں کی ترقی کے بارے میں اسے یقین ہوجاتا۔ جب عام لوگ اتنا آپ پر بھروسہ کریں اور آپ کی نیت میں بھی کوئی کھوٹ نہ ہو تو بھلا کامیابی میں کیا رکاوٹ آسکتی ہے؟

وہ تیزی سے چلتی ہوئی ٹھاکر صاحب کے گھر کی طرف جارہی تھی۔ آج ایک عجیب بات ہوئی تھی۔ چیتی رام اسٹاپ پر نہیں تھا اور نہ ہی راستے میں کہیں ملا۔ گھر پر کچھ کام ہوگا یاشاید  سکول میں۔ پگڈنڈی پر چلتی ہوئی وہ گھر کے پاس پہنچ گئی۔ لیکن اس میں کچھ بدلا ہوا تھا۔ بھلا ایک رات میں کیا بدل سکتا ہے؟ وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے احساس ہوا کہ ایک عجیب سا سنّاٹا گھر کے چاروں طرف منڈلا  رہا ہے۔ ذرا گھبراہٹ ہوئی۔ کیا بات ہے؟ ہمیشہ تو بچے اس کے پہنچنے سے پہلے ہی آجاتے تھے اور اتنا شور مچا رہے ہوتے تھے کہ دور تک سنائی دیتا ہے۔ اس کے قدم تیز ہوگئے اور وہ تقریباً دوڑتی ہوئی گھر تک پہنچی۔ سامنے آنگن میں، چار بچے، ایک جھاڑی کے پیچھے، بالکل چپ چاپ بیٹھے، زمین کے کنکروں سے گٹّے کھیل رہے تھے۔
”کیا بات ہے؟ تم لوگ اندر کیوں نہیں گئے اور باقی بچے کہاں ہیں؟“
”کمرے پر تالا لگا ہے۔ باقی بچے   سکول لوٹ گئے ہیں۔“ ایک بچے نے جواب دیا۔
”تالا لگا ہے تو پردھان جی کے یہاں جاکر چابی کیوں نہیں مانگی؟“ اس نے ذرا ڈانٹ کر پوچھا۔
”مانگی تھی۔ انھوں نے منع کردیا۔ کہتے ہیں اب اور چابی نہیں دیں گے۔“
”کیا بکواس کررہے ہو؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ جاؤ جاکے دوسرے بچوں کو بلا لاؤ۔ میں ابھی چابی لاتی ہوں۔“
بچے آپس میں کھسر پھسر کرتے  سکول کی طرف چل دیے اور وہ پردھان جی کے رہائشی مکان کی طرف والی ڈھلان اترنے لگی۔ ان کی بیوی باہر رسّی سے کپڑے اتارتی ہوئی ملی۔ بیٹھنے اور چائے کی جب وہ اصرار کرنے لگی تو ساحرا نے اپنے آنے کی وجہ بتائی اور ہنس کر یہ بھی جوڑ دیا کہ بچے بھی پتہ نہیں کیا کا کیا سوچ لیتے ہیں؟
ان کا چہرہ گمبھیر ہوگیا۔ سنبھل کر بولی، ”بچے غلط نہیں سمجھتے۔ ٹھاکر صاحب نے چابی دینے سے منع کردیا ہے۔“
”وجہ؟“ ساحرا کے منہ سے اپنے آپ نکلا۔
”وجہ تو وہی بتائیں گے۔“
”ٹھیک ہے، تو میں انہی  سے بات کرلیتی ہوں۔“
”وہ تو ہیں نہیں۔ ڈی سی کے دفتر گئے ہیں۔“
ساحرا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ دو ہفتے کی محنت برباد ہوجائے گی۔ پتہ چلانا بھی ضروری ہے کہ کل اور آج کے بیچ اس نے ایسا کیا کردیا ہے کہ اسے یہ سزا دی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان معصوم بچوں کو بھی۔
ڈی سی کے دفتر کے برابر میں ہی کلّو کورٹ بھی ہے اور اسی سے ملا ہوا جانوروں کا سرکاری ہسپتال۔ یہاں وکیلوں، گواہوں، بھیڑ، بکریوں، گایوں، گدھے گھوڑوں اور پولس والوں کی برابر بھیڑ رہتی ہے۔ ساحرا سوچ ہی رہی تھی کہ پردھان جی کو کس سرے سے ڈھونڈنا شروع کرے کہ پیچھے سے کسی نے کہا — ”ارے میڈم، اس وقت آپ یہاں کیسے؟“ وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا رہے تھے۔ ان کی مسکراہٹ اور ان کا خود آکر ملنا، دونوں نے ہی ساحرا کو یقین دلایا کہ کچھ پلوں میں ہی غلط فہمی صاف ہوجائے گی۔ ڈھال پور کا میدان پار کرکے دلّی ہائی وے کے کنارے بس  سٹاپ پر پہنچ کر اسے خالی بینچ پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے، وہ پاس کی جوس کی دکان سے دو بڑے گلاس بنواکر لے آئے۔

جوس لے کر ساحرا نے کھنگارکر گلا صاف کیا — ”پردھان جی، آج ہمیں کمرہ  بند ملا اور چابی بھی نہیں دی گئی۔ آپ کو معلوم ہے؟“
”ہاں جی معلوم ہے۔“ ان کے سیدھے جواب سے وہ تھوڑا سکپکائی۔ دل کے ایک حصے نے کہا آگے بات نہ بڑھاؤ، لیکن دل کے دوسرے حصے نے وجہ جانے بنا پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا۔
”کیا جان سکتی ہوں — مجھ سے کیا بھول ہوگئی جو آپ کو یہ قدم اٹھانے کی ضرورت پڑگئی؟“
اس کے جملے کے بیچ میں ہی انھوں نے گلاس رکھ کر ہاتھ جوڑ لیے تھے۔ نرمی سے بولے — ”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ آپ تو ہمارے گاؤں کے بچوں کے لیے اتنا کررہی ہیں۔“
”تو پھر کیا بات ہے؟“
”آپ سمجھیں گی نہیں۔“
”نہ سہی، مگر جانے بنا مانوں گی بھی نہیں۔“
انھوں نے ایک بے بسی بھری سانس چھوڑی اور بولے — ”میڈم، آپ شہر کی رہنے والی ہیں۔ گاؤں میں، خاص کر اس علاقے میں بہت سے رواج ایسے ہیں جو آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ ’لگ‘ ویلی میں ایک چلن ہے کہ گھر کی نچلی منزل میں جانور رہتے ہیں اور انھیں اوپر والی منزل پر نہیں آنے دیا جاتا۔“
”یہ تو ٹھیک ہے۔“ وہ ان کی بات قبول کرتے ہوئے بولی — ”اکثر ایسی ریتیوں کے پیچھے گاڑھی ’لاجک‘ ہوتی ہے۔ یہ پرتھا ضرور صفائی رکھنے اور بیماریوں سے بچنے کے لیے بنائی گئی ہوگی۔“
”لیکن آپ برابر ایسا کرتی رہیں۔“ انھوں نے سیدھا الزام لگایا۔
”میں؟ کہاں؟ جانور تو۔۔ کبھی نہیں ۔۔؟“ سراسر جھوٹے الزام سے اس کا سر گھوم گیا۔
”ایسا کرکے آپ نے سب کے سامنے ہمیں نیچا دکھایا۔ ہمیں بڑا دُکھ دیا۔“
اب تک وہ سنبھل گئی تھی — ”نہیں ٹھاکر صاحب، آپ سے کسی نے جھوٹ کہا۔ جانور تو کبھی ریہرسل کے آس پاس بھی نہیں بھٹکتے، اندر کمرے میں آنا تو دور کی بات ہے۔“
”میں نے کہا تھا آپ سمجھیں گی نہیں۔ کیا آپ کے کیمپ میں چیتی رام نہیں آتا؟“
”وہ چھٹی کلاس کا لڑکا؟ ہاں آتا ہے، لیکن جانور تو اس کے ساتھ کبھی نہیں۔۔”
”وہ اچھوت ہے، آپ کو معلوم نہیں؟“
”ہاں بتایا تھا کسی ٹیچر نے، پہلے پہل کے دنوں میں۔“
”تب! جانتے ہوئے بھی آپ نے اسے اوپر آنے دیا۔ کسی نے ہمیں بتایا بھی نہیں۔ ہمیں تو تب پتہ چلا جب ہمارا ورودھی دل یہ پرچار کرنے لگا کہ ہم اچھوتوں، جانوروں کو اوپر آنے دیتے ہیں اور ہم نے آپ کا کیمپ بند کردیا۔“
”پردھان جی، جانور اور شیڈیول کاسٹ برابر ہیں؟“
”نہیں۔“ وہ جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولے — ”جانوروں میں کئی ان سے اونچے ہیں۔ گائے اور اس کی بچھیا اوپر آسکتے ہیں۔“
ساحرا نے پہلو بدل دیا — ”پردھان جی، میں مسلمان ہوں۔ آپ نے میرے آنے جانے پر تو کبھی کوئی اعتراض نہیں جتائی۔“
”کیا کہتی ہیں میڈم جی۔ آپ زیدی ہیں، سید! آپ لوگ تو برہمن جیسے ہیں۔“
”آپ کو کیسے پتہ زیدی سید ہوتے ہیں؟“
”واہ جی، سیاست میں رہ کر، طبقوں، جاتیوں کی خبر نہ رکھیں؟ یہ تو ہماری پہلی ڈیوٹی ہے۔ نہ جانے، کب کیسی حالت کا سامنا ہوجائے۔“
”اور جنھیں نیچ جات سمجھا جاتا ہے انھیں برابری دلانا آپ کی ڈیوٹی نہیں ہے؟“
”جنھیں بھگوان نے چھوٹی جات بناکر اس دھرتی پر بھیجا ہے، ان سے اس جنم میں دُکھ بھوگ کر، اگلا جنم سدھارنے کا حق ہم کیسے چھین سکتے ہیں۔ ہاں، کچھ مجبوریاں ہیں، سرکاری اصول ہیں۔ انھیں  سکول میں داخلہ دینا پڑتا ہے، لیکن ہمارے بچوں سے الگ اپنے ٹاٹ پر بیٹھیں۔ برتنوں کی ادلابدلی نہ ہو اس لیے میں نے خود دوپہر کا کھانا دینے کے بجائے، کچا چاول دینے کی منظوری دلوائی۔ ان کے ماں باپ بھی خوش، ٹیچر بھی فری، گند بھی نہیں اور ساورن (اونچی ذات والے) بھی محفوظ۔ آپ باہر کی ہیں، بھلا آپ کا کیا دوش۔ اس چیتی رام یا اس کی ماں کو آپ کو بتانا چاہیے تھا۔ خیر ان کی تو کل رات کو گاؤں والوں نے اچھی دھنائی کی۔ آج اگر ہم انھیں اوپر کی منزل پر چڑھنے دیں تو کل تو وہ ہمارے سروں پر چڑھ جائیں گے۔“ وہ دونوں گلاس لوٹا کر ڈی سی آفس کی طرف چل دیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساحرا اکیلی اس بینچ پر بیٹھی سوچتی رہی ۔۔وہ یہاں کیا کرنے آئی تھی؟ یہاں  سکول کھولے جاسکتے ہیں اس لیے کہ پڑھے لکھے انسانوں کی گنتی بڑھے۔  سکولوں، آنگن باڑیوں میں دن کا کھانا بانٹا جاسکتا ہے تاکہ صحت مند انسان بنے۔ اس کے جیسے رنگ کرمی یہاں آسکتے ہیں تاکہ سچائی اور انسانی قدروں کا احساس کراکے ایماندار انسان پیدا ہوں؛ لیکن جہاں پر ایک طبقہ دوسرے طبقہ کو انسان ماننے سے ہی انکار کردے، انھیں جانوروں سے بھی نیچا سمجھے، ایسی جگہ میں انسان کو انسان کا درجہ دلانے کے لیے کون سی قدروں کا سہارا لیا جائے؟ لڑائی کی شروعات کہاں سے، کتنے نیچے سے کی جائے؟
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply