ڈھکا چہرہ۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ ان بڑے میاں کی دُھنائی ہوئی تھی۔ پِٹ جانا ان کی اکثر کی عادت تھی۔ ہاں، اس بار جیسی دُھنائی ان کی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے دور کے رشتے کے بھتیجے کو یہ فکر تھی کہ ستّر پار کرچکے چچا کہیں ٹیں نہ بول جائیں۔ وہ کراہے، اور ایسا لگا جیسے نیند کے انجکشن کی گہری خماری سے جاگنے والے ہیں۔ برابر کے بستر پر شوزیب اٹھ بیٹھا اور پاس رکھے لیمپ کا سوِئچ دبایا۔ ہاں، بڑے میاں جگ بھی گئے تھے اور ٹکٹکی باندھے اسے گھور رہے تھے۔
یہ اس کی ٹکٹکی کی ابھیمان اور غرور سے بھری نظر تھی جس نے شوزیب کا سختی سے کسا، صبر کا باندھ توڑ ڈالا۔ اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی زندگی کے واحد مقصد پر کبھی ان سے نہیں الجھے گا۔ تین سال وہ ایسا کر پانے میں کامیاب بھی رہا تھا۔ لیکن آج اس زخمی حالت میں بھی اس نظر کی بیباکی نے اسے ہرا دیا تھا اور وہ ان پر برس پڑا۔ وہ طنز سے مسکرائے اور وہ بلبلا اُٹھا — ”مسکرائیے، حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو تکلیف ہورہی ہے۔ ہوگی ہی، اتنے تھپّڑ جو پڑے ہیں ان گالوں پر، اتنے گھونسے جو کھائے ہیں اس تھوبڑے نے۔ آپ کو شرم نہیں آتی؟ میں جانتا ہوں کہ میں بڑے دور کا رشتہ دار ہوں، چودہ پشتوں کی دوری ہے، آپ اکثر جتا چکے ہیں۔ لیکن میں اکیلا ہوں جو آپ کے ساتھ رشتہ رکھے ہوئے ہوں۔ باقی سب نے آپ کو نکار کر برادری سے باہر کر چھوڑا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں نہ کہ مجھے آپ کی زیادہ ضرورت ہے، یتیم جو ہوں۔ ہوسکتا ہے اس بات میں کچھ سچائی ہو لیکن مجھے آپ کا خیال ہے۔ آخر کیوں کرتے ہیں آپ ایسا؟ اگر آپ کو مذہب کے ایک پہلو پر یقین نہیں تو آپ اسے بڑے شوق سے نہ مانیں۔ یہ جمہوریت ہے۔ لیکن  کیایہ بات ہوئی کہ آپ اپنی رائے دوسروں پر تھوپیں؟ انھیں اپنی آستھاؤں کو ماننے کا اُتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ کو۔ وہ بھی تو پرجاتنتر میں رہتے ہیں۔“
ضرور شوزیب کی اس بات نے ان کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہوگا کیونکہ بزرگوار کی بیچ بیچ میں بھٹک جانے والی آنکھیں اچانک اس کی آنکھوں سے مل کر ٹھہر گئیں اور انھوں نے ایک مریل سا ہاتھ اٹھایا۔ چھوٹی سی جنبش نے ضرور کسی گھائل مانس پیشی کو ٹھیلا ہوگا کیونکہ ان کا پورا جسم کانپ گیا۔ درد پر قابو کے لیے انھوں نے دانت بھینچ کر ادھر اُدھر پڑے تکیوں کی طرف اشارہ کیا۔ شوزیب نے سر ہلایا — ”نہیں، ڈاکٹر نے آپ کو اٹھ کر بیٹھنے کے لیے منع کیا ہے۔“
”ہوسکتا ہے کہ یہ آخری بار بیٹھنا ہو اور جب بات جمہوریت کی ہے تو مجھے اپنی کرنے کا حق ہے۔“
ان کے چہرے پر پل بھر کو ٹیس نگلی مسکراہٹ آئی۔ جب انھوں نے خود کو بیٹھانے کی کوشش کی۔ شوزیب نے انھیں سہارا دیا اور دوسرے ہاتھ سے تین تکیے ایک کے اوپر ایک رکھے۔ وہ تکیوں پر ایسے ڈھےگئے جیسے اٹھنے بھر کی کوشش نے ان کی رہی سہی طاقت نچوڑ لی ہو۔ ان کی آنکھوں نے شوزیب کو پلنگ پر، اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ دونوں کے بیچ بہت پیار رہا ہو ایسا تو تھا نہیں، اس لیے شوزیب ذرا حیران ہوتے ہوئے ان کے پاس بیٹھ گیا۔
”تو ہم جمہوریت پر چرچا کررہے ہیں۔“ وہ دھیرے سے بولے۔
”میں نے ڈیموکریسی کا ذکر اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لیے کیا تھا۔ اس پر چرچا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“
”ڈیموکریسی پر چرچا کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہی تو برابری کی بنیاد ہے۔“
”کیا آپ واقعی ایسا مانتے ہیں؟ آپ جو ہر مذہبی جماعت میں جاکر بولنے والے مولویوں سے الجھتے ہیں، انھیں گالیاں دیتے ہیں۔ کیا اپنے برابر سمجھ کر؟ کتنی بار آپ کو جلسوں سے اٹھاکر باہر پھینکا گیا، کتنی بار آپ کی پٹائی ہوئی، آپ کو اندر آنے سے روکا گیا، آپ کی سرعام بے عزتی کی گئی؟“
”ہزاروں بار۔ لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں۔“
”ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اللہ جانے آپ کو علی گڑھ بھر میں اپنی جگ ہنسائی کروانے میں کیا مزا آتا ہے۔ ہوگا کسی قسم کا میسوکزم۔ لیکن کیا آپ ایک پل کو بھی رُک کر یہ نہیں سوچتے کہ آپ اپنے نزدیکی لوگوں کو بھی کتنا شرمندہ کررہے ہیں۔ نہیں، وہ تو کچھ ہیں ہی نہیں۔ بس آپ اور دین کے خلاف آپ کی مہم چلتی رہنی چاہیے۔“
”دین کے خلاف میری کوئی مہم نہیں ہے۔ میں ایک پابند مسلمان ہوں۔“
”چھوڑیئے بھی۔ ہر مذہبی جلسے میں جاکر آپ اُدھم مچاتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے جوانی کے دنوں میں آپ برابر جمعے کی نماز میں شریک ہوکر، امام صاحب کے خطبے پر ٹیکاٹپّنی کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک دن آپ کے مسجد میں گھسنے پر پابندی لگا دی گئی۔ بھلا کوئی سچا مسلمان ایسا کرے گا؟ یہ تو کفر ہے!“
”میں نے کبھی کفر نہیں کیا۔ میں نے صرف نقاب کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی۔“
”وہ کفر ہے۔“ آخری فیصلہ سنانے کے انداز سے شوزیب اُٹھ کھڑا ہوا۔
”سچ! ڈیموکریسی میں؟“ دھیمے سے کیے سوال پر شوزیب کو شک ہوا کہ انھوں نے کچھ کہا بھی یا نہیں۔ ان کی طرف پلٹا تو پایا — سوال ان کی آنکھوں سے جھانک رہا تھا۔ سوال — جو التجا بن گیا، کہ انھیں سمجھا جائے۔ شوزیب کے دل میں اچانک پیار امڈ پڑا ان بڑے میاں کے لیے جو کہیں جوانی میں اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے تھے۔ ان کے کندھے پکڑ کر وہ بولا — ”آپ کیوں ایسا کررہے ہیں چچا؟ آخر آپ نقاب کے خلاف لڑنے کی ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔“
”میرے پاس بیٹھو، تمہیں پوری بات بتاتا ہوں؟“
شوزیب کے دل میں امڈتے سوال اور ابلتے غصے اور رنجش کو ایک دھکّا لگا۔ آج تک کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کب اور کیوں، وہ آرام پسند، پان چباتا، ہکّا گڑگڑاتا، اللہ سے ڈرنے والا، بریلی کا زمیندار، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کرنے آیا تھا اچانک پلٹا کھاکر، برقعے کے خلاف عورتوں کی آزادی کے لیے لڑنے والا ریڈیکل ہوگیا۔ وہ آزادی، جس میں خود مسلمان عورت کی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ہچکچاتے ہوئے بیٹھ تو گیا مگر اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اپنی اُتسکتا شانت کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اس کے سامنے وہ بھید کھلنے والا تھا جس کی وجہ سے ان کا پورا خاندان ہی پریشان ہورہا تھا بلکہ پورے مدھیہ بھارت کے مسلمانوں میں ان کو اور ان کی ہر نئی حرکت کو لے کر کھلبلی سی مچ جاتی تھی۔
”ابھی بتا دوں تو بہتر ہے، نہ جانے پھر موقع ملے نہ ملے۔“ ایک آہ بھر کر انھوں نے بولنا شروع کیا — ”انیس برس کا تھا جب علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ مجھے آگے پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ دو سال پہلے انٹر کرچکا تھا اور ہم کھاتے پیتے زمیندار تھے، دو پیڑھیاں تو اطمینان سے پار ہوسکتی تھیں۔ میں اکیلا بیٹا تھا۔ لیکن مجھ سے چار سال چھوٹی بہن حنا، ہائی اسکول کرکے، آگے پڑھنے کی ضد کیے بیٹھی تھی، اس کی نسبت میرے ماموں کے لڑکے سے ہوچکی تھی جو دلّی میں لآ پڑھ رہا تھا۔ لڑکا، پڑھی لکھی بیوی چاہتا تھا اور اس کی اس خواہش نے ہی فیصلہ حنا کی طرف کردیا۔ میں، آلو کی کھیتی کا طے شدہ مستقبل لیے، یونیورسٹی میں اردو ادب کی باریکیاں پڑھ رہا تھا اور اپنی بہن پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اصل میں دن بھر کیا کرتا تھا، یہ بوجھنا کوئی مشکل نہیں۔ لڑکیاں تاکتا تھا۔ ایسے حیران ہوکر کیا دیکھ رہے ہو؟ یہی سوچ رہے ہو نہ کہ سر سے پیر تک ڈھکے لبادے میں بھلا تاکنے کو کیا ہوتا ہوگا؟
لیکن صاحب، ایک جگہ اتنے کالے لبادوں کی موجودگی کی ایک نیاپن تھی۔ پھر کبھی ہاتھوں کو، پاؤں کو دیکھ لینے کی کوشش، ٹھڈّی کی نوک، جب نقاب کسی زیور کو دیکھنے یا کسی کتاب کو غور سے پڑھنے کے لیے اٹھایا جاتا۔ چکنے، مرمری ہاتھوں کو یاد رکھنا، کان لگاکر آواز سننے کی کوشش کرنا اور برقعوں میں ذرا ذرا سے فرق کو، آواز، ہاتھ، پاؤں اور ہنسی سے جوڑکر درجے بنانا۔ اس سے بھی بڑھ کر، بے ڈھنگے لبادوں میں جسم کے نقوش بھانپنا، اتار چڑھاؤ، گولائیاں اور خم۔ ان سب کو الگ الگ شرینیوں میں باقاعدگی سے رکھنا۔ کون سی لڑکوں کو دیکھ کر ہی کھلکھلاکر ہنس پڑتی تھی، کون صرف چپکے چپکے کھی کھی کرتی ہیں اور وہ والی بھی جو ہمیں دیکھ کر اچانک چپّی سادھ لیتی ہے کیونکہ انھیں آواز کا بھی پردہ سکھایا گیا ہے۔
جلد ہی میرے بہت سے یار دوست بن گئے۔ ایک تو میرے پاس ہر وقت پیسے ہوتے لیکن اس سے بھی بڑھ کر وجہ یہ تھی کہ میری بہن لڑکیوں والے ہاسٹل میں تھی۔ ہم لڑکوں کا ایک گروہ تھا جو لڑکیوں کے ہاسٹل کے پھاٹک پر صبح شام منڈراتا رہتا تھا۔ اکثر حنا مجھ سے ملنے جب باہر آتی تو اس کے ساتھ دوسری لڑکیاں بھی ہوتیں۔ کبھی کبھار وہ اپنی دوستوں سے مجھے ملوا بھی دیتی۔ میں دھیان سے نام اور برقعہ یاد کرلیتا اور اپنے اس دوست کو ستاتا، للچاتا جسے وہ برقعہ پسند آیا تھا۔ آہ! وہ چھوٹی چھوٹی جانکاریوں کی خوشی! ہوں گے میاں نیوٹن، سمندر کنارے پر گیان کے کنکر چنتے ہوئے ننھے بچے، ہم تو وہ جانباز تھے جو اپھنتے ساگر میں گہرے غوطہ لگا رہے تھے۔
میرے جماوڑے میں وہ سارے لڑکے تھے جو ایسے شعر لکھنے میں مہارت رکھتے تھے جو برقعوں، جوتیوں، انگلیوں کی انگوٹھیوں، سفید ہتھیلیوں پر مہندی کی لکیروں، چال کے بانکپن اور کبھی کبھی سنائی دینے والی آواز پر فقرے کستے تھے۔ لڑکیوں کے ہاسٹل کے پاس پیڑوں سے لگ کر آہیں بھرنے اور شعروں میں گھما پھرا کر ان کے نام لینے کے دن تھے۔ کتنی بار ہم نے ایک دوسرے کو دِکھاکر جتا کر کسی لڑکی کے نام خط لکھا، یہ طے کرکے کہ اسے حنا کے ہاتھ بھجوائیں گے۔ کتنی بار کسی ان دیکھے ڈر سے اسے پھاڑ ڈالا۔
اچھے دن تھے جو شاید سالوں میں کھنچ کر بریلی کی قصبائی زندگی کی یکسانیت میں جذب ہوجاتے۔ تبھی ساجد نام کے ایک لڑکے کی شکل لے کر ایک بونڈر سا ہمارے گروہ میں شامل ہوگیا۔ وہ لکھنؤ کا تھا۔ بڑے شہر اور صوبے کی راجدھانی کا ہونے کی وجہ سے علی گڑھ کی ہر چیز اسے دقیانوسی اور پرانے ڈھرّے کی لگتی۔ لڑکیاں چھیڑنے کے ہمارے طریقے پر تو وہ ہنس ہنس کر دوہرا ہوگیا۔ کسی طرح اپنی ہنسی پر قابو پاکر اس نے ہم سب سے پوچھا کہ ہم کچھ آگے بھی بڑھ پائے یا ابھی تک آہوں، شعروں پر ہی اٹکے ہیں؟ ہم ذرا کھسیاکر ایک دوسرے کو تاکنے لگے کیونکہ ہمیں ٹھیک سے سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ ’آگے‘ سے اس کا کیا مطلب تھا۔ اس نے ہمیں پیار سے جھڑکتے ہوئے کہا — ”یار، کبھی کسی کا ہاتھ تھاما ہے، اس کی کتابیں اٹھانے میں مدد کی ہے، اس سے لائبریری کے اندھیرے کونوں میں ملنے کو کہا ہے، کسی طرح اس کی کتاب میں اپنا خط پہنچوایا ہے؟“ ہمارے سرخ ہوگئے چہروں سے وہ سچ بھانپ گیا اور ہماری مردانگی کی کمی پر افسوس میں سر ہلانے لگا۔وہ ہم سبھی کو نیچا دکھا رہا تھا مگر اس کا سیدھا نشانہ مجھ پر تھا۔ ہاسٹل میں ایک بہن ہوتے ہوئے، فلمی گانے پر سیٹی بجانا اور لچر شعر کہنے سے آگے نہ بڑھ پانا سنگین جرم تھا۔ دو چار دن کے بعد شام کی چائے پر ہم سب اپنی اپنی نظمیں سنا رہے تھے۔ ایک فی البدیع مشاعرہ سا تھا۔ میں نے بھی اپنی غزل سنائی۔ چوتھے شعر میں ایک پری چہرہ کے نازک ہونٹوں سے چرائے بوسے کا ذکر تھا۔ ساجد نے موقع لپک لیا — ”اماں اوّل تو یہاں پری کا چہرہ نظر ہی نہیں آتا۔ اور دوسرے یہ کہ آپ کو کیا پتہ بوسے کا مزا۔ میاں کبھی لیا ہے کسی لڑکی کا بوسہ؟“
اس بار میں بھی ذرا چوکنّا تھا۔ فوراً بولا — ”ہاں چوما ہے۔ میں نے کجّن کو چوما ہے۔“
وہ ہنسی روکتے ہوئے بولا — ”اچھا وہی، تمہاری دھوبن یا پھر کنجڑن؟“
میں سکپکاکر بول اٹھا — ”نہیں نہیں، ہماری گوالن ہے۔“
”لو اور سنو۔ اماں وہی جس کے پاس سے باسی دہی اور گوبر کی مہک آتی ہے، جو تمہارے علاوہ نہ جانے کتنوں کو چوم چکی ہوگی۔ بھائی، بات تو تب ہے جب کسی کے اچھوتے ہونٹوں کو پہلی بار پھڑکنا سکھاؤ، ایسی کو بوسہ دو جو شریف زادی بھی ہو اور برقعہ بھی پہنتی ہو۔ پہلا بوسہ جو ساری زندگی کسک بن کے اس کے سینے کے بائیں طرف زندہ رہے۔“
نہ جانے کب اور کیسے شرط لگ گئی۔
ڈاکٹر ذاکر حسین نے کیمپس میں ہزاروں پیڑ لگوائے تھے۔ انھیں کی وجہ سے علی گڑھ ایک خشک علاقے میں نخلستان جیسا معلوم ہوتا ہے۔ اشوک، یوکلپٹس اور شیشم کے قداور درخت جو دن کی دھوپ میں چھایا دیتے ہیں اور شام ڈھلتے جید پہرے دار راکششوں کا روپ دھار لیتے۔ امتحان نزدیک تھے اور طلبا یا تو لائبریری میں یا پھر ان پیڑوں کے سائے میں نوٹس ملاتے، بحث کرتے یا پروفیسروں سے کچھ سَمے کی منتیں کرتے پائے جاتے۔ لڑکیوں کے لیے زیادہ مشکل تھی۔ انھیں اندھیرا ہونے سے پہلے ہاسٹل کے اندر پہنچنا ہوتا اور جھٹ پٹے کے وقت لائبریری اور ڈپارٹمنٹوں میں سے ایک ہجوم سا ہاسٹل کی طرف لپکتا نظر آتا۔
لڑکیوں کے ہاسٹل کے ایک طرف کافی گھنے پیڑوں کا جھرمٹ تھا۔ پھاٹک تک آنے والی سڑک اس کے گول گھوم کر آتی تھی، مگر دیر سے آنے والیاں اور ہمت رکھنے والیاں وقت بچانے کے لیے اس کے بیچ سے نکل لیتیں۔ ساجد نے اشارہ کیا تھا کہ کوئی چاہے تو چھپ کے لڑکیوں سے دو بات کرلینے کی یہ بہترین جگہ تھی کیونکہ یہاں پر نہ تو پہچانے جانے کا خطرہ تھا نہ ہی پکڑے جانے کا ڈر۔
کہنے کو تو بات بس اشارہ بھر تھی، پر سب ہی سمجھ رہے تھے کہ یہ ایک چنوتی ہے۔ دو دن ہم میں سے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ تیسرے دن سے ساجد ہمیں دیکھ کر بلاوجہ ہی مسکرانے لگا۔ ہم جانتے تھے وہ ہمارے اوپر ہنس رہا ہے — دبّو – نامرد جن میں ایک چنوتی اٹھانے کا بھی ساہس نہیں تھا، جو شرط لگا لینے کے بعد بغلیں جھانک رہے تھے۔ اسی خاموش، چھوٹی سی، ٹیڑھی، طنزیہ مسکراہٹ نے مجھے ٹھیلنا شروع کیا اور میں نے شرط پر کھرا اترنے کی ٹھانی۔
مجھے ڈر تو کوئی تھا نہیں۔ حنا، میری بہن پڑھائی میں تیز تھی اور لائبریری میں آخری لمحوں تک بنی رہتی۔ اکثر وہ اور اس کی دوستیں اسی جھرمٹ سے تیزی سے گزرتیں۔ دیر ہوجانے کی وجہ سے ان کے علاوہ اور کوئی آس پاس نہیں ہوتا۔ چنوتی مشکل نہیں تھی۔ مجھے بس گہرے رنگ کے کپڑے پہن کر کسی موٹے تنے کے پیچھے چھپے رہنا تھا۔
میری رگوں میں خون کی رفتار برابر بڑھ رہی تھی، میرا دل پسلیوں سے تابڑتوڑ ٹکرا رہا تھا، جسم کبھی اکڑ کر تن جاتا کبھی لنج پونج ہوجاتا، اپنی ماں اور بہن کے علاوہ ایک عورت کو چھونے کا خیال دماغ سلگا رہا تھا۔ لڑکیوں کے دو جھنڈ گزر چکے تھے اور مجھے دیکھ نہیں پائے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک اور ٹولی آتی نظر آئی۔ وہ زور زور سے بتیا رہی تھیں، شاید کسی باہری آدمی کو یہ جتا دینے کے لیے کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ یا شاید اندھیرے سے زنانہ خوف پر قابو پانے کے لیے۔ جب ٹولی پاس آئی تو میں نے حنا کی آواز پہچانی۔ میرا شکار مجھ تک لانے کے لیے میں نے دل میں ہی اس کا شکریہ ادا کیا۔ میرے تیزی سے دوڑتے ہوئے دماغ نے اسے کسی گڑبڑ کی صورت میں اپنا گواہ بھی بنا لیا۔ میں چوکس تھا۔ وہ تین تھیں اور کافی نزدیک آچکی تھیں۔ پیڑوں کے بیچ میں سے میں نے دیکھا کہ وہ تیز تیز چل رہی تھی۔ حنا بالکل بائیں طرف تھی۔ میں نے اس کے کالے ریشمی برقعے جس پر ہری لیس لگی تھی اور سنہری زری کا کام تھا، سے پہچان لیا تھا۔ وہ دونوں بدرنگ پرانے برقعوں سے ایک قدم آگے تھی۔ ٹھیک ہے، میں بڑی آسانی سے بیچ والی لڑکی کو روک سکوں گا۔ ظاہر ہے کہ حنا مجھے دیکھ بھی لے گی اور پہچان بھی سکے گی اور دوسری لڑکی کے ساتھ بھاگ بھی پائے گی۔
میں ہری لیس اور زری والے برقعے پر نظریں سادھے رہا۔ حنا نے کتنی منتیں کی تھیں اس کے لیے۔ آخر میں میں ہی صدر بازار سے اس کے لیے ریشم لے کر آیا اور پھر اس پر کشیدہ اور زری بھی بنواکردی۔ میرے ابّا تو ایسا بگڑے تھے کہ پوچھو ہی مت۔ ان کا کہنا تھا کہ برقعہ پہچان چھپانے کے لیے ہوتا ہے، اپنی طرف دھیان کھینچنے اور پہچان جتانے کے لیے نہیں۔ لیکن امّی نے ہم بھائی بہن کی طرفداری کی اور ہم دونوں میں ایسا ہی پیار بنا رہے اس کی دعا دی۔ کیسا اچھا لگ رہا تھا وہ برقعہ، کیسا بانکپن تھا اس کی چال میں۔ ہمیشہ سے ہی اس کے ہر معمولی کام میں بھی زندگی پھٹی پڑتی تھی۔ اس کی دونوں دوستیں اس کے ساتھ کیسی لگ رہی تھیں، جیسے مالکن کے ساتھ چلتی دو کنیزیں۔
میں نے جلدی سے بہن کے لیے امڈتے پیار کو پیچھے دھکیلا اور موجودہ کام پر توجہ دینے لگا۔ وہ تینوں کچھ ہی قدم کی دوری پر تھیں۔ یہی موقع تھا۔ میں آڑ میں سے اچھل کر سامنے آیا اور بیچ والی کو پکڑ لیا اور اس کے چیخنے سے پہلے اس کے منھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اسی کا نقاب اس کے منھ میں ٹھونس دیا۔ اتنے میں باقی دونوں ہاسٹل کی طرف لپکی۔ مجھے ذرا اطمینان آیا۔ جب تک یہ دونوں ہاسٹل سے کسی کو لے کر آئیں گی میں اس والی کا چمبن لے کر نکل چکا ہوؤں گا۔ میں نے اسے کس کے دبوچ لیا، آغوش سے زیادہ اسے روکے رکھنے کے لیے۔ بس ایک بوسہ ہی تو لینا تھا۔ شرط پوری کروں اور پھر اپنے یار دوستوں کے سامنے اپنی فتح کی شیخی بگھاروں۔ اب وہ نقاب کو دانتوں سے پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہٹانے کی جلدبازی میں جو میں نے اسے پوری طاقت سے کھینچا تو وہ پھٹ کر چندی چندی ہوگیا۔ نکل لینے کی جلدی، نقاب کے پھٹنے کی آواز، پہلے بوسے کا دھڑکا اور کسی کے آجانے کے خوف میں میں نے آنکھیں بھینچ لی۔ ایک ہاتھ سے اس کا منھ بند کیا اور تبھی ہٹایا جب میرے اپنے ہونٹ اس کے لبوں کے بالکل پاس آگئے۔ لڑکی ہاتھ پیر مار رہی تھی، مجھے دھکیل رہی تھی، زمین چھوتا برقعہ اس کی خود کو چھڑا لینے کی کوشش میں اڑچن بن رہا تھا اور میری مدد کررہا تھا۔ اس کا چمبن لے کر میں شرط جیتنے کے یقین میں اسے چھوڑنے ہی والا تھا کہ میرے اندر کچھ جلنے سا لگا۔ میرے دونوں پیروں کے بیچ کچھ ایسے کھنچنے لگا جیسے اس کا ایک الگ وجود ہو۔ وہ آگے بڑھ کر سخت ہوگیا جیسے رختِ خواب سے پہلے ہوجاتا تھا۔ مجھے ہمیشہ اپنے ضبط نہ کرپانے پر کتنی شرم آیا کرتی تھی۔ مولوی صاحب بھی رختِ خواب کو کتنا بڑا گناہ کہا کرتے تھے۔ اب اس شرمناک حرکت میں مجھے مزا آرہا تھا اور اس مزے نے میرے ہاتھوں کو بے قابو کردیا جو اس کے جسم کے نرم نقوشوں کو ٹٹولنے لگے۔ میرا شریر اپنے آپ ہی اس سے سمٹ گیا اور دماغ سے لے کر پیروں کی انگلیوں تک حوس میرے اندر پھنکارنے لگی۔ اس وحشی ہوس کا احساس ضرور اس لڑکی کو بھی ہوا ہوگا کیونکہ اس نے اپنی گردن کو جھٹکا دے کر اور بچی کھچی طاقت سمیٹ کر مجھے زور کا دھکا دیا اور چیخ کر بس ایک لفظ کہا — ”بھائی جان!“
وہ حنا تھی جو اب نم زمین پر، بیہوش سی میرے پیروں کے پاس پڑی تھی۔ کسی طرح سہارا دے کر میں اسے ہاسٹل تک لے گیا۔ وہاں ہر کوئی مجھے پہچانتا تھا اور حنا کی حالت دیکھ کر مجھے اس کے ساتھ اندر والے حال تک آنے دیا گیا۔ وارڈن دوڑ کر باہر آئی اور اس کے ساتھ کی وہ دونوں لڑکیاں بھی۔ اس کی ایسی حالت پر انھوں نے چھپی ڈھکی سی تسویش دکھائی۔ جب میں نے انھیں اس طرح اپنی دوست کو مشکل میں چھوڑ کر دوڑ جانے پر ڈانٹا اور انھیں خواتین کے اتحاد پر سیکھ دینے کی کوشش کی تو وہ کچھ دیر تو کھسیائی کھڑی رہیں۔ پھر ان میں سے ایک مجھ پر پلٹی اور مجھے سچائی بتائی۔ مجھے عام طور سے زیادہ حملہ آور موڈ میں دیکھ کر انھیں لگا کہ اصلی خطرہ تو انھیں ہی ہے۔ بھلا اپنی بہن کو بھی ……“ عام طور؟ عام طور سے کیا مطلب؟ دونوں نے سر جھکا لیا اور ہچکچاتے ہوئے بولی — ”آپ تو پہلے بھی ہمیں چھیڑ چکے ہیں، جی ہاں حنا کو بھی۔ ہم تو اکثر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ تمہارا بھائی تو تمہیں بھی نہیں بخشتا۔ لیکن وہ ہمیشہ پیروی کرتی کہ آپ دل سے بہت شریف ہیں۔“
شرم کے مارے میں سر نہیں اٹھا پارہا تھا، پھر بھی مجھے اس سوال کا جواب چاہیے تھا — ”لیکن وہ اپنا برقعہ کیوں نہیں پہنے تھی؟“
”ایسا تو ہم اکثر کرتے ہیں۔ اور حنا کا برقعہ تو اتنا خوبصورت ہے، اس کی تو ہر وقت مانگ آتی رہتی ہے۔ جسے بھی کسی عزیز رشتے دار سے ملنے جانا ہوتا ہے وہی حنا کا برقعہ پہننا چاہتی ہے۔ آج میں پہن کر گئی تھی۔ واپس لوٹی تو حنا نے ہی کہا کہ ڈپارٹمنٹ میں کیا بدلیں، چلو ہاسٹل پہنچ کر ہی واپس کردینا۔
میں ساری رات بے چین، کروٹیں بدلتا، یہ طے کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ حنا سے کیا کہوں گا۔ مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس حادثے کے دوسرے دن حنا نے اپنے کمرے کے پنکھے سے پھانسی لگاکر خودکشی کرلی۔ اس دم نکلتی ہوئی تکلیف میں بھی وہ تیز دھار کے بلیڈ کو تھامے رہے اور اپنی دونوں کلائیوں پر اس سے وار کیا۔ کہتے ہیں خون 120 پاؤنڈ کے پریشر پر دوڑتا ہے — انسانی خون۔ دیوار، چھت، زمین پر سرخ بوچھار کے چھینٹے تھے۔
شرم اور احساسِ گناہ نے میری کلپنا کو پنکھ لگا دیے۔ مجھ سے جب اس کی خودکشی کے بارے میں تفتیش ہوئی تو میں نے ایک کہانی گڑھ ڈالی کہ حنا کو ایک غریب لڑکے سے لگاؤ ہوگیا تھا۔ اس رشتے کا کوئی مستقبل نہ دیکھ کر اس نے یہ قدم اٹھایا۔ خاندان کی عزت بچ گئی اور بہت جلد لوگ اسے بھول بھال گئے۔ بھلا عورتوں کے جینے مرنے پر کون زیادہ وقت گنواتا ہے۔
مجھے البتہ کسی طرح چین نہیں آیا۔ میں یہاں علی گڑھ آکر بس گیا اور دھیرے دھیرے اپنی زمینداری بیچ ڈالی۔ میں شادی کرنے سے لگاتار انکار کرتا رہا۔ شاید کسی عورت سے نظر ملانے کی ہمت نہیں رہی تھی یا شاید اس لیے کیونکہ اب میں پورا مرد نہیں تھا۔ کیا پہلے پورا مرد تھا؟ کہتے ہیں اچانک لگے صدمے یا دھکّے سے ایسا ہوجایا کرتا ہے۔ میں نے علاج کرانے کی کوشش نہیں کی۔ شاید شرم سے، شاید خود سے بدلا لینے کے لیے۔ تب سے یہیں علی گڑھ میں بنا ہوا ہوں، کیونکہ یہ اب صرف ایک یونیورسٹی نہیں ہے۔ یہ اسلامی کٹّرتا کا مرکز ہے۔ یہاں پر اسلام کے مطلب، اس پر چلنے، اسے ماننے کے طریقوں پر لمبے بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ یہاں پر عورتوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ خدا نے عورت کو مردوں کی خوشی کے لیے بنایا ہے، اسے اپنی خوشی چاہنے یا خوشی حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر وہ ایسا کرتی ہے تو ایک شدید گناہ کرتی ہے جس کا بھگتان اسے جہنم کی آگ میں جل کر، اور الگ الگ تکلیفیں جھیل کر چکانا پڑے گا۔ مسلمان اپنے پبلک اسکول کے پڑھے بچوں کو اسلامی تہذیب کی سمجھ پانے کے لیے یہاں بھیجتے ہیں۔ یہیں پر کم سن دماغوں میں وہ بدلاؤ، وہ گھماؤ لایا جاتا ہے اور اس سانچے میں ڈھالا جاتا ہے جہاں وہ یہ ماننے لگتا ہے کہ زندگی جینے کا کیول ایک راستہ ہے … اسلام۔ یہیں پر یہ سوچ بدلی جاتی ہے — خوف اور دہشت کی سوچ، لاجک اور عقل اور مدعوں کو کھدیڑ کر باہر کرتی ہے۔ کتنی ہی آزاد خیال لڑکیوں کو میں نے یہاں پر پلٹا کھاتے دیکھا ہے، سہم کر توبہ کرتے دیکھا ہے، موت کے بعد کی زندگی کے انجانے ڈر سے، نقاب پہن کر اس زندگی کو جہنم بناتے دیکھا ہے۔ یہ تسلیم کرتے دیکھا ہے کہ خدا کی دی ہوئی پہچان کو چھپانا چاہیے، چہرہ دِکھانا اس کے لیے سب سے بڑا گناہ ہے۔ میں جانتا ہوں — چھپا ہوا چہرہ کیسے اطمینان سے بہتی ہوئی زندگی میں طوفان لاسکتا ہے۔ ایک بچکانا سی شرارت کیسے زندگی بھر کا ماتم بن جاتی ہے، صرف نقاب کی وجہ سے۔“

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply