سوبھاوِک تھا۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

پرتبھا اپنے سر کو بار بار جھٹکا دے رہی تھی۔ اس کے خالی کھوکھلے دماغ میں، جو یاد کے چند قطرے چپکے رہ گئے تھے، اب دھیرے دھیرے پھسل کر، دھند جمے شیشے پر شفاف نقش بنارہے تھے۔ وہ انھیں جھٹک کر صاف کردینا چاہ رہی تھی۔ گاڑی کے ڈرائیور نے دو بار حیران ہوکر اسے ’ریئر مِرر‘ میں دیکھا۔ پھر شاید یہ سوچ کر کہ ایک عورت کا، ادھیڑ عمر تک کا سفر اکیلے طے کرنا اس کے دیوانہ ہوجانے کے لیے کافی وجہ ہے، چپ رہا۔

گاڑی نئے فلائی اوور پر سے گزر رہی تھی اور دونوں طرف لگی تیز ہیلوجن کی روشنیاں بار بار اس کی آنکھوں کو چکاچوندھ کررہی تھی۔ آخر تنگ آکر اس نے کہا — ”یہ آج اس سڑک کی روشنیوں کو کیا ہوا ہے۔ اتنی تیز کیوں جل رہی ہیں؟“

”جی یہ تو ہمیشہ سے ہی ایسی ہی جلتی ہیں!“ ڈرائیور نے ذرا فکرمند ہوکر جواب دیا۔ پرتبھا کو ایسا لگا جیسے کسی نے ایک گھڑا ٹھنڈا پانی اس  کے اوپر اچھال دیا ہو۔ ہاں، ٹھیک ہی تو ہے۔ سب ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ بس اس کے دیکھنے کا نظریہ بدل گیا تھا۔ آج وہ سمجھ پارہی تھی۔ ہر روشنی کے ساتھ ایک ایک چہرہ سامنے آتا تھا جس نے اسے سچ دکھانے کی کوشش کی تھی۔ ہر اندھیرے کا ٹکڑا اس کا اپنا دل تھا جس نے روشنیوں کو جگہ نہیں دی تھی۔

اسے یاد آئی وہ شام، جب وہ کالج کے بعد ایک سیمینار میں گئی تھی۔ سیمینار دیر سے ختم ہونے کی امید تھی اس لیے سبھی دوستوں نے ساتھ جانے سے انکار کردیا تھا۔ ویسے بھی ’آزادی کے بعد ہندی کویتا کی ترقی‘ ایسا گوڑھ مضمون تھا کہ اس میں کسی کی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن پرتبھا کو تو ادیب بننا تھا۔ دوسرے یہ بھی تھا کہ سیمینار سمپوزیم میں ہی پروفیسروں کو سنا جاسکتا تھا، ورنہ کلاس تو یہ لوگ لیتے نہیں۔ لیکن کوئی نہیں مانا۔۔ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا — پرتبھا نے سوچا۔ ۔یہ لوگ ساتھ میں ”کھی کھی کھی“ کرتی ہوئی کچھ سننے بھی نہیں دیتیں اور ”چل ناں  چل ناں ، بہت ہوگیا“ کی رٹ لگاکر بور  کرتیں۔
جیسا اکثر سیمیناروں میں ہوتا ہے، لوگ بہت نہیں تھے، اس لیے پرتبھا کو کافی آگے جگہ مل گئی۔ اس دن وہ پہلی بار سمجھی تھی کہ ادبی تقریر بھی کتنی دھواں دھار ہوسکتی ہے۔ کتنی تالیاں بج  رہی تھیں بیچ بیچ میں اور انت میں تو لوگ بس نہال ہی ہوگئے تھے۔ لوگوں کی بھیڑ انھیں بھاشن پر بدھائی دے رہی تھی اور پہلے نظموں کے مجموعہ پر مبارکباد بھی۔ اچھا، تو یہ کوی بھی تھے! عمر تو زیادہ نہیں لگتی تھی، ابھی سے ہی ایک سنگرہ! عجیب اتفاق تھا کہ وہ بھی دو سو دس نمبر بس سے جانے والے تھے، وہ دو سو دس — جو آکر ہی نہیں دے رہی تھی۔ اندھیرا سمیٹتی شام میں باتیں ہونے لگیں، جو سیکریٹریٹ کے سفر تک چلیں۔ انھوں نے گھر جانے والی بس میں بٹھاکر وداع کہا۔ کوی، وکتا اور تمیزدار بھی۔ کچھ اثر اس کے اوپر ان کے اونچے قد، گٹھیلے چست جسم، تراشی ہوئی کالی داڑھی اور کان سے نیچے تک بڑھے کالے، چمکیلے اتنے ہی گھنے بالوں، ذرا بھرے ہونٹوں، مسکرانے پر دِکھنے والے برابر دانتوں جو نکوٹین کے کتھئی دھبوں کی وجہ سے اور خوبصورت لگتے تھے اور ان غلافی آنکھوں کی خوابیدہ نظر کا بھی تھا۔

ملاقاتیں ہونے لگیں۔ وہ اٹھائیس سال کے تھے اور وہ انیس کی۔ وہ جے این یو سے پی ایچ ڈی کرچکے تھے اور وہ بی اے سیکنڈ ایئر میں تھی۔ وہ نرمل ورما اور نامور سنگھ جیسے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور وہ انھیں صرف پڑھتی تھی۔ دھیرے دھیرے اسے اپنی سہیلیاں بیوقوف لگنے لگیں، کالج کے لیکچرز  بھی بھوندو لگنے لگے۔ اب پرتبھا کو کیول ان کا ساتھ اچھا لگتا تھا۔ ایسا نہیں کہ ان کے پاس بہت وقت ہوتا تھا اس کے لیے، لیکن جو بھی لمحے اس کی جھولی میں آگرتے تھے انھیں وہ تبرک سمجھ، سنبھال کر رکھ لیتی تھی۔ دھیرے دھیرے ان کے لیفٹسٹ وِچاروں کا اس کے اوپر حاوی ہونا سوبھاوک تھا۔ اس نے اپنی پہلی کہانی لکھی اور اس ڈر سے کہ اگر سنائے گی تو ان کا وقت برباد کرے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بور ہونے لگیں، وہ کہانی ان کے کمرے میں تکیے کے نیچے رکھ آئی تھی۔ دو ہفتے بعد اس کا ذکر کرکے وہ کتنا ہنسے تھے۔ کہانی سے بھی زیادہ اس کی اس حرکت کو بچکانا بتایا تھا۔ کہانی تو خیر تھی ہی بالکل بیوقوفی کی، یہ تو اس نے ان کی بات مان ہی لی تھی۔ پھر جس تکیے نے اتنی اہم تمہید اسے کمسن ثابت کرنے میں نبھائی ہو اس پر دونوں کا ایک ساتھ سر رکھ کر لیٹ جانا بھی تو کتنا سوبھاوک تھا۔

بڑی بہن سشما نے سمجھایا بھی۔ گدھی، سب اسے یونہی دے دے گی تو وہ کیوں تجھ سے شادی کرے گا۔ بیچاری دیدی، سوبھاوِک تھا کہ ان کا سارا نظریہ شادی تک ہی محدود تھا۔ انھیں کیا پتہ، دانشوروں کی ضرورتیں کیا ہوتی ہیں اور ان ضرورتوں کو پورا کرنے میں کتنا سکھ ملتا ہے۔ اسے یہ سکھ پانے کی چاہ بھی سوبھاوِک تھی۔ وہ تو کہتے تھے کہ اس کے اندر کا بچپنا دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سمے انھیں سنے تاکہ پڑھنے اور خود سمجھنے کے مقابلے  میں زیادہ جلدی سمجھے۔ وہ کتنی خوش قسمت تھی۔ اس کے کلاس سے غائب رہنے پر لیکچراروں نے اسے کسنے کی کوشش کی۔ اس کے لکھے ہوئے ٹیوٹوریل میں نمبر کم آنے لگے، اعتراض بڑھنے لگے۔ اکثر کلاس میں پڑھائی جارہی کویتا یا ناول اس نے پڑھا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وہ ساری ہدایتیں اور باخبرداریاں ہنس کر اڑا دیتی۔ وہ زیادہ اہم باتوں پر، زیادہ بڑے آدمی کی باتیں سن کر وقت بتا رہی تھی۔ اس سے وہ پختہ ہوگی۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ پڑھنا لکھنا کیول پڑھنے لکھنے کے مقصد سے کرنا چاہیے۔ نہ تو ڈگریوں میں کچھ رکھا ہے اور نہ ان سے ملنے والی نوکریوں میں۔ ٹھیک ہے کہ آج کی زندگی ایسی ہے کہ اس کے چلانے کے لیے نوکری کا سہارا ضروری ہے، لیکن جہاں تک ہوسکے اس میں کم سے کم وقت لگانا چاہیے۔ جب وہ ان وِچاروں کو اپنی دوستوں کے سامنے دوہراتی اور وہ اس تھیوری میں غلطیاں نکال کر اسے بھگوڑاپن ثابت کرتیں تو وہ من ہی من سوچتی کہ ان کا ایسا سمجھنا سوبھاوِک ہے۔ اتنے بڑے دانشور کا ساتھ جو نہیں ملا۔ وہ کتنی خوش قسمت ہے جو اسے ان کا ساتھ اور پریم دونوں ہی نصیب ہوئے۔

ایک دن اچانک ساتھ اور پریم دونوں چھوٹ گئے۔ امریکہ کے لیے وداع ہونے سے ایک دن پہلے انھوں نے بتایا۔ وہ بھی شاید اس لیے کیونکہ وہ ان کے کمرے پر اچانک آگئی تھی اور وہ پیکنگ کررہے تھے۔ جب اس نے شکایت بھرے لہجے میں پوچھا تو انھوں نے اسے ایک کرسی پر بٹھاکر، دیر تک بھاشن دیا — وہ کتنے اکیلے تھے، ہاں اس کے ہوتے ہوئے بھی، بلکہ اس کی موجودگی میں زیادہ اکیلے ہوجاتے تھے۔ کارن؟ اب کارن یوں تو صاف ہی تھا ہاں، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس کی  دماغی سطح کی وجہ سے۔ دراصل، انھیں اپنی برابری کا ساتھ چاہیے تھا، کوئی ایسا جس کا مانسک استر ان کے جتنا اونچا ہو، جو ہمیشہ انھیں جھنجھوڑتا رہے، جس کے ساتھ ان کا خیالی لین دین ہوسکے، جو بدلے میں انھیں اتنا ہی دے سکیں جتنا وہ دے رہے ہوں۔ پرتبھا نے سچ کو قبول کر سر جھکا لیا تھا۔ ہر بدھی جیوی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے جیسوں کو تلاش کرے اور ان میں ہی اپنا اصلی ساتھی ڈھونڈے۔ وہ اگر وہاں تک نہیں پہنچ سکی تو وہ کہاں دوشی ہوئے۔ اپنی کم عقلی اور ناسمجھی پر اسے کتنا غصہ آیا تھا۔ رو دھوکر جب سنبھلی تو ہر اس نام کو پڑھنا شروع کیا جو کبھی بھی، کسی سے بھی سنا تھا۔ اسے خود سے نفرت ہوگئی تھی، خود کو تکلیف دینے کے لیے وہ رات رات بھر جاگتی، اپنی گردن پر ہاتھ ٹکائے، کتابوں میں ناک گھسائے رہتی۔ اونگھتی تو گالوں پر زور کے تھپڑوں سے خود کو جگاتی۔ کیوں تھی وہ اتنی پچھ لگّو، اتنی مند بدھی! کیوں وہ جتنا بھی پڑھتی تھی، گیان کا آسمان اتنا ہی دور ہوتا جاتا تھا۔

سوبھاوِک تھا کہ دیدی نے اسے بٹھاکر ایک لمبا لیکچر جھاڑا، جس میں ہر دفعہ کیوں کے بعد ’میں نے تو پہلے کہا تھا‘ سے آخر تنگ آکر پرتبھا بپھر گئی تھی۔ پتہ نہیں سب لوگ انھیں دوشی کیوں مانتے ہیں۔ کیا اپنے گیان کو بڑھانے، اپنی لیکھنی کو دھار دینے کی خواہش ہونا غلط ہے۔ اگر میں ان کی اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتی تو یہ میرا دوش ہوا نہ۔ وہ تو اتنے اونچے ہیں کہ جسمانی رشتے کو بھی ہیچ مانتے ہیں اور کیول دماغی رشتے کو ہی اصلی سمبندھ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے تو بھرپور کوشش کی، لیکن اگر میرے دماغ کو اپنے برابر نہیں لاپائے تو اس میں ان  کا کیا قصور ہے۔

شاید، اگر وہ روتی پیٹتی، گالیاں دیتی، ڈپریشن میں چلی جاتی، نروس بریک ڈاؤن کے قریب آجاتی تو اس کے دوستوں، رشے داروں کو اچھا لگتا۔ لیکن اس کے دُکھ کو دور دھکیل دینے کی کوشش پر سب بگڑ گئے۔ بہتوں نے تو اسے ڈھیٹھ، بے شرم ۔۔ بے حس اپادھیاں دے ڈالیں۔ اپنے دُکھ اور اپمان کو ایک پروش، رام چرت مانس لکھنے میں لگا دے ایسی مثالیں  تو ہیں اس دیش میں، لیکن ایک عورت ایسا کرنے کے بارے میں سوچے تو اس کے چرتر اور اس کے پریم کی گہرائی دونوں پر شک کیا جاتا ہے۔ لیکن پرتبھا نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ اسے آگے بڑھنا تھا، کسی کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں، اپنے لیے۔

دوستوں نے خبر دی کہ امریکہ میں انھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ میں نوکری کرلی ہے اور بس پیسے کمارہے ہیں۔ لیکن پرتبھا جانتی تھی یہ سچ نہیں ہوسکتا۔ نوکری کسی مجبوری میں کی ہوگی، ان کا اور ڈھیروں پیسہ کمانے کی ہوس کا کہاں ساتھ ہوسکتا ہے۔ وہ تو لیفٹسٹ تھے۔

ڈرتے ڈرتے ایک دن وہ ایک نامی ادبی رسالے کے ایڈیٹر کے پاس اپنی کہانیاں لے گئی۔ اسے یقین تو تھا کہ وہ چھاپیں گے نہیں، پھر بھی اس نے ان سے گزارش کی کہ وہ کسی چھوٹی موٹی پتریکا میں چھپوادیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ ایڈیٹر نے دیر تک، بڑے دھیان سے اس کو دیکھا، تین دن بعد آنے کو کہا۔ چوتھے دن اسے بتایا کہ انھوں نے ایک کہانی لے بھی لی ہے اور ایک نشست میں آنے کی دعوت بھی دی۔ نشست میں اس نے رُک رُک کر، اٹک اٹک کر اپنی کہانی پڑھی۔ جب کئی لوگوں نے کہانی کی تعریف کی تو پہلے تو وہ سمجھی اس کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں، لیکن جب دوسری کہانی چھپی اور تیسری سے چوتھی ہوئی، اور عام پاٹھکوں کے پتر آنے لگے اور دوسری پتریکاؤں نے کہانیاں مانگنی شروع کردیں تب اسے یقین کرنا ہی پڑا کہ اس کی کہانیاں پسند کی جارہی ہیں۔

آٹھ سال کہانیاں لکھتے رہنے کے بعد اس نے اپنا پہلا ناول لکھا۔ کہانیوں کے مجموعے بھی چھپے اور نشستوں، سیمیناروں کے بلاوے بھی آتے رہے۔ وہ جانتی تھی اس کے پاس کہنے کے لیے بہت کم ہے اور جو بھی وہ کہتی ہے وہ بہت سیدھی سادی زبان میں کہتی ہے جس کی وجہ سے شاید اس میں وزن یا ٹکاؤ نہیں ہوتا۔ اس کے بھاشن کے کسی جملے یا اُداہرن پر تالیاں نہیں بجتیں، البتہ بھاشن کے بعد کئی لوگ آکر یہ کہتے کہ انھیں اس کا بھاشن پسند بھی آیا اور سمجھ میں بھی آیا۔ یہ پرشنسک وہ نامی گرامی بدھی جیوی تو نہیں ہوتے جن کے جملوں یا کٹاکچھوں پر ’واہ واہ‘ ہوئی ہوتی، مگر وہ سادھارن، عام، کم پڑھے لکھے لوگوں کی تعریف کو ہی بہت سمجھتی اور پاس ہی میں کھڑے بڑے بڑے گیانیوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہتی۔

بیس سال گزر گئے۔ وہ جانتی تھی — وہ اپنے مقصد کو لیے رینگ رہی ہے۔ امید کرتی ہے کہ آگے کی طرف رینگ رہی ہو۔ پتہ چلا کہ وہ واپس آگئے ہیں اور اسی شہر میں دوبارہ بس گئے ہیں۔ امیروں کے علاقے میں بڑا سا فلیٹ ہے، ایک خوبصورت پتنی، دو بچے بھی ہیں۔ پرتبھا نے ان سے ملنے کی کوشش نہیں کی اور وہ تو کوشش کرتے ہی کیوں؟ اب تو وہ ایک ایسی عورت کے ساتھ تھے جو یقیناً  پرتبھا سے کہیں زیادہ اعلیٰ دماغ کی ہوگی۔ تبھی تو انھوں نے اس کے ساتھ جیون بھر کا ناتا  جوڑا تھا۔ اس عورت کی صلاحیت پر پرتبھا کو رشک ہوتا تھا، جلن نہیں۔ ایسا ہونا سوبھاوِک تھا۔
تین دن کے سمینار کا بلاوا آیا۔ پتر کے ساتھ پروگرام میں پرتبھا نے دیکھا کہ جو اجلاس وہ کنڈکٹ کرنے والی ہے اس میں ایک مقالہ نگار وہ بھی ہیں۔ ہوسکتا ہے پرانے سمبندھوں کو جاننے والے کسی متر نے شرارت کی ہو۔ خیر، اس نے حامی کا جواب بھیج دیا۔ دونوں ہی باتیں سوبھاوِک تھیں۔

آج، دوپہر کے کھانے کے بعد سیشن شروع ہونا تھا۔ کھانے کے وقت بڑے تپاک سے ملے اور دیر تک اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے کھڑے بتیاتے رہے۔ اس کی کچھ کہانیاں پڑھی تھیں۔ زیادہ تر تو ابھی ادھ کچری تھیں، لیکن دو ایک میں جان تھی۔ پرتبھا کو تو جیسے پنکھ لگ گئے۔ کب وہ منچ پر پہنچی، کیسے صدر کو منچ پر مدعو کیا، کن شبدوں میں مقالہ نگاروں کا تعارف کروایا، کیا کہہ کر انھیں منچ پر آکر مائک سنبھالنے کی دعوت دی — اسے کچھ یاد نہیں۔ ہوش تو اسے تب آیا جب ان کے بھاشن پر سامعین نے اعتراض کرنا شروع کیا۔

پہلے پہل تو کیول اتنا ہی سنائی دیا — ”کیا کہہ رہے ہو؟“ ۔۔ ”کچھ کہیے بھی تو۔“ ۔۔۔”کیول بڑے بڑے نام اچھالنے سے کیا ہوگا؟“ ۔۔”سیدھی بات کہیے تاکہ سمجھ میں آئے!“ دھیرے دھیرے شور بڑھا تو وہ چپ ہوگئے اور ایک طنز بھری نگاہ پرتبھا پر ڈالی جیسے کہہ رہے ہوں — ”تمہیں ابھی تک سیمینار میں بگڑتے مجمع کو سنبھالنا بھی نہیں آیا؟“
پرتبھا نے فوراً اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا مائک ٹھونکا اور رعب سے بولی — ”چپ ہوجائیے آپ سب لوگ، بولنے والے کی پوری بات سنیے۔ یہ بھی کوئی طریقہ ہے۔ بھلا یہ پڑھے لکھوں کا جم گھٹ ہے یا رکشے والوں کا مجمع۔ کرپیا شانت ہوجائیں۔ سیشن کے بعد بحث کے لیے سمے ہے۔ اس میں ہم سب ہی اپنی اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔“

اب پرتبھا ذرا چوکس ہوگئی۔ مجمع پر بھی نظر رکھے رہی اور ان کے مقالے میں سے باتیں نوٹ کرتی رہی۔ آخر صدارتی تقریر سے پہلے، پورے سیشن کا نچوڑ اسے ہی دینا تھا۔ ویسے اسے یقین تھا کہ ان کا پیپر پورا ہوجانے تک، کسی کا بھی کوئی اعتراض باقی نہیں رہ جائے گا۔

ان کے بیٹھ جانے کے بعد پرتبھا نے دھنے  واد کے بعد شروتاؤں میں سے سوال اور سجھاؤ آمنترت کیے۔ ایک یووا لیکھک، جو کچھ سالوں سے اچھا لکھ بھی رہا تھا اور مہانگر میں رہنے کے باوجود، بیچ بیچ میں دیہات میں جاکر کام بھی کیا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کی تحریر میں سوندھی مٹی کی مہک آتی تھی، مائک پر آیا۔ لڑکا بہت سلجھا ہوا تھا۔ پرتبھا نے اطمینان کی سانس لی اور اپنی کرسی پر پیچھے ٹیک لگاکر بیٹھ گئی۔ پھر جب اس نے اپنا شکریہ کیا کہ انھوں نے بڑی اُچیہ بھاشا میں، بہت بڑے بڑے گیانیوں کو ’کوٹ‘ کرکے اپنی بات رکھی تو پرتبھا نے میز پر بچھے زمین تک کے سفید کپڑے کی آڑ میں اپنے پیر پھیلا لیے۔ اب کچھ گڑبڑ نہیں ہوگی۔ لیکن اس کے دوسرے واکیوں پر ہی وہ تقریباً اچھل کر سیدھی ہوگئی۔ وہ کہہ رہا تھا — ”کوٹیشن اور بھاشا تو ٹھیک ہے لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ  بات تھی کیا؟ آپ کیا کہنا چاہ رہے تھے یا یوں کہیے کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے بھی یا نہیں؟“

اس آخری جملے کے بعد پرتبھا خود پر قابو نہیں رکھ پائی۔ اپنی ہی جگہ پر کھڑے ہوکر زور سے بولی — ”کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ اتنے بڑے اسکالر کی آپ بے عزتی کررہے ہیں۔ آپ کی سمجھ میں نہیں آیا اس میں ان کا کیا قصور ہے بھئی! یہ تو آپ کی کم عقلی کا ثبوت ہے“

نوجوان ادیب مسکرایا اور بولا — ”میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں پرتبھا جی۔ آپ بہت سیدھی سادی بھاشا میں، بہت سادھارن طریقے سے اپنی بات  سامنے رکھتی ہیں۔ آپ ہی سمجھا دیجیے انھوں نے کیا کہا؟“

پرتبھا نے تمک کر اپنا رائٹنگ اٹھایا — ”بالکل سمجھاتی ہوں۔ تقریر کے شروع میں انھوں نے وہائٹ ریڈ اور سارتر کو کو ٹ کرتے ہوئے کہا ۔۔“ پھر جو اس نے کاغذ پر نظر دوڑائی تو اسے ان کوٹیشنوں، دلیلوں اور رائے سے بھرا پایا جو دوسروں کے تھے۔ بات سنبھالتے ہوئے وہ بولی — ”اگر وہ خود ہی آکر اپنی بات سمجھائیں تو شاید زیادہ اچھا ہو“
حال میں سے کسی نے کہا — ”اجی وہ تو کب کے نکل لیے پتلی گلی سے۔“ سب ہنسنے لگے۔

اس نے گھبرا کر اُدھر دیکھا جدھر وہ بیٹھے تھے۔ سیٹ خالی تھی۔ سکپکاکر اس نوجوان ادیب کو دیکھا۔ اس کی نظریں پرتبھا کی گھبراہٹ کو سمجھ رہی تھیں۔ دھیرے سے بولا — ”ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایسے لوگ بڑے  سکالر نہیں ہوتے، بڑے  سکالر ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔ اس ناٹک کو وہ کامیابی سے کھیل پاتے ہیں، یہی ان کی قابلیت ہے اور ہم لوگوں کا ناکارہ پن۔ دوش صرف آپ کا نہیں، ہم سب کا ہے کہ ہم ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔“

فلائی اوور گزر چکا تھا۔ صاف سڑک پر گاڑی دوڑ رہی تھی اور بار بار وہی سوال اپنی کسک لیے اس کے دل میں ٹیس مار رہا تھا۔ اس نے بیس سال انتظار کیا ایک ڈھونگی کے دو بول سننے کے لیے۔ کیا یہ بھی سوبھاوِک تھا؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply